میرے افتخار کی سبکدوشی

جی نہیں! دھیان میں افتخار محمد چودھری کو مت لائیں، میرا افتخار اور ہے۔ پندرہ بیس روز پہلے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا: '' اگلے چند روز میں ملک کی تین اہم شخصیات مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو رہی ہیں‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور شعبہ حالاتِ حاضرہ پی ٹی وی کے سربراہ جناب افتخار مجاز ‘‘
میسج پڑھ کر برجستہ خیال آیا: ''بلاشبہ افتخار مجاز کسی سے کم نہیں‘‘ جنرل کیانی اور افتخار محمد چودھری پر میڈیا بہت مہربان رہا۔ ابھی تک کالم نویس ان دونوں حضرات کو موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ مگر میرا افتخار، میرے دیرینہ دوست افتخار مجاز ہیں‘ جو اگرچہ خود میڈیا سے وابستہ ہیں لیکن تشویش سی لاحق ہے کہ کہیں ''میڈیا تلے اندھیرے‘‘ میں افتخار مجاز دب کر نہ رہ جائیں‘ لہٰذا اپنے افتخار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ جو آج یعنی 14 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
افتخار مجاز سے پہلی ملاقات یاد نہیں، اتنا ضرور ہے کہ اسّی کی دہائی میں لاہور آتے ہی جن اولین شخصیات نے خوش آمدید کہا‘ اُن میں ایک افتخار مجاز بھی تھے۔ افتخار میںکوئی ایسی بات ضرور ہے کہ ان سے ملنے والا انھیں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ شاید ان میں اپنائیت، محبت اور دوستوں کو یاد کرنے اور رکھنے کی صفت دوسروں سے زیادہ ہے۔
افتخار مجاز کا تعلق ادب و ثقافت سے تھا‘ لیکن انہوں نے اپنی تخلیقی زندگی کے بہترین ماہ و سال پی ٹی وی کی جھولی میں ڈال دیے۔ افتخار ممتاز شاعر اور صداکار اعزاز احمد آذر کے چھوٹے بھائی ہیں مگر محبت اور انسان دوستی میں وہ اپنے بڑے بھائی سے دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔ کسی کا ان سے تعارف ہو جائے تو تعلق نبھانے میں اپنی طرف سے وہ کبھی کوتاہی نہیں برتتے۔ جہاں بیٹھتے ہیں محفل لگا لیتے ہیں۔ موضوع کوئی ہو، سچی اور کھری گفتگو کے دھنی افتخار مجاز اپنے آپ میں ایک جیتی جاگتی ''تاریخ‘‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یاد نگاری میں انہیں یدِطولیٰ حاصل ہے۔
افتخار مجاز اگر صرف شاعری کرتے یا نثر نگاری میں طبع آزمائی کرتے تو بہت سے اہم لکھاریوں سے کہیں زیادہ توجہ حاصل کر چکے ہوتے مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ صحافت شاعر کو ''کھا‘‘ جاتی ہے، ٹیلی ویژن بھی بہت سے باصلاحیت شعرا کو ہڑپ کر چکا ہے۔ ٹی وی سے وابستہ شعرا میں اِکا دُکا نام ہی شعری افق پر دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ سبھی لوگ سرمد صہبائی یا ایوب خاور تو نہیں ہوتے۔ شاعری کا چسکا کسی حد تک سبھی پروڈیوسرز کو ہوتا ہے۔ کچھ تو باقاعدہ صاحبِ کتاب ہونے کا شرف حاصل کر چکے ہیں مگر شاعری محض تعلقات عامہ سے نہیں چلتی۔ ایک زمانے میں صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اس کا پروڈیوسر ''بلا‘‘ شے سمجھا جاتا تھا۔ موسیقی، ڈراموں مشاعروں اور نیلام گھر قسم کے پروگراموں کے پروڈیوسر اپنے اپنے مدار میں خود کو ''سب کچھ‘‘ سمجھتے تھے لیکن آج انہی میں سے کچھ شاعر نما پروڈیوسرز ریٹائرمنٹ کے بعد بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔
افتخار مجاز کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ پی ٹی وی میں ان کے پاس اہل قلم کے لیے پروگرام نہیں ہوتے تھے لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے احبابِ ادب کو ٹی وی سکرین کی زینت بنا دیتے تھے۔ انہوں نے کتاب دوستی کے فروغ کے لیے ایک بہت ہی یادگار پروگرام ''کتاب‘‘ کے نام سے پیش کیا‘ جو تقریباًَ اڑھائی سال جاری رہا۔ پروگرام تو انہوں نے ہزاروں کیے جن میں ''ہفتہ رفتہ‘‘ ''ہفت روزہ‘‘ ''جائزہ‘‘ اور اِسی طرح کے کئی اور یادگار پروگرام شامل ہیں مگر معاشرے کے کتاب سے ٹوٹتے تعلق کو جوڑنے کے لیے پیش کردہ پروگرام ''کتاب‘‘ افتخار مجاز کی پگڑی میں سُرخاب کے پر کی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔ حالات حاضرہ کا ایک علاقائی پروگرام ''سوچ وچار‘‘ اب اپنی سلور جوبلی منا رہا ہے۔ اِسے افتخار مجاز نے نہ صرف شروع کیا تھا بلکہ یہ نام بھی افتخار ہی کا عطاکردہ ہے۔
افتخار ''یار باش‘‘ اور دل کے مریض ہونے کے باوجود، اب تک ''زندہ دل‘‘ ہیں۔ انہوں نے ملازمت کا آغاز 1980ء میں پی ٹی وی چک لالہ سے بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر کیا۔ پی ٹی وی اسلام آباد مرکز میں شعبہ حالات حاضرہ سے بھی وابستہ رہے اور ہاں انہیں پی ٹی وی کا پہلا ''پی آر او‘‘ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دوست بنانے میں عمر بسر کرنے کے باوجود، افتخار نے احباب کو کبھی کسی امتحان یا آزمائش میں نہیں ڈالا، گویا ان کی دوستیاں پُرخلوص اور بے لوث ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک پروڈیوسر سے زیادہ انہیں ایک جینوئن تخلیق کار اور ایک سچا دوست سمجھتے ہیں۔ یار لوگ اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے افتخار مجاز کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ دوستوں کا ہر راز اپنے سینے میں دفن کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ انہوں نے کالم لکھے تو کالم نگاری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جب اچانک اخبارات سے غائب ہوئے تو احباب نے پوچھا کہاں ہیں؟ جواب دیا پی ٹی وی کی ملازمت۔ سرکاری ملازمت میں بندہ کھل کر بات کیسے کر سکتا ہے؟ چودہ دسمبر کو افتخار مجاز یہ سرکاری عہدہ واپس کر رہے ہیں پھر وہ ''کھُل کھلا‘‘ کر لکھ سکتے ہیں اور اِس بار ان کا ارادہ یادداشتیں رقم کرنے کا ہے۔ وہ چاہتے تو اب تک کئی کتب کے مصنف کہلوا سکتے تھے لیکن اب تک ان کی صرف ایک کتاب ''اردو کا آخری داستان گو‘‘ منظرعام پر آئی ہے‘ جو اشفاق احمد کے حوالے سے مختلف حضرات کے مضامین پر مشتمل ہے۔ بے پناہ مصروفیت کے باوجود انہوں نے پڑھنا‘ لکھنا کبھی ترک نہیں کیا۔ کئی ادیبوں سے زیادہ مطالعہ کرنے والے افتخار مجاز دنیا بھر کے اہلِ قلم سے خط و کتابت کے ذریعے اب بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے کئی مسودات اشاعت کے لیے تیار ہیں‘ جن میں شخصی خاکے ''مجاز یار‘‘ فکاہیہ مضامین ''مجاز بخیر‘‘ اور اخباری مضامین پر مشتمل ''جہانِ خراب‘‘ شامل ہیں۔ امید ہے اب یہ مسودات کتابی صورت میں ڈھل جائیں گے۔ یہ بھی ایک کریڈٹ ہے کہ جن ادیبوں شاعروں کو ٹی وی کے ادبی پروگراموں میں کبھی یاد نہ کیا گیا‘ اگر کبھی وہ سکرین پر دکھائی دیے تو صرف اور صرف افتخار مجاز کے کسی پروگرام میں اور بس۔ افتخار نے ایسے ہی ادیبوں، شاعروں کو اپنے پروگراموں اور تحریروں میں پروموٹ کیا۔ ایسی شخصیات کے لیے تقریبات کہاں ہوتی ہیں مگر جب کبھی ایسے جینوئن تخلیق کاروں کے لیے کوئی تقریب منعقد ہوتی ہے تو وہاں افتخاز مجازہمیشہ ان کے حق میں کلمہ خیر کہنے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ان سے بھلے ملاقات کم رہتی ہے مگرمجھے وہ اعزاز احمد آذر، اظہر جاوید، افضال شاہد اور مدثر اقبال بٹ کی محبتوں کی نسبت سے بھی اپنے دل کے بہت قریب لگتے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ، میری نظر میں، پی ٹی وی سے ایک بڑے آدمی کی رخصتی ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کو اپنی جوانی کے بہترین سال نذر کیے۔ توقع ہے پی ٹی وی ان کی ریٹائرمنٹ پر کوئی یادگار پروگرام ضرور پیش کرے گا۔ افتخار مجاز جی! چلیے واپس آجائیے اپنے ادبی قبیلے میں... کہ ہم کھُلی بانہوں سے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں