پاک ٹی ہائوس کی دوبارہ تزئین و آرائش کی خبر سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے۔خدا کرے اس بار کی تزئین و آرائش قائم رہے۔پاک ٹی ہائوس تیسری بار سرکاری خرچ پر نئی آب و تاب حاصل کرے گا،جب ٹی ہائوس کے زاہد نے پہلی بار اسے ٹائروں کی دکان میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت حکومت کی طرف سے اکادمی ادبیات پاکستان نے اس کی حالت بہتر کرنے کے اقدامات کیے۔اُن دنوں اکادمی کے چیئر مین جناب نذیر ناجی تھے۔مجھے یاد ہے اس سال سرکاری ادبی اعزازات کا اعلان بھی ٹی ہائوس میں جناب نذیر ناجی نے کیاتھا۔ٹی ہائوس کچھ عرصہ نئے فرنیچر اور نئی کراکری کے ساتھ ادیبوں کو برداشت کرتا رہا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ٹی ہائوس پھر بند ہو گیااور حلقہ اربابِ ذوق کے ادبی اجلاس فٹ پاتھ پر ہونے لگے۔مقدمات قائم ہوئے،احتجاج ہوئے،میڈیا پر ادیبو ں کے احتجاج کو بڑی کوریج بھی ملی۔لاہور کی انتظامیہ نے ناصر باغ میں ادیبوں کے بیٹھنے کا بندوبست کیا پھر اس وقت کے گورنرخالد مقبول نے دلچسپی لی اور الحمرا آرٹس کونسل کے ہال تھری میں ادبی بیٹھک قائم ہوگئی۔ اس میں آرٹس کونسل کے اس وقت کے سربراہ اصغر گیلانی مرحوم کی کاوشیں بھی شامل تھیں۔ بعدازاں میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے اپنے پچھلے دور میں پاک ٹی ہائوس کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لی ، ٹی ہائوس میں اندرونی سطح پر تبدیلی بھی لائی گئی۔فرنیچر بد ل گیا ، کراکری نئی آ گئی، اوپر والے حصے میں بیٹھنے کے لیے بھی کرسیاں لگا دی گئیں ۔نیچے والے حصے میں صوفے ختم کر دئیے گئے۔ایک اور نیا کام یہ کیا گیا کہ
دیواروں پر اہلِ قلم کی چھوٹی چھوٹی تصویریں بھی لگادی گئیں ، کچھ لکھنے والوں کی دو دو اور کچھ کی ایک تصویر بھی نہیں ۔ ان کا سائز بہتر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود بھی پرانا ماحول قائم نہیں ہوسکا۔ البتہ حلقے کی واپسی کے سبب اب اتوار کو اہل قلم یہاں آنے لگے ہیں۔ مگر نیچے والے حصے میں کرسیوں پر اجنبی بیٹھے ہونے کی وجہ سے انہیں کرسیاں نہیں ملتیں۔اب تیسری بار اس کی تزئین و آرائش کا اعلان ہوا ہے۔کچھ عرصہ پہلے بھی ہم نے پاک ٹی ہائوس کے حوالے سے کالم لکھاتھا، کچھ اور دوست بھی اس پر لکھتے رہتے ہیں۔ اس کالم کے بعد فیس بک کے ذریعے ہماری ایک شاگردنے رابطہ کیا۔وہ اِن دنوں اولڈ سٹی اتھارٹی میں کام کرتی ہے ۔اس نے کچھ معلومات حاصل کیں اور پاک ٹی ہائوس کے حوالے سے اپنے محکمے کے منصوبوں کا ذکر کیا۔میں نے اپنی بساط کے مطابق پاک ٹی ہائوس کے حوالے سے اسے کچھ باتیں بتائیں لیکن پاک ٹی ہائوس کی مکمل تاریخ کے لیے اسے ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا اور ڈاکٹر یونس جاوید کے علاوہ حلقے کے سیکرٹری ڈاکٹر غافر شہزاد کے فون نمبر دے دئیے۔
اس نے بتایا کہ فورٹ روڈ‘ فوڈ سٹریٹ اور پاک ٹی ہائوس کی تزئین و آرائش کے لئے منصوبہ بندی پر عمل جاری ہے۔ پاک ٹی ہائوس میں ادیبوں ،شاعروں کو خصوصی ڈسکائونٹ بھی دیا جائے گا۔اصل میں یہ ادارہ ٹی ہائوس کو سابقہ شکل میں بحال کرنا چاہتا ہے۔یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اب اولڈ سٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام ماہانہ ادبی نشستیں بھی شروع کی جائیں گی۔پاک ٹی ہائوس کو نوجوان طلبہ میں مقبول بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ان کے لیے بھی ڈسکائونٹ کارڈ جاری کیے جائیںگے۔
اولڈ سٹی اتھارٹی ادب و ثقافت کے لیے متحرک ہے تو شہر میں کئی اور جگہوں پر بھی ایسی سرگرمیاں شروع کی جاسکتی ہیں۔ نئی نسل کو لائبریریوں کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے اور لائبریریوں میں ادبی نشستوںکو رواج دیا جاسکتا ہے۔
شہر کے تعلیمی اداروںمیں بھی ادبی ثقافتی ماحول پروان چڑھانے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں‘ اس سے علم و شعور، رواداری اور برداشت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان اور دیگر ادبی اداروںکو بھی لوگوں میں کتب بینی کی عادت عام کرنے کے لیے اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔ کتابیں
سستی کرنے کے لیے پبلشرز کو بغیر سود قرضے دینے کی سکیمیں شروع کرنے سے بھی لوگ کتب بینی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔اس وقت یوتھ فیسٹیول پر کتنی رقم لگائی گئی ہے۔ نوجوانوں کے لیے ایسے میلے بھی مثبت سرگرمی سہی لیکن اس رقم سے لائبریریوں کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ثقافتی اور ادبی اداروں کی گرانٹس بہتر کی جاسکتی تھیں۔ کئی ادبی ثقافتی اداروں کے فنڈز بند ہیں ، انہیں بحال کیا جا سکتا تھا۔ کیاخوش آمدید اور اظہارِ تشکر یا حکمرانوں کی بڑی بڑی تصاویر پر مشتمل اشتہار ات پر رقوم ضائع نہیںکر دی جاتیں؟صرف اپنی تصویر اور نام و نمود کے لیے اشتہار بازی قطعی نہیں ہونی چاہیے۔لیکن بہت افسوس ہو تا ہے کہ اب تو ٹیکسٹ بک بورڈ کی نصابی کتب پر بھی حکمرانوں کی تصاویر شائع کرنے کا رواج عام ہے ۔کیا حکمرانوں کے پیغامات، نصابی کتابوں پر ضروری ہیں؟شہر ت کی بھوک کم از کم با اختیار لوگوں کو تو نہیں ہونی چاہیے۔بات پاک ٹی ہائوس اور فوڈ سٹریٹ کی دوبارہ بحالی سے چلی تھی۔ہم کہتے ہیں ضرور بحال کریں ۔فوڈ سٹریٹ کے ساتھ ساتھ بک سٹریٹ بھی قائم کریں اور سب سے بڑھ کر ایسی سٹریٹس میں سکیورٹی کا مکمل بندوبست بھی کریں۔جب تک سکیورٹی کے مسائل حل نہیں ہوجاتے ایسی جگہوں پر کون جائے گا؟اور پھر امن پسند تخلیق کاروں کو اگر تحفظ فراہم نہ ہو تو اس معاشرے کو معاشرہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ابھی چند روز قبل ہمارے بہت ہی ا علیٰ پائے کے ڈرامہ نگار ادیب اور پروفیسر اصغر ندیم سیدپر فائرنگ کی گئی۔کیا اب اس معاشرے کی سچی عکاسی بھی نہ
کی جائے ؟ادیب شاعر تو معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں، محبت کا درس دینے اور نفرتوں کو ختم کرنے والے لوگ ہوتے ہیں،سماج میں اعلیٰ قدروں کے امین ہوتے ہیں۔انہیں تحفظ نہ دیا گیا تو پھر ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔اگر اولڈ سٹی اتھارٹی یا حکومت معاشرے میں ادب و ثقافت کو بحال کرنا چاہتی ہے تو تخلیق کاروں اور فنکاروں کی عزتِ نفس بحال کرنے کے ساتھ ان کے اداروں کی سرپرستی کی طرف توجہ بھی دے‘ کیونکہ سیاستدان صرف اپنے اقتدار کی بات کرتا ہے جبکہ ادیب انسان اور اس کے آنے والے کل کی بھی سوچتا ہے۔ نہ جانے کیوں اس وقت انتظار حسین کی شہرہ آفاق کہانی ''زَرد کتا‘‘ کا اقتباس یاد آگیا ہے۔ کچھ ایسا ہی مفہوم تھا۔ بلا تبصرہ ملاحظہ کیجئے :
'' میں یہ سن کر عرض پرداز ہوا یا شیخ ! ''زَرد کتا ‘‘کیا ہے؟ فرمایا : زرد کتا تیرا نفس ہے۔ میںنے پوچھا یا شیخ ! نفس کیا ہے؟ فر مایا : نفس طمعِ دنیا ہے۔میں نے سوال کیا یا شیخ! طمعِ دنیا کیا ہے؟ فرمایا : طمعِ دنیا پستی ہے۔ میں نے استفسار کیا : یا شیخ ! پستی کیا ہے؟ فرمایا : پستی علم کا فقدان ہے۔ میں ملتجی ہوا ۔ یا شیخ ! علم کا فقدان کیا ہے؟ فرمایا : دانش مندوں کی بہتات۔میں نے پوچھا:یا شیخ! عالم کی پہچان کیا ہے؟ فرمایا : جس میں طمع نہ ہو۔ عرض کیا : طمع دنیا کب پیدا ہوتی ہے؟ فرمایا : جب علم گھٹ جائے۔ عرض کیا علم کب گھٹتا ہے؟ فرمایا : جب درویش سوال کرے،شاعر غرض رکھے،دیوانہ ہوش مند ہو جائے ،عالم تاجر بن جائے اور دانش مند منافع کمانے لگے‘‘۔