پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد سے ہر طرف ’’ہا ہا کار‘‘ مچی ہوئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عدلیہ کے آڑے آنے سے فی الحال واپس لے لیا گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے چیف جسٹس صاحب کا کہ کسی نہ کسی مسئلے پر ازخود نوٹس لے کر غریبوں کی دعائیں لیتے ہیں۔ تاجر دوست حکومت اور الیکشن سے قبل سبز وعدے کرنے والے حکمران تو کانوں میں انگلیاں دیے بیٹھے ہیں مبادا کوئی چیخ فریاد ان کے آرام میں خلل ڈال دے۔ حکومتی ترجمان فرماتے ہیں: ’’عوام کو صبر و شکر سے کڑوی گولی نگلنی پڑے گی‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کڑوی گولیاں ہر حکومت صرف عوام کیلئے تجویز کرتی ہے‘ حکومتی وزیر و مشیر اور اراکین ِ اسمبلی خود کڑوی گولی کے نزدیک بھی نہیں جاتے۔ ہو نا تو یہ چاہیے کہ صدر، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ، گورنروں اور وزیروں مشیروں کے اللے تللے کچھ عرصہ کیلئے بالکل بند کر دیے جائیں یعنی سرکاری مراعات میں شامل کئی کئی گاڑیاں ، مفت پٹرول ، دورے ، ٹی اے ڈی اے ، ہوٹلوں کے اخراجات‘ دفاتر اور کئی کئی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر خرچ ہونے والی رقوم بچانے کی انہیں کڑوی گولی کھلائی جائے اور عوام الناس کو جو قیام پاکستان سے اب تک کڑوی گولیاں کھاکھا کر خود کڑوے ہو چکے ہیں، ریلیف دینے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آخر یہ لوگ سیاست میں آتے کس لیے ہیں؟ مفت کی عیاشی، اختیارات، خصوصی پروٹوکول کیلئے ہی تو یار لوگ وزارتیں مانگتے ہیں ورنہ اراکین اسمبلی کے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ بعض بڑے سیاست دانوں کی دولت تو بیرون ملک محفوظ ہے۔ بعض کے بیوی بچے‘ جائیدادیں اور کاروبار تک باہر ہیں۔ یہاں تو یہ لوگ پاکستان کو ’’ چونڈنے‘‘ اور مسکین عوام پر حکمرانی کے لئے رہتے ہیں۔ ادھر عوام ہیں کہ دکھوں میں گھرے‘ ذلت اور رسوائی کا طوق گلے میں لٹکائے ہوئے بھی‘ نعرے انہی سیاسی پارٹیوں کے لگا رہے ہوتے ہیں۔ حالات کتنے ہی خراب ہو جا ئیں، انہی کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر کڑھتے رہیں گے مگر کسی وزیرمشیر اور صاحب ِ اختیار کے دفتر یا گھر کے سامنے پرامن احتجاج کرنے کیلئے کبھی نہیں نکلیں گے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ اس بے حسی کا اندازہ آپ نجی ٹرانسپورٹ میں مسافروں کی حالت سے لگا سکتے ہیں۔ مسافر ویگن کا کنڈکٹر زائد سواریوں کو ’’کوڈا‘‘ کر کے کھڑا کرتا ہے اور باقی اکڑوں بیٹھے ہوتے ہیں۔ چودہ یا سولہ سواریوں کی گنجائش رکھنے والی ویگن میں بیس بائیس سواریاں ٹھونس دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی ’’چُوں چاں‘‘ کر ے تو کنڈکٹر اسے ذلیل کرتا ہے۔ زیادہ کرایہ طلب کرنے کے خلاف بولنے والوں کی بے عزتی کرتا ہے مگر باقی مسافروں میں سے کوئی نہیں بولتا کہ تم زیادتی کر رہے ہو۔ ہر کوئی دوسرے کی بے عزتی پر خاموش رہتا ہے۔ اگر تمام سواریاں ایکا کرکے حسبِ گنجائش سواریوں سے زیادہ نہ بیٹھنے دیں‘ راستے میں مزید سواریاں بھرنے پر احتجاج بلند کریں تو ویگن والے باز آ جائیں‘ مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہم اندر سے بے حس ہوچکے ہیں۔ ہم دوسروں کیلئے خود کو مصیبت میں ڈالنے کا خطرہ مول لینے سے ڈرتے ہیں۔ آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ عوام پر چاہے کوئی کتنا ظلم و ستم کرلے‘ کوئی محکمہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرے‘ ہم چپ چاپ سہتے چلے جاتے ہیں۔ احتجاج کیلئے چند لوگ باہر آئیں بھی تو وہ اپنا غصہ، راہگیروں کی موٹر سائیکلوں ، کاروں یا وطنِ عزیر کی املاک پر نکالتے ہیں ۔ بھلا ٹریفک اشارے ، سائن بورڈز یا راہگیروں کی گاڑیوں کے شیشے توڑنے سے کیا بجلی‘ گیس یا پٹرول کی قیمتیں اپنی جگہ پر واپس آسکتی ہیں؟ یا امن قائم ہو سکتا ہے؟ لوڈشیڈنگ برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہے۔ لوگوں نے لوڈ شیڈنگ کے مطابق اپنے اوقات مقرر کر لیے ہیں اور بجلی کے بل بھی باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں۔ اگلے روز ایک خبر تھی کہ سرگودھا کے بشیر نامی کسان نے کھیتوں میں ہل چلانے کیلئے ٹریکٹر کی جگہ گدھا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ گویا ایک بار پھر کھیتوں میں بیل جوت کر ہل چلتا نظر آرہاہے۔ ہم سوچتے تھے کہ بجلی آنے سے ہماری نئی نسل لالٹین اور دیے سے ناآشنا ہو جائے گی اور واقعتاً چند برس پہلے کالجوں میں اگر کبھی ہم لالٹین کا سوال کرتے تو کئی بچوں کو اس بارے میں علم نہیں ہوتا تھا کہ لالٹین کیا چیز ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوںکی مہربانی سے لالٹینوں، دستی پنکھوں، دستی نلکوں اور دیہاتوں میں بیل گائے اور گدھوں سے ہل چلانے کا عہد پھر زندہ ہو رہا ہے۔ چودھری شجاعت نے درست کہا ہے کہ بہت جلد لوگ بجلی کنکشن کٹوا کر لالٹینوں سے گزارا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ موٹر سائیکلوں کی جگہ پھر سائیکلیں کثرت سے استعمال ہونے لگیں گی؛ بلکہ تانگہ اور بیل گاڑیاں یا گدھوں کی سواری مقبول ہوجائے گی۔ میاں صاحبان خواہ مخواہ مزید موٹر ویز بنانے کی زحمت کر رہے ہیں۔ جہاں تک بھتے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھنے کا تعلق ہے‘ اس کیلئے باقاعدہ قانون بنا دیا جائے اور بھتہ وصول کرنے والوں کو ٹیکس کے محکمہ کا ٹھیکہ دے دیا جائے۔ آخر ٹیکس بھی تو ایک سرکاری بھتہ ہے! فی الوقت یہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے زبردستی کاٹ لیا جاتا ہے یا پھر ہر شے پر جنرل سیلز ٹیکس لگا کر وصول کر لیا جاتا ہے۔ اپنی خوشی سے اور فرض سمجھ کر کتنے لوگ ٹیکس دیتے ہیں؟ اگر متمول لوگوں سے بھتہ مافیا بھتہ وصول کر سکتا ہے تو حکومت ان سے ٹیکس وصول کرنے سے کیوں قاصر ہے؟ سبب یہ ہے کہ ہر جگہ سفارش اور اثر ورسوخ چلتا ہے۔ تھانوں ،کچہریوں ، ہسپتالوں سے لے کر ہر ادارے میں دبائو ڈلوا کر کام نکلو ا لیا جاتا ہے۔ کسی با اثر شخص کی فیکٹری گیس یا بجلی چوری کررہی ہو تو اوپر سے ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کی کال آ جاتی ہے۔ ابھی کل ایک وزیر صاحب کا بیان تھا کہ گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے تاجروں اور صنعت کاروں کو بجلی چوری کرنے کے حوالے سے ناجائز تنگ نہ کیا جائے۔ نا جائز تنگ کرنا کیا ہوتا ہے؟ کسی ٹارگٹ کلر کو پکڑا جائے تو سیاسی جماعتیں انتقامی کارروائیوں کا واویلا کرنے لگتی ہیں ۔ ایسی جمہوریت اورا س کے حسن میں میرٹ اور انصاف کیسا؟ ہاں کڑوی گولیاں عوام کے ہاتھ باندھ کر زبردستی ان کے حلق میں ڈالی جا سکتی ہیں ۔ آخر یہی طریقہ ہے حالات ٹھیک کرنے کا۔ ہم تو عوام کو قتیل شفائی صاحب کا یہ شعر بھی نہیں سنا سکتے: ؎ دنیا میں قتیلؔ اُس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا