بڑو ں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں

چلیے پہلے شعر ملاحظہ کیجئے:
میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں
بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں
جھنگ کے شاعر رام ریاض نے غالباً ایسے ہی موقعوں کے لیے یہ شعر کہا ہوگا۔ جی ہاں یہ واقعہ اب خبر کا روپ دھار چکا ہے ، اگلے روز تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ نوّے سالہ حاجی ایوب کو اس کے بہو بیٹے اور پوتوں نے گھر سے نکال رکھا ہے اور اس ضعیف العمری میں پچھلے دس برسوں سے وہ مسجد میں زندگی کے دن بسر کر رہا ہے۔حاجی ایوب کے سنگی ساتھی مسجد کے وہ نمازی ہیں جو باقاعدگی سے اس کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اوراپنے گھروں سے اس کے لئے کھانے کا بندو بست بھی کرتے ہیں۔بوڑھے حاجی ایوب کا اپنا گھر بھی ہے مگر وہ پھر بھی در بدر ہے یعنی بقول بیدل حیدری:
گھر گھاٹ کے ہوتے ہوئے بے گھر کی طرح ہیں
ہم شہر بدر لوگ ابو ذر کی طرح ہیں 
خبر کے مطابق عمر رسیدہ ایوب کو اس کے مسجد کے ساتھیوں نے کاندھوں پر اٹھا کر ایک عدالت میں پیش کیا، بوڑھے باپ کی طرف سے یہ الزام ہے کہ اس کے بہو، بیٹے اور پوتوں نے زبردستی اس کا مکان اپنے نام کرانے کے بعد اسے گھر سے بے دخل کر رکھا ہے،یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے بیٹے اور پوتے اسے اللہ کے گھر میں آکر زدوکوب کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔
اس واقعے سے مجھے گلزار یاد آ گیا ہے۔ جی ہاں گلزار ہی اس کا نام تھا، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میری پوسٹنگ قصو ر کالج میں تھی اور مجھے ہر روز لاہور سے قصور جانا پڑتا تھا۔اس سے میری ملاقات اسی سفر کے دوران میں ہوئی تھی۔وہ ہر روز مجھے جی ٹی ایس بس میں نظر آیا کرتا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں دو چار اگر بتیوں اور ماچسوں کے پیکٹ ہوا کرتے تھے، وہ بس میں یہ پیکٹ بیچتا نظر آتا تھا۔ایک روز بس آنے میں دیر تھی ،میں بنچ پر بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ وہ بھی میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا، ادھر اُدھرکی باتوں کے بعدمیں اُس سے پوچھ بیٹھاکہ ان پیکٹوں سے روزانہ کتنے پیسے کما لیتے ہو؟ وہ بولا یہ کمائی کا ذریعہ نہیں، یہ تو وقت گزاری کا بہانہ ہے۔ کیا مطلب؟ کیا تم یہ سب وقت گزارنے کے لیے کرتے ہو؟ میں نے حیرت سے پوچھا تو اس نے کہا: ''جی یہ کوئی برا کام تو نہیں، کم از کم بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے۔ ‘‘ میں نے کہا : میرا پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا اس سے گزارا ہو سکتا ہے؟اس نے تحمل سے جواب دیا : '' اصل میں اس سے کوئی زیادہ رقم تو نہیں ملتی، البتہ اس سے میں اپنے بوڑھے دوستوں کے لئے چند خوشیاں ضرور خرید لیتا ہوں۔ ‘‘ '' کیا مطلب؟‘‘ میرے سوال پر اس کی کہانی دھیرے دھیرے مجھ پر کھلتی چلی گئی۔ وہ کہہ رہا تھا:
'' میں محکمہ ریلوے میں ملازمت کرتا رہا ہوں ، ریٹائرمنٹ پر جو رقم ملی اس سے ایک گھر بنا لیا، عمر قناعت میں بسر کی، دو بیٹے تھے دونوں کو تعلیم بھی دلوائی،آج ایک سول سیکرٹر یٹ میں ملازم ہے اور دوسر ا واپڈا میں ، الحمدللہ دونوں کی شادیاں بھی کیں،مگر ایک غلطی یہ کی کہ اپنا مکان اپنے بیٹوں کے نام کر دیا۔ جب ان کی ماں بیمار ہوئی تو ہم اپنی بہوئوں اور بیٹوں کے لیے بوجھ بن گئے،ماں کو شاید ان پر ترس آگیا۔ وہ تو جلد ہی ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی مگر مجھے مزید ان کے '' رحم وکرم ‘‘ پرچھوڑ گئی۔ مجھے پینشن بھی ملتی ہے اس کے باوجود گھر میں میری حیثیت نوکر کی تھی۔ میں گھر کا سوداسلف اور بچوں کو سکول چھوڑنے اور لانے کی ڈیوٹی پر مامور ہو کر رہ گیا۔ ایک روز طبیعت کچھ خراب ہوئی تو بیٹوں نے مجھ سے نجات پانے کی سوچ بچار شروع کر دی۔ ایک روز بہانے سے بڑا بیٹا مجھے ایک اولڈ ہوم میں چھوڑ گیا۔ میں بھی اس گھر میں کچھ زیادہ خوش نہ تھا ، اسی کو قسمت کا لکھا سمجھ لیا۔ وہیں مجھے پتہ چلا کہ ایک میں ہی اولاد کی نافرمانی اور
گستاخیوں کا شکار نہیں، میرے جیسے اور بہت سے ہیں جن کے بچوں نے میرے بیٹوں سے کہیں زیادہ ان کا دل دکھایا ہواہے۔ کئی بوڑھے دوستوں نے جب اپنی کہانیاں مجھے سنائیں تو میں خود کو ان سے بہت بہتر خیال کرنے لگا۔ مجھے تو پھر اپنی پینشن کا سہارا بھی تھا۔ کئی لوگ تو بالکل بے یارو مدد گار تھے۔بعض بوڑھے خواتین و حضرا ت ایسے بھی ہیں جن کو ان کے بچوں نے مار پیٹ کر گھروں سے نکال دیا ہے۔ میںان بوڑھوں سے قدرے توانا بھی تھا، سوسب کی خدمت کرتا، میں نے اس چاردیواری میں قید ہونے کی بجائے دن بھر یہ پیکٹ فروخت کرنا شروع کر دئیے ہیں ۔ اس سے جو رقم حاصل ہوتی ہے، میں اپنے دوستوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں خرید لیتا ہوں ،کسی کی سالگرہ ہوتو پھول کیک اور تحائف لے جاتا ہوں ، اس کے علاوہ دیگر کئی معمولی ضروریات بھی ہوتی ہیں ،میں اپنے عمر رسیدہ احباب کے چہروں پر خوشیوں کے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔بس یہ اگر بتی اورماچسوں کے پیکٹ بیچنا میرا مشغلہ ہے یہ میرا کاروبار نہیں ہے۔ میں جم کر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا اسی لئے چلنے پھرنے میں خوش رہتا ہوں۔ایک تو وقت آسانی سے کٹ جاتا ہے اور دوسرا کچھ رقم بن جاتی ہے، جس سے میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش ہو لیتا ہوں ، ہم اکثر مل کر سیر کو جاتے ہیں ، میں کبھی لوٹ کر اپنے بچوں کو ملنے نہیں گیا۔ وہ خوش ہی ہوں گے۔ کئی بار ہمارے اولڈ ہوم میںٹی وی والے آتے ہیں مگر میں اپنے بچوں کو غصے کے باوجود بے عزت نہیں کروانا چاہتا۔کئی بزرگ اپنے بچوںکی نالائقیاں اور گستاخیاں کیمرے کے سامنے بیان بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں اولاد کی طرف سے دکھ پہنچا ہے تو وہ حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن اپنا اپنا مزاج ہے میں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔کیونکہ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
آج ایک مدت بعد حاجی ایوب کی خبر سے مجھے گلزار کی کہانی یاد آگئی ہے۔اس حوالے سے ایک مشہور قصہ بھی بہت سنا اور پڑھ رکھا ہے:ایک نوجوان اپنے ضعیف باپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اسے نہر میں پھینکنے کے لئے کاندھے پر اٹھا لے گیا۔ بوڑھے باپ نے نہر پر پہنچ کر بیٹے سے کہا : '' بیٹا اس جگہ نہیں، تھوڑا سا آگے لے چلو‘‘ بیٹے کے پوچھنے پر اس نے بتایا :اس جگہ میں نے اپنے والد کو پھینکا تھا، یہ بات سن کر بیٹے کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ بوڑھے باپ کو گھر لے آیا۔یہ سوچ کر کہ کل اس کا بیٹا بھی ایسا ہی کرے گا۔ 
عزیز قارئین ! ان واقعات سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے والدین کی جہاں تک ہو سکے خدمت کریں ۔ بزرگ گھر کی برکت ہو ا کرتے ہیں، ان سے نجات حاصل کرنے کی بجائے ان کی خدمت اور دلجوئی سے دعائیں لینی چاہییں۔ ہمارا رب اور رسول ﷺ بھی ہمیں یہی فرماتے ہیں ۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے تو یاد رکھا جائے آج جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں