یہی دو چار لمحے ہیں

اکیسویں صدی کے انسان کی طرح میرے پاس بھی صرف اورصرف وقت کی قلّت ہے۔ ہم لوگ صبح بھاگتے بھاگتے ادھورا ساناشتہ کرتے ہیں یعنی آدھا سلائس منہ میں اور چائے کا ایک گھونٹ حلق میں اتارکر دن کی بھیڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ہر روز بہت سے کاموں کی فہرست بنا کر سوتے ہیں، جاگ کر دن بھر اِن کاموں کو نمٹاتے رہتے ہیں‘ پھر بھی کئی کام اگلے روز پر جا پڑتے ہیں۔
اگلے روز جاگا تو یاد آیا‘ ''آج مجھے کالج جلدی پہنچنا ہے‘‘۔ ناشتہ کیا اورجلدی جلدی اخبارات کی شہ سرخیا ں دیکھیں کہ رات کو تفصیل سے پڑھتا رہوں گا۔ ایک خبر پر نظر یں چپک گئیں ''اصغر ندیم سید پر قاتلانہ حملہ‘‘... یاربِّ ذوالجلال ! خیر ہو... یہ کیا ہوگیا‘ اب شاعروں‘ ادیبوں اور فن کاروں جیسی بے ضرر مخلوق بھی حملوں کی زد میں آنے لگی ہے۔ دانشور ،لکھاری اور شاعر‘ ادیب تو معاشرے کی آنکھیں ہوتے ہیں۔ یہ تو راہ دکھانے اور محبتیں تقسیم کرنے والے لوگ ہیں۔ ان سے دشمنی کیسی؟انہی سوچوں میں گم ٹریفک کے اژدھام میں رینگ رہا تھا۔ اصغر ندیم سیّد کا موبائل مسلسل بند تھا،اب کس سے پوچھا جائے؟ کالج کے بکھیڑوں سے فارغ ہوتے ہوتے تین بج چکے تھے۔کئی فون رہ گئے۔کسی جگہ سگنل نہیں ،کہیں آگے فون بند ۔ ایک بار پھرشہر میں نکلا‘ ٹریفک میں گھنٹہ بھر سڑک پر رہا۔آذر صاحب سے مسلسل رابطے کے باوجود حسن اعزاز کی کتاب تک رسائی نہیں ہو پا رہی تھی۔ تقریب میں چوبیس گھنٹے باقی تھے‘ خیراگلے روز کالج کے گیٹ پر کتاب موجود تھی۔ فوراً بیگ میں ڈال لی ،سوچا کالج کے خصوصی سیمینار میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی آئے ہوئے ہیں، ان سے فراغت پا کر کتاب دیکھ لوں گا۔
مگر کتاب پاس ہو کر بھی دور تھی۔گھر میں مہمانوںکی مصروفیات نے وقت کا احساس نہ ہونے دیا۔ اب رات کا ایک بج چکا ہے ۔کتاب نکالی‘ ٹائٹل پر نگاہ کی،حسن اعزاز کی مسکراتی تصویر کے ساتھ لکھا تھا: ''یہی دو چار لمحے ہیں ‘‘
میں دیر تک انہی دو چار لمحوں میں کھویا رہا۔کیا کسی نئے شاعر کے شعری مجموعے کا اتنا فکر انگیز نام ہوسکتا ہے؟ نہیں ۔ایسابہت کم دیکھا ہے ۔کتاب کا دروازہ کھولا کہ یہی دوچار لمحے ہیں، آگے بڑھوں مگر ٹائٹل مجھے آگے نہیں جانے دے رہا تھا۔ آج کا انسان د ن بھر کتنا مصروف رہتا ہے۔اس کے پاس سوچنے کی بھی فرصت نہیں۔ بعض کے پاس مسکرانے کا بھی وقت نہیں۔ حسن کی مسکراتی تصویر میں اترا تو اعزاز احمد آذر کے عہدِ شباب سے ملاقات ہو گئی ۔ملتا ن میں جب ہم شعرو ادب کی محافل میں جانے لگے تو وہاں مشاعروں میں اعزاز احمد آذر کا طوطی بول رہا تھا۔اُن دنوں آپ پاکستان نیشنل سینٹر کے ڈائریکٹر تھے۔ہر مشاعرے کا اختتام ان کی نظم '' فرض کرو‘‘ پر ہوا کرتا ۔آذر صاحب ہر مشاعرے کی ضرورت تھے۔میں نے اپنا پہلا مشاعرہ بہاولپور میں پڑھا تھا۔غالباً وہ آرٹس کونسل کا سالانہ مشاعرہ تھا۔ میں نے آذر صاحب کی مشہور غزل ''تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا‘‘ اسی مشاعرے میں سنی تھی ۔اس مشاعرے کے اہم ''ڈاکو‘‘ آذر صاحب ہی تھے۔اسی مشاعرے میں رفعت سلطان صاحب نے اپنی مشہور غزل بھی سنائی تھی۔
اِک نظر مڑ کے دیکھنے والے 
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہو گی
آذر صاحب کا لڑکپن ہم نے نہیں دیکھا۔البتہ حسن اعزاز کی صورت میں ہم آذر صاحب کی جوانی دیکھ سکتے ہیں۔حسن اعزاز کا شاید یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ مجھے اس کے پہلے شعری مجموعے کی تقریب میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس تقریب کے صدارتی خطبے کااختتام جناب احمد ندیم قاسمی نے حسن کی شاعری کی توصیف کے بعد اِن الفاظ میں کیا تھا۔ ''اللہ بہت برکت اور استقامت دے‘‘
الحمد للہ حسن کی شاعری میں برکت بھی نظر آرہی ہے اور استقامت بھی۔وہ سہ ماہی شعری مجموعوںکا قائل نہیں۔ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب میں 13 برس کا وقفہ بہت ہوتا ہے۔
اور پھر دوستو! ''یہی دو چار لمحے ہیں‘‘ آپ ان لمحوں کو ضائع نہ ہونے دیں۔ میں نے بھی لمحوں کا دروازہ وا کر رکھا ہے۔رات کا سناٹا ہے۔ باہربے پنا ہ دُھند اور سخت سردی ہے۔ایسے میں نوجوان شاعر میری دھڑکنوں میں سر گوشیا ں کرتا ہے۔ ''یہی دو چار لمحے ہیں‘‘ لیکن ہم ایسے بے حد مصروف لوگوں کے پاس ایک پَل بھی نہیں کہ ہم سوچ سکیں کہ '' یہی دوچار لمحے ہیں‘‘ کیا ہمیں اردگرد کا احساس ہے، ہمیں تو اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، کتابیں پڑھنے کا وقت بھی کس کے پاس ہے۔حسن نے روایتی شعری عنوان کے بجائے بہت ہی چونکا دینے والا نام رکھا ہے‘ جو ہمیں تفکر پر مائل کرتا ہے۔ بالکل میاں محمد بخشـ کی طرح:
لوئے لوئے بھر لے کُڑئیے جے تدھ بھانڈا بھرنا
رومانی عمر میں ایسی فکری پختگی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے:
آپ محسوس ہو رہے ہیں مجھے
رقص میں کائنات ہے ساری
اب مجھے خود سے آشنائی دے
اِس اندھیرے کو روشنائی دے
شور مچ جائے ہر رگِ جاں میں 
اور بھرے شہر میں سنائی دے
اور بھی لوگ ہیں زمانے میں 
ایک صورت ہی چار سُو کیا ہے
رومان کی پگڈنڈی انسان کو اس کی اصل تک لے جاتی ہے اور وہ صوفیانہ منزل کو نکل جاتا ہے،غور کریں تو ہمارے پاس محبت کے لئے بھی دوچار لمحے ہیں۔محبت اور فقر ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔حسن اعزاز کو شاعری کا فن وَرثے میں ملاہے۔ وہ اعزازا حمد آذر کا ہونہار بیٹا اور افتخار مجاز کا بھتیجا ہے۔یہی سبب ہے کہ اس کے ہاںرومان اور تفکر کی ایک لہر ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔ 
میں تو اس کے پہلے مجموعے '' تو کیا میں یاد آتا ہوں ‘‘ سے ہی اس کی اٹھان سے مطمئن تھا۔اس کا یہ شعر مجھے اب بھی یاد ہے:
کم سے کم کھل کے رو تو سکتی ہیں
ہم سے تو لڑکیاں ہی اچھی ہیں
شعر میں بھی مرد بولتا ہوا نظر آتا ہے۔اسی مردِ رعنا کے تازہ مجموعے کی غزلیں، اس کے ارتقائی مراحل کی گواہی دیتی ہیںکہ ایک حسّاس دل اپنے اردگرد سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے ایک سچے شاعر کی طرح اپنی معصومیت اور سادگی میں گوندھ کر صفحہ قرطاس پر بکھیردیتا ہے۔ شاعری ایک درویشی کا م ہے۔ آج کے بہت سے جلد باز نوجوان شعرا راتوں رات دنیا بھر کے مشاعرے پڑھنے کے علاوہ خو دپر تھیسس لکھوا کر اَمر ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ بقول ظفر اقبال صاحب مصرع بنانے کا ہنر کمانے میں ایک عمر صرف ہوتی ہے تب کہیں ایک ''مصرع تر ‘‘ میسر آتا ہے۔ 
مجھے خوشی ہے کہ حسن نے استقامت اور برکتوں کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔احمد ندیم قاسمی کی دعا قبول ہو گئی ہے۔ہم اس کے دوسرے مجموعے میں کیسی اچھی اچھی غزلیں اور نظمیں پڑھ رہے ہیں۔
اچھی شاعری تبصروں سے بے نیاز ہوتی ہے۔
چند اشعار بلا تبصرہ پڑھئے کہ یہی دو چار لمحے ہیں۔
میں اِس خیال سے لپٹا تھا، حوصلہ دے گا
اسے گلے جو لگایا تو رو پڑا وہ بھی
کام سارے بگڑ بھی جاتے ہیں
اس میں دانائی اور ہوتی ہے
ہر طرف ایک سا ہی منظر ہے
ہر طرف آپ ہی مقابل ہیں
ہائے وہ نیند سے بھری آنکھیں
جیسے مدھم چراغ جلتے ہیں
آخر میں صرف یہی کہوں گا بقول حیدر دہلوی:
ابھی ماحول عرفانِ ہنر میں پست ہے حیدر
یکایک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
(''یہی دوچار لمحے ہیں‘‘ کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا) 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں