پہلے یہ شعر ملاحظہ کریں :
اپنوں کو چھوٹ‘ اور ہے غیروں پہ فردِ جرم
کیا ہو رہا ہے ملک میں یکطرفہ احتساب
فردِ جرم سے دھیان پرویز مشرف کی طرف نہ جانے دیا جائے،درست کہ یہ ہماری پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے‘ مگر جتنا ہو چکا وہی کافی ہے کیونکہ مختلف اطراف سے آوازیں آرہی ہیں کہ اب جنرل صاحب کو بھی کسی طیارے پر خاموشی سے دور دیس روانہ کر دیا جائے گا۔کم از کم ہمارے ہاں عموماً ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔فردِ جرم کے حوالے سے ایک اور شعر بھی سن لیں:
مجھ پر لگا رہے ہیں جو وہ فردِ جرم آج
سڑ کوں کا نام رکھیں گے کل میرے نام پر
یہ شعر بھی اس طرف نہیں جاتا‘ جس طرف آپ کا خیال جاسکتا ہے۔ اصل میں درج بالا دونوں اشعار ایک ایسے شاعر کے ہیں جسے پارٹ ٹائم آپ سیاستدان بھی کہہ سکتے ہیں۔ میری مراد جناب فخر زمان سے ہے ۔جو پیپلز پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہے مگر ان کی اصل شناخت ان کا تخلیق کار ہونا ہے۔ سیاست کل وقتی کام ہے۔ اسے جز وقتی طور پر اپنانے والے کو پسند نہیں کیا جاتا،اور پھر اگر قلم اور حرف سے تعلق ہو تو ایسے دانشور کو کم ازکم سیاست میں وہ مقام اور عزت نہیں دی جاتی جو کسی بھی زندہ معاشرے میں ہونی چاہیے۔ فخر زمان کو بھلے کوئی سیاست دان کہے مگر میری نظر میں باطنی طور پر وہ ایک کل وقتی شاعر اور ادیب ہیں۔یہ الگ بات کہ وہ شاعر ادیب کے روایتی تصور کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ویسے بھی اب شاعر کا وہ قدیم تصور ختم ہو چکا ہے جس کے مطابق شاعر بڑھی شیو، الجھے بالوں اور میلے کچیلے لباس میں کالی چادر اوڑھے سگریٹ سلگائے دکھائی دیتا تھا اور جب اس سے پوچھا جاتا ''بھائی کیا کرتے ہو؟‘‘ تو وہ ناراض ہو جاتا کہ بھلا شاعر ، شاعری کے علاوہ بھی کوئی کام دھندہ کیاکرتا ہے۔
آج کا شاعر تو پہلے سے زیادہ باشعور اور متحرک ہے ۔اب تو شعرا ''سوٹڈ بوٹڈ‘‘ بلکہ بعض تو بالکل بیوروکریٹس ہی لگتے ہیں ۔وہ شاعری کو وسیلۂ رزق نہیں بناتے بلکہ وہ تخلیقی کاموں کے ساتھ ساتھ باقاعدہ کوئی نہ کوئی ملازمت‘ کاروبار یا ایسی مصروفیت رکھتے ہیں جس سے ان کے کچن کی روانی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔تاہم غزلیں بیچ کر گزارا کرنے والے اب ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ایسے شعراء کو ہم نے سفید کاغذ پر اصلاح دینے والے اساتذہ کا نام دے رکھا ہے۔
بات کچھ دور نکل گئی‘ میں جناب فخر زمان کا ذکر کر رہا تھا، جو شکل و صورت سے بیوروکریٹ لگتے ہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ وہ اِس قبیلے سے وابستہ بھی رہے ہیں‘ لیکن افسر شاہی میں رہ کر بھی وہ اپنا تخلیقی منصب کبھی بھول نہ پائے اور قلم کتاب سے ہمیشہ جڑے رہے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کئی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں ۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ بھی رہے۔ ان کے دور میں اہلِ قلم کی اچھی خاصی پزیرائی ہوئی ۔ فخر زمان اردو اور پنجابی میں ناول‘ ڈرامے اور شاعری کی اصناف میں نام کما چکے ہیں ۔ پنجابی زبان و ادب کے فروغ میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ وطنِ عزیز میں عالمی ادبی کانفرنسوں کے حوالے سے فخر زمان خاص شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے عالمی سطح کی کئی ادبی کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ اس سلسلے میں ان سے بہتر تجربہ کسی کے پاس نہیںہے۔ انہوں نے نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی متعدد عالمی کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل فخر زمان نے عالمی امن کانفرنس برپا کی جس میں دنیا بھر کے اہل قلم نے شرکت کی۔ اب تو امن کی آشا کا بہت چرچا ہے مگر بہت عرصہ قبل امن کا نعرہ فخر زمان نے لگایا تھا۔ ان کی تخلیقات میں ایک ترقی پسندانہ سوچ کار فرما ہے۔ وہ انسانیت اور محبت کے خواب دیکھنے والوں میں سے ہیں ۔ان کی کانفرنسوں میں بلا امتیاز ہر شہر اور قصبے سے اہل قلم مدعو کیے جاتے رہے ہیں ۔ ویسے تو اِن دنوں بھی ''شاہ عالمی ‘‘ قسم کی ادبی کانفرنسیں بہت ہو رہی ہیںلیکن ان کا مقصد زبان و ادب کے فروغ سے زیادہ اپنی اپنی کمپنی کی مشہوری ہے ۔آج فخر زمان یوں زیرِ بحث آئے ہیں کہ ان کا تازہ شعری مجموعہ شائع ہوا ہے ، ویسے تو ان کا پنجابی ناول '' دھنک رنگ تتلی‘‘ بھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے مگر میری دلچسپی ان کی غزل سے ہے۔سرِ دست میں اسی کے حوالے سے اپنے تاثرات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ فخر زمان کا مجموعہ غزل ''شہر گرہن‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے کی غزلیں مجھے بے حد پسند آئی ہیں ۔ یہ غزلیں اردو کی روایتی غزل سے خاصی ہٹ کر ہیں ۔فخر زمان بے شک وفاقی وزیر اور سینیٹر بھی رہے مگر وہ اول و آخر شاعر نظر آتے ہیں ۔ '' شہر گرہن‘‘ کی سیر کے دوران میں آپ کو کیا کیا عمدہ اشعار ملتے ہیں ۔ ان کے اشعار میں سیاست ،جبر و استحصال کے مضامین کے علاوہ روح عصر کے مسائل و مشاہدات بالکل ایک نئے انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک ترقی پسند شاعر سماج کو پُر امن اور خوشحال دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ جبر‘ استحصال اور اردگرد کی معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو موضوع بنائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فخر زمان نے جدید تر طرزِاحساس کے ساتھ بعض سیاسی اور معاشرتی معاملات پر شاعرانہ تبصرہ کیا ہے۔
پس ماندگان کس سے بھلا مانگیں منصفی
جو مرتکب ہے قتل کا وہ حکمران ہے
راہِ فرار ڈھونڈتے ہیں حکمرانِ شہر
سڑکوں پہ آگئے ہیں سبھی ساکنانِ شہر
شاموں کو پھرنا شہر میں ممکن نہیں رہا
چوڑی ہوئی ہیں سڑکیں تو فٹ پاتھ گم ہوئے
فٹ پاتھ ایک اہم مسئلہ ہے ۔راہگیر فٹ پاتھ ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں ، وہاں کاروباری حضرات قابض ہیں۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جائے تو حکومت کو مزدور اور تاجر دشمن کے طعنے سننے پڑتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا عام لوگوں کی گزر گاہوں کو بازار کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ شہر میں بھیڑ بڑھتی جاتی ہے۔عام آدمی ٹریفک کے ازدحام سے بچنے کے لئے دھکے کھاتا پھرتا ہے‘ ہمار اآج کا شاعر اس اہم مسئلے کوشعر کا موضوع بناتا ہے۔وہ شہر کی اداس شاموں کو دیکھ خود بھی اداس ہوجاتا ہے۔
اس نگری میں اتنی حیثیت ہے بس
کر کے محنت سو گئے فٹ پاتھ پر
غور کریں تو فخر کی غزل میں اکیسویں صدی کے انسان کے دکھ اور مسائل جا بہ جا نئے ڈکشن کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ انگریزی کے الفاظ بھی سہولت کے ساتھ شعر میں سموتا ہے اور یہ برا بھی نہیں لگتا۔
گھر تو بنایا میں نے یہاں زلزلہ پروف
جھٹکا لگا بس ایک ہی اور گر پڑا ہے روف
گھر میں تو داخلے کا مجھے علم ہے مگر
پر دل میں داخلے کا بتا کیا ہے پاس ورڈ
اور یہ شعر تو بے نظیر بھٹو کے قتل کی یاد دلاتا ہے ؎
گولی چلی تو ٹھیک نشانے پہ جا لگی
بے شک تمہارے پاس تھی گاڑی بلٹ پروف
فخر زمان کی غزل میں لا یعنی فلسفے کی بجائے انسانی زندگی کے حقیقی مسائل کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ اس کی غزل میں زندگی کا رس بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی غزل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمیں ہمارے سماج کے حقیقی نقوش دکھائی دیتے ہیں ۔