پانی…چُلّو بھر

ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے 1739 ء میں ہندو ستان پر لشکر کشی کی۔ صورتِ نادر گرفت والے اس جاہ پرست نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ایک لاکھ سے زیادہ بچے ،عورتیں ، شہری مارے گئے۔ واپس جاتے ہوئے نادر شاہ تختِ طائوس اور کوہِ نور ہیرے سمیت ہندوستان کے خزانوں کی مکمل صفائی کر گیا۔ نادر شاہ کا خوف فلمی کردار گبر سنگھ جیسا ہے‘ لیکن پنجاب کے چند خوشحال کسانوں نے نادر شاہی قافلے میں رسیوںاور زنجیروں سے جکڑی ہوئی خواتین کو آج کل کے بھیرہ اور اٹک کے درمیان چھڑوا لیا۔ یہ کارنامہ پنجاب کے جفا کش اور خوشحال کسانوں نے سرانجام دیا‘ اگرچہ یہ کسان 1000 عیسوی سے درہ خیبر کے ذریعے آنے والے حملہ آوروں کی زد میں تھے۔
اس دور کی تاریخ لکھنے والے نسلی اور مذ ہبی عینک نہیں اتار سکے‘ اس لیے پنجاب میں کسان کا کردار کبھی کھل کر سامنے نہیں آیا۔ پنجاب کی اصل طاقت پنجاب کا لینڈ مافیا، قبضہ گروپ اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر نہیں ہو سکتے بلکہ پنجاب کا پانی ہے۔اس پانی کاذکر اس لیے آیا کہ بھارت کے ساتھ آبی معاہدے اور مذاکرات کرنے والوں نے پانچ دریائوں کی سر زمین کو ہزاروں سال بعد دو آبہ بنا کر رکھ دیا ۔
پچھلے دنوں میں نے مصدقہ اطلاعات و دستاویزات کی روشنی میں ٹی وی تبصرے کے دوران پانی بحران کی پیشین گوئی کی۔ اس وقت کچھ مہربانوں نے اسے اصلی تے وڈّی جمہوریت کے ساتھ مخاصمت قرار دیا‘ مگر اب تو پنجاب کے تخت سے چمٹے ہوئے وزیرِ نہ بجلی نہ پانی نے لاہور میں اعتراف کر لیا ہے کہ پانی کا بحرن آرہا ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ''ہرکارئہ ِآب‘‘ نے جس بحران کا ذکر کیا‘ وہ ہے کیا؟ اسے سمجھنے کے لیے تین نکات دیکھ لیں۔
پہلا: پانی کے ذخائر‘ جن میں سمال ڈیم ، بڑے آبی ڈیم اور دریا شامل ہیں ۔ سمال ڈیم پچھلے دو سالوں میں نہ بنے نہ ان کی منصوبہ بندی ہوئی ۔نہ ہی پہلے سے موجود ڈیموں پر کوئی قابلِ ذکر توجہ یا سرمایہ کاری کی گئی۔اس سال مون سون صحیح برسا لیکن سردیاں خشکی سے بھرپور ہیں۔ نتیجہ واضح ہے کہ پانی کی علاقائی ضروریات پوری کرنے والے چھوٹے ڈیم ''ٹن ٹن گوپال‘‘ کی مثال بن چکے۔
دوسرا: واٹر سپلائی کی سکیمیں اس دور میں فرشتوں کے ذمّے ہیں۔نیچے فوڈ سکیورٹی اور آبی وسائل کی دو عدد وفاقی وزارتوں نے پینے کے قابل اور انسانی استعمال میں آنے والے پانی کو بھی غریب عوام کی طرح نظر انداز کیا۔نہ کوئی میگا واٹر سپلائی سکیم بنی‘ نہ کوئی مڈٹرم پانی کی قابلِ کار(Sustainable) قومی پالیسی۔ پانی پنجاب کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہاں نہری امور کی وزارت بھی صرف'' گیسٹ ہائوسز‘‘ چلا رہی ہے۔
تیسرا: فصلوں کی آبیاری کے لیے نہری پانی زراعت کا ایساشعبہ ہے جس پر بحران کے بانیوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔اسی لیے آج پنجاب ،خالی از آب ہو چکا ہے۔یورپ سمیت ساری دنیا میں وہ ممالک‘ جہاں زراعت موجود ہو‘ امیر سمجھے جاتے ہیں‘ کیونکہ ملک اور قوم اناج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔جو زمین اپنے باسیوں کے لیے اناج پیدا کر سکے، کھانے پینے کی چیزوں میں خود کفیل ہو،اُسے زمینی جنت کہہ سکتے ہیں۔افغانستان کے پہاڑوں سے روس اور چین کے کوہساروں تک‘ ایسے بے شمار مما لک ہیں جہاں زراعت برائے نام بھی نہیں ۔ان ملکوں نے پہاڑوں کو پھل فروٹ کے درختوں سے لاد رکھا ہے ۔اس طرح ان کے کھانے پینے کی دیگر چیزوں کی کمی، زراعت کا یہ شعبہ پوری کرتا ہے۔
پنجابی پَگ پہن کر تقریریں کرنے والے پنجاب کے خادم، ڈیم پر اتفاقِ رائے تو دُور ''کالا باغ‘‘ کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ان حالات میں پانی کے بحران کا مطلب اور نتیجہ صرف ایک ہو سکتا ہے اور وہ ہے قحط۔جن ایشیائی ملکوں نے پچھلے دو عشروں میں قحط دیکھا ہے‘ وہاں کبھی لہلہاتے کھیت تھے۔ پانی کی آبیاری تھی۔زرعی اجناس کی منڈیا ںلگتی تھیں۔پھر ایسے حکمران آئے جنہیں اپنے پیٹ کے تخفظ کے علاوہ کسی چیز کی پلاننگ یاد نہ رہی۔
فوڈ سکیورٹی یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی ضمانت ساری دنیا کے منظم ملکوں میں ترجیح نمبر1 ہے۔ ہمارے ہاں ترجیح نمبر ایک اور دو یا جنگلہ ہے یا سریا۔سرکار کے درباریوں نے اگرچہ پانی کے بحران کی آمد کا بگل بجا دیا ، لیکن وزیرِاعظم،وزیرِاعلیٰ ،پلاننگ کمیشن سمیت کسی کے پاس نہ اس بحران سے نمٹنے کی کوئی پالیسی ہے‘ نہ کوئی ایکشن پلان۔ایک اور سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ طرزِ حکمرانی اور ریاست کے مینجروں میں بحران حل کرنے کی اہلیت یا صلاحیت بھی موجود ہے...؟ ثبوت 30دنوں میں بجلی کے چار بڑے بریک ڈاؤن سے مل سکتا ہے۔ پٹرول کی بلیک مارکیٹ والے چاروں وزیر، کابینہ کی اہلیت کااگلا ثبوت ہیں۔
خدا نخواستہ پانی کا بحران پیدا ہونے کی صورت میں یہ صرف پنجاب کے ''پانی‘‘ تک محدود نہیں رہے گا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کی چاروں اکائیوں میں جو یکسوئی پیدا ہوئی وہ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں ملک بھر میں نئے آبی ذخائر تیار کرنے کی ضرورت لوگوں کو سمجھ آئے گی۔ خاص طور پر پانی کی تقسیم،ترسیل اور ڈیموں کے نام پر سیاست کرنے والے مطلب پرست چہرے بھی بے نقاب ہوں گے۔ چاہیے تو یہ تھا متعلقہ وزارت کی جانب سے بحران کی پیشین گوئی سامنے آنے کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوتا۔ وزیر ِ اعظم ذاتی تجارت کی ترقی پر زور دینے کی بجائے قوم کو پانی کے بحران سے نجات دلانے کا پلان بناتے‘ لیکن جو کابینہ اپنی فیکٹری کے ملازموں کی طرح چلائی جائے‘ اس میں زیادہ تر بحث حکمرانوں کے لباس اور ان ہوٹلوں کے بارے میں ہوتی ہے‘ جن میں دلبرانہ کشمیری کھانے تیار کیے جاتے ہیں ۔
ہم اس بدقسمت ملک کے باسی ہیں‘ جہاں مغربی سرحد کی دوسری جانب بھارتی انجینئر پاکستان کا پانی روکنے کے منصوبوں کے انچارج ہیں‘ جبکہ مشرقی پنجاب اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت ڈیم پر ڈیم بنا رہا ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ اور پانی کے ذمہ دار لوگ ہاتھ پر ہاتھ دہرے منتظرِ فردا ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی خارجہ پالیسی اور آبی پالیسی ایک ہی ہے‘ یہ کہ دیکھو اور انتظار کرو، تھپڑ کہاں سے پڑا اور جوتا کہاں سے آیا۔ ایک آزاد اور خود مختار ایٹمی قوم کی حیثیت سے حکمران سینہ تان کر پاکستان کا مقدمہ لڑنے کی بجائے ایسے بولتے ہیں جیسے کوئی گھڑے یا کنویں کے اندر سے آواز نکال رہا ہو۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے بعد بھارت ہر چھ ماہ بعد پاکستان کے حصے کے پانی پر کوئی نہ کوئی ڈیم پلان کرتا ہے ۔یہ جاننا قوم کا حق ہے کہ وہ اربوں ڈالر‘ جو پانی کا مقدمہ لڑنے والوں کو دیے گئے‘ کہاں گئے؟ آج کل ایک سابق سیاسی منصف کی کنسلٹینسی فیسوں کا بڑا چرچا ہے۔ اسی کی ٹیم پاکستان کے پانی کا ایک اور اہم مقدمہ فرینڈلی انداز میں تیار کر رہی ہے۔ جس وکیل کے دل میں مخالف فریق کیلئے دوستانہ جذبات ہوں وہ اپنے کیس سے کیا انصاف کرے گا؟ اس ٹیم کا دماغ وہی سیاسی منصف ہے‘ جس کے پاس بھارت کے مشہور وکیل ڈاکٹر آدیش سی اگر والا کی تنظیم میں نائب صدر کا عہدہ ہے ۔ اس نے لندن میں اسی تنظیم کا ایک اجلاس کر کے اپنے آپ کو ایک عدد ایوارڈ بھی دلوایا تھا۔
اس وقت چھوٹے صوبے بحران لیگ کی جانب سے چائنہ کاریڈور کا راستہ تبدیل کرنے پر پہلے ہی ناراض ہیں۔ بھارتی تاجروں کی سہولت کے لیے چار ارب سے زیادہ کے بجٹ پر راجستھان کے ساتھ ساتھ موٹر وے بنائی جا رہی ہے۔ سارے میگا منصوبوں میں بڑے کک بیکس کے علاوہ بڑے علاقائی تاجروں کے مفادات بھی شامل ہیں۔
ایسی جمہوریت کو بچانا سب کا قومی فرض ہے، جس کے پاس قوم کے لیے آخر میں چُلّو بھر پانی بچے گا۔
سازشیں عام ہیں حالات پراگندہ ہیں
شاہ زادوں کے خیالات پراگندہ ہیں
رات بے داغ اجالے کو نگلتی ہی رہی
سلطنت برف کے مانند پگھلتی ہی رہی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں