جن دنوں پاکستان میں دودھ دینے والی گائے اور بکری کے تھن یا انڈا دینے والی مرغی اور بانگ دینے والا مرغا ''کنٹرولڈ شیڈ‘‘ والے مافیا سے آزاد تھے، ان دنوں لال بیگ کوکوئی نہیں جانتا تھا۔
لال بیگ کا نام بذاتِ خود ایک شرارت لگتا ہے۔ انگریز اسے کا کروچ کہتے ہیں۔ مقامی زبانوں میں ہرعلاقے کا لال بیگ علیحدہ علیحدہ ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا، میں نے پہلی بار لال بیگ پارلیمنٹ کے اندر دیکھا یا پارلیمنٹ کے باہر، لیکن دونوں جگہ اس کا حلیہ ایک جیسا ہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی پہچان اکڑی ہوئی کلف دار دو عدد مونچھیں ہیں۔ لال بیگ ہر ملاقاتی سے ملتے وقت پہلے مونچھیں پھڑکاتا ہے جیسے کہہ رہا ہو '' مُچھ نَئیں ، تے کُچھ نئَیں ‘‘۔ لال بیگ کی دوسری نشانی استری شدہ نئی نویلی جیکٹ کی طرح اس کے دو عدد اُوپر والے پر ہیں ، جن کے نیچے اس نے اپنی '' توند ‘‘ چھپاکر رکھی ہوتی ہے۔ اس کا تیسرا تعارف یہ ہے کہ لال بیگ کچی بستیوں، غریبوں کے جھو نپڑوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور ٹیکس کے مارے ہوئے غریبوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی لال بیگ کیڑوںکے'' فارورڈ بلا ک ‘‘ کا لیڈر ہے۔ باقی کیڑے مکوڑے اُسے اپنا پارلیمانی راہ نما سمجھتے ہیں۔ اپنی مونچھوںکی وجہ سے وہ ''کوڑے مارجَلّادیا چیف وِھپ ‘‘ بھی کہلا سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کے اندر لال بیگ پارلیمانی آداب کا پورا خیال رکھتا ہے۔ دنیا بھرکی پارلیمنٹ کے آداب میں سے پہلا یہ ہے کہ پارلیمان کے ہر منتخب ممبرکو فلور آف دی ہاؤس پر بولنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔ پاکستان میں اس حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دنوں الیکشن پٹیشن کے ستائے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے شیخ رشید سے کہا : '' آپ پارلیمنٹ میں مت آیا کریں‘‘۔ لال بیگ ایسا نہیں کہتا؛ بلکہ وہ کسی کو بھی پارلیمنٹ میں آنے سے منع نہیں کرتا۔ پارلیمنٹ میں خواتین کو ہمیشہ کم نمائندگی ملتی ہے۔ غالباً اسی لیے پارلیمانی لال بیگ نے اپنی عوامی سرگرمیوں کا آغاز ہی ایک خاتون کے سینڈوچ سے کیاتھا۔ لال بیگ اپوزیشن اور حکومت دونوں سے زیادہ جمہوری ہے، اس لیے ا پنی جدو جہد میں مصروف رہتا ہے۔ لال بیگ نے آج تک پارلیمنٹ کے اندر صرف فرینڈلی اپوزیشن پر حملے کیے۔
اگرکوئی رپورٹر پارلیمانی لال بیگ کا انٹرویو شائع کرے تو مجھے پورا یقین ہے، لال بیگ اپوزیشن کے مفاہمتی لیڈروں کے پیٹ پر حملے کرنے کی وجوہ کھول کر رکھ دے گا۔ میں پارلیمانی لال بیگ کی تلاش میں ہوں۔ اگر کہیں مجھے ملے تو میں اس انقلابی سے اتنا ضرور پوچھوں گا کہ وہ ملک میں کیسی اپوزیشن چاہتا ہے؟ ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں پہلا سوال یہ ہو اور آپ لال بیگ سے پوچھنا چاہ رہے ہوں کہ وہ سرکار کے خرچ پر، سرکار کے ایوان میں مفاہمتی دعوت اُڑانے والی اپوزیشن کا مخالف کیوں ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ پہلی فرصت میں اپنا سوال لکھ کر اختلافی نوٹ کے پروڈیوسر کو بھجوادیں۔ ہو سکتا ہے آپ سوال سوچتے رہ جائیں۔ مفاہمت کے بوجھ تلے دبی حکومت اب تقریباً کُبڑی ہو چکی ہے۔ عین ممکن ہے مفاہمت خور اپوزیشن اور سرکاری خرچ پر کھلانے والی حکومت پارلیمنٹ کا متفقہ اجلاس بُلا لیں۔ ایسا اجلاس متفقہ قرارداد کے ذریعے پارلیمنٹ کو متحدکرکے جمہوریت ڈی ریل کرنے کی سازش ناکام بنا دے گا۔ لگتا ہے لال بیگ بھی مُک مُکا سے تنگ آ چکا ہے۔ ہر روز وہی سینڈوچ، ہر روز وہی کھانے والے، ہر روز وہی پلیٹ اور ہر دن وہی پُرانے چمچے۔ آخر لال بیگ بھی ''سٹیٹسکو‘‘ کا دشمن بن گیا۔
وطنِ عزیزکے ہر شعبے میں لال بیگ موجود ہیں۔۔۔۔ مفت بَر اور مفت خور۔ لال بیگ کی طرح سرکاری مال پر مونچھیں صاف کرنے والے یہ لال بیگ جانتے ہیں،انہوں نے کس پلیٹ میں منہ مارنا ہے۔ وزیر خالی خزانہ کی طرح جو پلیٹ خالی ہو وہاں یہ نظرتک نہیں ڈالتے۔ منہ مارنا تو دورکی بات فلسطین، کشمیر، اریٹریا، منڈانائو، برما، شام، اُردن، مصر، لیبیاکی پلیٹیں آج خالی ہیں۔ نہ وہاں کوئی مزے کا سینڈوچ ہے نہ چین و ترکی کی طرح ''حاتم طائی کمپنیاں‘‘ جن کے اکاؤنٹ اوربِل پارلیمنٹ کے دستر خوان سے بھی بڑے ہیں۔ وزارتِ خالی خزانہ ہراس پالیسی میں منہ مارتی ہے جہاں ڈالربُو، ریال بُو، یورو بُو اور پاؤنڈ بُو محسوس ہو۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جس طرح سے آدم خورجن آدم بُو سونگھ لیتا ہے۔
پارلیمنٹ کے چوہے اور بلیاں فرینڈلی اپوزیشن کے حامی ہیں۔ سرکاری مال کھا کر شیر بننے والے بِلّی چوہے اتنی ہمت بھی نہیں کر تے کہ کبھی کسی مفاہمتی پلیٹ کے اوپر جھپٹ پڑیں ۔ انہیں معلوم ہے، ان کا حصہ اور باری دونوں محفوظ ہیں۔
لال بیگ بین الاقوامی بھی ہوتے ہیں۔ یورپ میں آج کل تاریخ کے سب سے بڑے لال بیگ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔۔۔۔ نام ہے آئی ایم ایف۔ دوسرا لال بیگ بھی عالمی مزاحمت کی زد میں ہے۔۔۔۔ یہ ورلڈ بنک کہلاتاہے۔ بین الاقوامی لال بیگوں نے ہر علاقے میں اپنے بچے پال رکھے ہیں جن کا کام وہ پلیٹیں اور تھالیاں تلاش کرنا ہے جن میں غریب قوم کے کھانے کے لیے کچھ بھی بچا ہو۔ یہ لال بیگ جس ملک میں گُھسے وہاں اندر گُھستے ہی چلے گئے۔
پاکستان کی مثال لے لیں۔ بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ ،گیس غائب کرنے کاحکم، جعلی کرنسی کا بحران، روشنیوں کابریک ڈاؤن، پٹرول بلیک سے کھربوں کی کمائی جیسے سارے فیصلے لال بیگ کرتے ہیں۔ ان پر عملدرآمدکی ذمہ داری بھی لال بیگ پر ہے۔ قطر دبئی سے لندن امریکہ تک، چُھپے ہوئے لال بیگ، اُڑ اُڑکر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ شہرِ اقتدار میں یوں لگتا ہے اگر ان لال بیگوں نے ڈھائی تین سال مزید لگا لیے تو برگر ان کے پیٹ میں ہوںگے اور خالی پلیٹیں عوام کے ہاتھ میں۔ لال بیگ فرینڈلی اپوزیشن کے ساتھ ہیں یا مفاہمتی جمہوریت کے ساتھ۔ یہ فیصلہ آپ کریں یا لال بیگ، لیکن پہلے دیکھ لیں کون کس طرف کھڑا ہے؟ شاید یہ شعر فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکیں۔
اِک طرف چڑھتے ہوئے خورشید کا جاہ و جلال
سرد راتوں کے سیہ خانے کی سردی اک طرف
اک طرف انگریز کی چوکھٹ کے دیرینہ غلام
لشکر احرار کی صحرا نوردی اک طرف
اِک طرف اعدائے بداندیش کے دل میں فساد
خوف سے سرکار کے چہرے پہ زردی اک طرف
اک طرف ہم خانماں برباد با حال نزار
خان زادوں نے ہَوس کی جیب بھر دی اک طرف
اِک طرف بالانشینانِ سیاست نعرہ زن
سرفروشانِ وطن کی کوچہ گردی اک طرف
چل رہے ہیں ہم مگر غیروں کی انگلی تھام کر
رہبروں نے قوم کی حالت یہ کر دی اک طرف
اِک طرف نامردیٔ اہلِ خوشامد کا فرار
بے نوایان وطن کی پائے مردی اک طرف
اک طرف چٹیل زمینیں ہیں طرح دیتی ہوئی
شوخیٔ افسوں چرخِ لاجوردی اک طرف