نام نہاد صوفی اور عملی تصوف

انتظار حسین ،اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ اشفاق احمد تصوف سے بھی شغف رکھتے ہیں اور سگانِ دنیا کے بیچ گزارہ بھی سلیقے سے کرتے ہیں ، میں نے ایک مرتبہ اُن سے پوچھا اِن ضدّین کے ساتھ نباہ کیسے کرتے ہو تو انہوں نے مجھے تصوف کے کچھ رموز سمجھائے۔ کہا ’’روحانیت کی دو قسمیں ہیں۔ بندر روحانیت اور بلونگڑا روحانیت۔ــ بندر روحانیت کیا ہے ؟ یہی کہ بندر کا بچہ ماں سے چمٹا رہتا ہے۔ بندریا درختوں ،کوٹھوں پر لمبی چھلانگیں لگاتی ہے ،وہ اس کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ اگر کبھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو ایسا گرتا ہے کہ اس کا سر پاش پاش ہو جاتا ہے ۔ تو اے بندر کے بچے ، اے ظالم اور جابر انسان ! تو دانش سے وابستہ رہ‘ ورنہ ایسا گرے گا کہ تیرا سر پاش پاش ہوجائے گا۔ اور بلونگڑا روحانیت یہ ہے کہ بلی کا بچہ ماں کو نہیں پہچانتا، اس سے بے تعلق کسی بھی چیز کے ساتھ جو اُسے بھا جائے اس سے کھیلنے لگتا ہے مگر جب بھوک لگتی ہے یا کوئی اُفتاد پڑتی ہے تو میائوں کرتا ہے۔ ماں اس کی پکار سنتی ہے اور دوڑ کر آتی ہے ۔غافل انسان بھی یوں خدا کو بھُلا بیٹھتا ہے مگر جب مصیبت پڑتی ہے تو میائوں کرتا ہے اور اللہ غفور الرحیم فوراً اس کی میائوں سنتا ہے۔ تو اِسے اشفاق احمد کی بلونگڑا روحانیت سمجھو کہ وہ دنیا کے سارے شوق کرتے ہیں ۔ ٹی وی ریڈیو سے کھیلتے رہتے ہیں ۔ سیریل پہ سیریل باندھتے چلے جاتے ہیں ۔ بیچ بیچ میں میائوں کرتے ہیں اور اللہ میاں ان کی میائوں سنتا ہے۔‘‘ یہ اقتباس انتظار حسین کی ’چراغوں کا دھواں‘ کے ایک مضمون کا ہے ۔ میرے لیے اشفاق احمد اور انتظار حسین دونوں ہی لائقِ عقیدت و احترام ہیں ۔ اشفاق احمد گو آج اِس دنیا میں نہیں ہیں مگر اُن کی باتیں ، افکار اور تخلیقات اب بھی ان کے چاہنے والوں کیلئے مشعلِ راہ ہیں ۔ میں نے اشفاق صاحب کے دو انٹرویو کیے تھے ۔ ایک بات اب بھی مجھے یا د ہے کہ تصوف کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا تھا :’’ میں صوفی نہیں محض تصوف کا جرنلسٹ ہوں ‘‘ اشفاق احمد کی باتوں میں محبت کی خوشبو اور تاثیر ہوا کرتی تھی اور باتوں سے خوشبو یونہی نہیں آتی ، باطنی طور پر شفاف لوگوں کی گفتگو ہی پُر اثر ہوتی ہے۔اشفاق صاحب کے بعد تصوف اور روحانیت کے حوالے سے کئی کتابیں چھپ چکی ہیں مگر ان کتب میں تخلیقیت اور اثر آفرینی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔اصل میں ہمارے ہاں سب سے آسان کام صوفی بننا ہے ۔ اِس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، کسی بھی وقت کوئی شخص عمر کے کسی بھی حصے میں اپنے آپ کو صوفی درویش قرار دے سکتا ہے ۔ ہم نے پڑھا ہے کہ تصوف ایک راستہ ہے ۔ حواس کی نگہداشت بھی تصوف کی راہ پر لاتی ہے ۔ مگر آج غزل کا ہرشاعر بھی اپنے آپ کو صوفی شاعر کہلوانا پسند کرتا ہے ۔ بہت سے لکھنے والے اپنے کالموں کے وسیلے سے خود کو تصوف سے جوڑتے ہیں ۔ حالانکہ ہم سب دنیا دار لوگ ہیں جو اپنی ’’قُل خوانی ‘‘ تک بھی دنیا کی لذتوں اور خواہشوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ۔ کہتے ہیں کہ اپنے حواس کو ہر لحظہ قابو میں رکھنا بھی تصوف کی ایک صورت ہے ۔ صوفی دنیا میں رہ کر بھی خود کو دنیا سے آلودہ نہیں کرتا مگر ہمارے دلوں سے دنیا کی حُب جاتی ہی نہیں۔ ہم سب زندگی یزید کی اور آخرت امام حسینؑ کی مانگتے ہیں۔ حالانکہ دھوپ اور سایہ ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ ابوالعلامعری جیسا شاعر لکھتا ہے: ’’ حیف ہے اس نفس پر جو کھانے پینے کی محبت میں ذلیل بنا ہوا ہے۔ جب تک جسم میں لذت کوشی ، غصہ، غرور اور دنیوی لگائو کی کانیں موجود ہیں ، عالم اور جاہل ایک سے ہیں ــ‘‘ ادھر ہم لوگ ہیں کہ ناکوں ناک دنیا کی حرص ہوس میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتے ۔ ہم قرآن ، حدیث اور صوفیا کے اقوال سے رغبت رکھتے ہیں۔ ہم پیروں ، فقیروں اور ملنگوں کی تلا ش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور معجزوں کی جستجو میں رہتے ہیں ۔ہم عمل کی بجائے دعا سے ہر کام نکالنا چاہتے ہیں مگر اپنے روز و شب پر تفکر و تدبر نہیں کرتے۔ دن بھر اپنی تین انچ کی زبان سے چھ فٹ کے آدمی کو ہلاک کرتے رہتے ہیں ۔ دل آزاری ہمارے نزدیک کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہم سبھی ایسے اقوال سے آگاہ ہیں مگر اِن پر عمل کرنا ہمارے لیے دشوار تر ہے۔ البتہ ایسے اقوالِ زریں دوسروں کو سنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ: ’’ہر دن یوں گزارو جیسے زندگی کاآخری دن ہو‘‘ مگر خود اِس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ دیکھ لیں ہر طرف عجیب بھاگ دوڑ سی ہے ۔لوگ سکون کی تلاش میں ہیں مگر اپنے اند ر جھانکنے اور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر توجہ نہیں دیتے ۔ اللہ کے دوست فرماتے ہیں: ’’تصوف حال کا چھپانا اور اپنے مال و جاہ کو بھائیوں پر صرف کرنا ہے‘‘۔ عرفان اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی مشق کے بعد حاصل ہوتا ہے ، تبھی ہم خودی کے معنی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ خودی ایک نور ہے جس سے انسان میں شعور و آگہی کی شمعیں روشن ہوتی ہیں ۔ ہم نے بار ہا پڑھا ہے: ’’کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس کو پاک کیا ‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ: ’’ اپنے نفس کو باادب بنانے کیلئے کوشش کرو اور اِسے سخت عادات سے بدلو۔‘‘ میاں محمد بخش ؒ کا فرمان ملاحظہ ہو ؎ ریت وجود تیرے وچ سونا تینوں نظر نہ آوے ہنجو دا گھت پانی ایویں ریت مٹی رُڑھ جاوے پڑھنے دا نہ مان کریں توں نہ آکھیں میں پڑھیا اوہ جبار قہار کہاوے مَتاں روڑھ چھڈی دُدھ کڑھیا یعنی: تیرے ریت وجو د میں سونا تجھے دکھائی نہیں دیتا ، آنسوئوں کے پانی سے خود کو دھو ڈال تاکہ ریت مٹی بہہ جائے ۔ اپنے علم و کمال پر غرور نہ کر‘ نہ ہی خود کو عالم فاضل سمجھ کیونکہ وہ (رب ِ ذوالجلال) جبار اور قہار ہے‘ ایسا نہ ہو کہ تم کا ڑھا ہوادودھ ضائع کر بیٹھو ۔ علم و عقل کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ گزر جا عقل سے آ گے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے مگر ہم نے تو منزل اِسی دنیا کو سمجھ رکھا ہے۔ موت ہمیں یاد ہی نہیں ہے حالانکہ آنکھ والا وہ ہے جو خود کو بھی دیکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں