پہلے یہ لطیف حکایت ملاحظہ فرمائیں :
''کسی ملک کا وزیر بیرونی دور ے پر جانے سے قبل ایک خطیر رقم اپنے باس (وزیر اعظم ) کے پاس بطور امانت رکھوانے پہنچا تو وزیر اعظم نے کہا ! ایسا اگر اُس کے دو مشیروں کی موجودگی میں کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔‘‘ چنانچہ دو مشیر طلب کیے گئے اور ان کے سامنے رقم وزیر اعظم کے حوالے کر دی گئی۔وزیر جب اپنا دورہ مکمل کر کے واپس پہنچا تو اس نے وزیر اعظم سے اپنی امانتاً رکھوائی ہوئی رقم طلب کی تو وزیر اعظم غصے میں آگیا اور ناراض ہوتے ہوئے بولا :
'' کیسی رقم؟مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟‘‘
یہ سن کر وزیر کی تو سٹی گم ہو گئی۔وہ فوراً باہر بھاگا اور اُن دو مشیروں کو ساتھ لے کر وزیر اعظم کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا جن کے سامنے وزیر اعظم کے پاس رقم امانتاًرکھوائی گئی تھی۔وزیر اعظم نے ان سے دریافت کیا : ''کیا تمہارے علم میں ہے کہ اِس وزیر نے میرے پاس اپنی رقم بطور امانت رکھوائی تھی؟‘‘دونوں مشیر یک زبان ہو کر بولے : ''بالکل نہیں جنابـ۔ ایسا کوئی واقعہ ہمارے سامنے تو پیش نہیں آیا۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں مشیر کمرے سے باہر نکل گئے۔اُن کے جاتے ہی وزیر اعظم نے وزیر کو اس کی رقم جوں کی توں واپس کر دی۔جس پر حیران ہو کر وزیر نے پوچھا : ''جناب‘ آپ نے پہلے یہ کیوں کہا کہ آپ رقم کے بارے میں کچھ جانتے تک نہیں۔‘‘ '' تمہیں اپنے مشیروں کی قابلیت اور وفاداری بھی تو دکھانی تھی۔‘‘ وزیر اعظم نے جواب دیا۔
ہمارے ہاں بھی سیاسی حکومتوں میں کچھ اسی قسم کے وزیر اور مشیر رکھے جاتے ہیں۔جن پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکے۔وطن ِعزیز میں ڈیفنس فورسز کو چھوڑ کر تمام شعبوں میں میرٹ اور قابلیت پر تعیناتیاں اور ترقیاں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔نام نہاد جمہوری حکومتوں میں تعیناتی کے سلسلے میں اپنی پسند، لابی او ردھڑے کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جاتا ہے‘ حتیٰ کے بیوروکریسی میں سے بھی اپنی پسند اور منشا کے مطابق افسران ساتھ رکھے جاتے ہیں اور وفادار تو ریٹائر منٹ کے بعد بھی پہلو سے دور نہیں کیے جاتے۔وجہ صاف ظاہرہے کہ اپنی ''منشا‘‘ کا کام لینا پڑتا ہے اور دیانتدار باصلاحیت اور قابل افسر یا میرٹ پر پورا اترنے والے، ''جمہوری اقتدار ‘‘ کو '' سوٹ ‘‘ نہیں کرتے۔
اِس وقت بھی جمہوری حکومت کو کئی اہم اداروں میں تعینات کرنے کے لیے من پسند باصلاحیت افراد میسر نہیں آرہے‘ البتہ حکومت میں ایسے پیاروں کی کوئی کمی نہیںہے‘ ایسے پیاروںکو پہلے دن سے سینے سے لگا کر رکھا گیا ہے جو وقتاً فوقتاًحکومت کو قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں اورویسے تو اسحاق ڈار،چودھری نثار اور عابد شیر علی کی ''عملی‘‘ کارکردگی سے ساری قوم '' متاثر ‘‘ ہے اور میاں صاحبان کو اس پر ''داد‘‘ بھی ملتی رہتی ہے مگر اِن دنوں اُن سے زیادہ واہ واہ، خواجہ آصف کے حصے میں آ رہی ہے ۔آپ وزیر دفاع ہیں اور آج کل اپنے بیانات اور تقاریر کے ''دفاع ‘‘ میں لگے ہوئے ہیں‘ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اِس میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کا خیال ہے کہ فوج صرف ریٹائرڈ مشرف کا نام نہیں ہے۔ ادھر کئی کالم نگار اور اینکر پرسنز آرمی چیف کے بیان کی تفسیر و تفہیم میں بھی مصروف ہیں۔آرمی چیف نے فوج کے وقار کی بات کی ہے ۔ ملک اور اس کی فوج کے وقار کا خیال رکھنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔لیکن ہوتا کیا ہے،ہم کسی نہ کسی بہانے اپنا ذاتی '' بغض‘‘ نکالنے کے لیے ''طنز‘‘ کے تیر چلاتے رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں اخبارات کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔کیسے کیسے ''عجیب و غریب ‘‘ بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ فرماتے ہیںکہ ''وزیر اعظم اپنے پہلوانوں کو روکیں‘فوج کی بڑی قربانیاں ہیں‘موجودہ حالات میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان بالکل صحیح ہے‘‘
اسی پارٹی کے اعتزاز احسن کا فرمان ہے کہ ''جمہوریت کو خطرہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مقدس گائے کو چھیڑ دیا ہے۔وفاقی وزراء کے بیانات کو جواز بنا کر حکومت پر دبائو ڈالا جا رہاہے۔یوں حکومت اور فوج میں فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ایسے میں جمہوری حکومت کو کسی بھی ادارے سے خطرہ لاحق ہوا تو ہم نواز شریف کا ساتھ دیں گے‘‘
یہ بیانات ایک ہی پارٹی کے رہنمائو ں کے ہیں۔اسی پارٹی کے آصف علی زرداری کچھ کہتے ہیں اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کچھ۔ ایسے بیانات سے پی پی کے جیالے یقینا چکرا کر رہ جاتے ہیںکہ یہ کیسی پالیسی ہے۔عمران خان حکومت کی مذاکرات کی پالیسی کے حق میں ہیںجبکہ دوسری طرف وہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر شکوہ کناں بھی رہتے ہیں۔شیخ رشید کہہ رہے ہیں: ''جمہوریت کو نون لیگ سے خطرہ ہے‘‘ادھر تحفظِ پاکستان بل کی سخت مخالفت بھی سامنے آر ہی ہے۔امن و اما ن کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔اسلام آباد میں ہونے والے دھماکے نے مذاکرات کی قلعی بھی کھول دی ہے۔یہ کیسے مذاکرات ہیں کہ دھماکے بھی جاری ہیں اور بات چیت بھی!
عام آدمی کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ابھی تک کرپشن کو نکیل نہیں ڈالی جا سکی۔بجلی کئی کئی گھنٹے نہیں آتی‘ جبکہ بل مسلسل اور بہت زیادہ آرہے ہیں۔موجودہ صورتحال میں مشرف، مسلم لیگی حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گئے ہیں۔لوگ کہتے ہیں مسلم لیگ نون نے مشرف پر مقدمہ اس لیے شروع کر دیا کہ لوگوں کی توجہ بجلی گیس لوڈ شیڈنگ اور کرپشن جیسے مسائل سے ہٹ جائے۔سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ مشرف کی روانگی طے تھی مگرحکومت وعدے سے پھر گئی۔تجزیہ نگا ر بھی یہی کہتے ہیں کہ میاں صاحبان تو مشر ف کو ملک سے باہر بھیجنے پر راضی تھے مگر ان کے پیارے وزیر و ںمشیروں نے انہیں مشرف کو اِس طرح کی چھوٹ دینے سے منع کر دیا ہے اور وہی پیارے دبے دبے الفاظ میں فوج پر ''طنز ‘‘ بھی کرتے رہتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اصل معاملہ طالبان سے مذاکرات اور کئی اہم قیدیوں کی رہائی ہے۔یہ سارا منظر نامہ دیکھیں تو ملک ہمیشہ کی طرح نازک دور سے گزر رہا ہے‘ لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ فوج کو مداخلت کا موقع کون فراہم کرتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ جب ملک میں افراتفری کا عالم ہو،لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہو ں اور انصاف کے لیے خود کشیاں ہو رہی ہوں‘معاشی حالات نا گفتہ بہ ہوں ،کرپشن آسمان کو چھو رہی ہو اور حکومتی وزرا، اشاروں کنایوں میں فوج پر ''جگتیں‘‘ کر رہے ہوں تو کیا فوج یہ سب تماشے دیکھ سکتی ہے؟ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اِس قوم کو اگر کوئی خطرہ ہے تو کرپٹ ،جعلی ڈگری ہولڈرز ،ٹیکس اور بجلی چور سیاستدانوں سے ہے۔وہی اس ملک کو اس مقام پر لے آتے ہیں کہ فوج کو آگے بڑھ کر اُن کا راستہ روکنا پڑتا ہے۔غور کریں اگر ملک خوشحال ہو اور لوگوں کو ہر قسم کا انصاف مل رہا ہو،میرٹ پر تعیناتیاں اور ترقیاں ہو رہی ہوں ،کرپٹ لوگ عبرت کا نشانہ بن رہے ہوں تو مارشل لاکیسے آسکتا ہے؟ بلا تبصرہ اپنی پرانی غزل کے چند اشعار آپ کی نذر :
پھول کو تازگی سے خطرہ ہے
دل کو اب دلکشی سے خطرہ ہے
میں محبت ہوں اور وہ نفرت
سو اسے بھی مجھی سے خطرہ ہے
عشق میں تو میں سرخرو ٹھہرا
اب مجھے زندگی سے خطرہ ہے
اپنے غم کا تو کچھ خیال نہیں
مجھ کو اپنی خوشی سے خطرہ ہے
اپنے سر سے نہ ہاتھ دھو بیٹھوں
اپنی ہی خود سری سے خطرہ ہے
میری آنکھیں بھی چھن نہ جائیں شمار
اس نئی روشنی سے خطرہ ہے