کچھ سال پہلے ایک وزیراعظم پنجاب کے دورے پہ آیا۔ جیالوں نے اس کا استقبال لوٹوں کی بھرپور تعریف کر کے کیا۔ نعرہ یہ تھا۔ '' اَسی تے مر گئے بھُکے ننگے، ساڈے نالوں لوٹے چنگے‘‘۔ (ہم تو بھوکے ننگے مرچلے ہیں۔ ہم سے تو لوٹے اچھے )۔
لوٹے ہر دور میں اچھے ہوتے ہیں۔جس پارٹی کو ووٹروں کی خریداری کے اصطبل میں کوئی قابلِ فروخت لوٹا نظر آئے ،اسے سَر پر بٹھایا جاتا ہے۔ لوٹا برائے فروخت کی اہمیت کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ جمہوریت کے سب سے بڑے ڈھولچی بھی کہہ رہے ہیں، سینٹ کا الیکشن خفیہ ووٹنگ سے نہ کروایا جائے۔ وجوہ کھلی کھلی ہیں۔ طاقت کے جن بروکرز نے سینٹ الیکشن کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اگر شو آف ہینڈ والی آئینی ترمیم آگئی تو ان کا گراف زمین پر نہیں گٹر پر آگرِے گا۔ پھر کون نہیں جانتا ،جیالوں اور متوالوں کی سیاست کا دروازہ بند ہے ۔ سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کا راج ہے۔ اسی لیے گولڈن بریف کیس مارکیٹ سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ ۔
یہ دور بلٹ پروف بی۔6اور بم پروف بی۔ 7 لینڈ کروزر کا ہے۔ انویسٹر جب ملاقات کے بعد سیاسی جماعتوں کے مالکان سے کہے کہ بھابھی صاحبہ کو سلام کرناہے۔ سمجھ لیجیے اس کی جیب میںV-8 لینڈ کروزر کی چابی ہے۔ جو کاریگر ،دو نسلوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں ،وہ ساتھ بچوں سے ملنے کی فرمائش بھی کر دیتے ہیں۔ بچے جونہی سامنے آتے ہیں ، حیران رہ جاتے ہیں کہ تایا اور ماموں سے یعنی آم اور گُڑ سے بھی میٹھایہ شخص کون ہے...؟ جس نے پہلی ہی ملاقات میں اُنھیں لفافے دے کر کہا ''بچو یہ تمھاری آنے والی چھٹیوں کا دبئی ٹرپ ہے‘‘۔ جن پارٹیوں کے ایم پی اے اور ایم این اے اپنے لیڈروں کے ایسے محسنوں کو جانتے ہیں، ان کی ممبری کے عرصے میں سینٹ کا صرف ایک الیکشن آتا ہے ۔جب قدرت ان پر برائے فروخت کا بورڈ لگا دیتی ہے ۔ورنہ عام حالات میں ان کو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا۔ نہ پارٹی مالکان نہ ان کے منشی مُشَدّی نہ ہی مالکان کے مہر بان انویسٹرز۔ ان حالات میں وہی ہوتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے۔ عام دنوں کا محاورہ ہے نصیب اپنا اپنا۔ان دنوں کہا جا رہا ہے ریٹ اپنا اپنا۔ بڑے بہت بڑا ہاتھ مار رہے ہیں ۔جبکہ چھوٹے، چھوٹی موٹی جیب کاٹنے پر گزارا کرتے ہیں۔ ہار س ٹریڈنگ یا لوٹا شاپنگ کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ بقولِ شاعر
وہ جس نے فقیہوں کو پسپا کیا
وہ جس نے شریفوں کو رُسوا کیا
وہ جس نے رذیلوں کو اونچا کیا
وہ جس نے ادیبوں کو ننگا کیا
بڑے لاٹ صاحب کی دربانیاں
سیاسی مسافت کی حیرانیاں
یادش بخیر... بھور بن آپریشن میں ارکان اسمبلی کا جو ریٹ لگایا گیا آج کل اُس ریٹ پر لیڈروں کے دربان ٹِپ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ پھر چھانگا مانگا آ گیا جو مزید مہنگا سودا تھا...؟ جس اسلامی جمہوریت کی بنیاد مجلسِ شوریٰ کے مصالحے سے رکھی گئی اُسی کا تیار کردہ شوربہ اور کھچڑی ابھی تک جمہوریت کہلاتے ہیں۔ پھر غیر جماعتی الیکشن کا ٹانکا لگایا گیا۔ تب سے اب تک سیاست اور تجارت جڑواں بہنیں ہیں۔ کوئی زمانہ تھا مولانا بھی انقلابی ہوا کرتے تھے ۔ مولانا بھاشانی ، کون بھول سکتا ہے...؟ وہ اَنا ہزارے سے زیادہ احتجاج کرنے والے ۔اندر سے دہکتا کوئلہ۔ جسے مفادات کی برف اور ترغیبات کا پانی کبھی نہ بجھا سکا۔ چٹا گانگ کے غریبوں سے لے کر فیصل آباد کے مزدوروں تک کشتیوں اور ٹرینوں میں سفر کر کے پہنچنا۔ پھر مولانا بھاشانی غریب عوام کی طاقت کو دھرنا ، جلوس، جلائو، گھیرائو کے ذریعے آتش پاروں میں تبدیل کردیتے ۔ تب طلباء یونینز آزاد تھیں۔ غریب کا جو بچہ طلباء یونین کے الیکشن جیت جاتا وہ اُسی دن اسمبلی کی ممبری والی لائن میں کھڑا ہو جاتا تھا۔
انویسٹروں کے بیٹے انقلابی پیدا کرنے والی سٹوڈنٹ یونینز کی جمہوری نرسری سے دور بھاگتے تھے۔تب سیاست کا مرکز و ہ مُحلّے تھے جہاں مزدور اور مزدور لیڈروں کی بیٹھک رہتی ۔آج طلباء کی اسمبلیاں اور اکثر مزدور لیڈر پاکٹ یونینز بن گئے ہیں ۔ عام آدمی کے لیے ملکی سیاست میںکوئی کردار ادا کرنا تو دور کی بات سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جگہ بنانا ویسا ہی ہے جس طرح بینک بیلنس کے بغیر امریکہ کا ویزہ۔
میرے عزیز ہم وطنو... آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ،آپ کے اداروں کے ساتھ ، آپ کے وسائل کے ساتھ ، ملک کے آئین کے ساتھ، مساوات کے تصور کے ساتھ ، ذرائع پیداوار کے ساتھ اور قانون کے ساتھ وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ اس منظر نامے میں ایک بنیادی سوال میں اٹھا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ اس سارے نظام کو کیا کہا جا ئے...؟ اگر آپ اسے جمہوریت کہنے پر اصرار کریں تو پھر آپ کو جمہوریت کی بین الاقوامی طور پر مسلمہ تعریف سامنے رکھنا پڑے گی جو یہ ہے ''جمہوریت، عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے ، عوام کے لیے‘‘ میں اس سوال کا جواب مانگ کر نہ وکالت نامہ کے کسی قاری کو شرمندہ کرنا چاہتا ہوں نہ خود شرمندہ ہونا چاہتا ہوں۔
جس لنڈا بازار میں خودی کے نعرے لگانے والے ووٹروں کی خریداری کریں۔جس ایوانِ بالا کا الیکشن سبزی منڈی کے آڑھتیوں والی دکان بن جائے۔اقتدار کے جن ایوانوں میں عام آدمی کا داخلہ بند ہو۔جس ملک کے بچے سہمے ہوئے ہوں،عورتیں خوفزدہ اور انہیں حکمران دلاسا تک نہ دیں۔ اُسے آپ جمہوریت کہیے ،مجھے اجازت دیں میں اسے چور بازاری، سرمایہ داری، جاگیرداری اور منافقت کی منڈی کہوں ۔
ہماری گورننس کیا ہے...؟ اس کا اندازہ دو باتوں سے لگا لیجئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سات سال کی مسلسل حکمرانی کا ریکارڈ بنانے والوں کے پاس اتنی بھی اہلیت نہیں کہ وہ پانچویں جماعت کے بچوں کا بروقت امتحان لے سکیں۔درجنوں میلوں کا سفر کر کے پنجاب کے پرائمری سکولوں میں پہنچنے والے بچوں کو خبر دی گئی آپ تو پہنچ گئے ہیں ،ماسٹر بھی آئے ہوئے ہیں مگر پرچے نہیں پہنچے۔یہ وہی جمہوریت ہے جس نے کروڑوں جعلی بیلٹ پیپرز راتوں رات چھپوائے اور پھر عوام کے نام پر بکسے بھرنے والوں تک پہنچائے بھی۔گیارہ لاکھ پرائمری سکولوں کے بچوں کو یخ بستہ راتوں میں لوڈ شیڈنگ کے سائے تلے امتحان کی تیاری کرنے کی ڈیٹ شیٹ ملی۔ لیکن اپنے پیاروں کی سفارشی کمپنی کی صلاحیت کی داستان آپ پہلے ہی پڑھ چکے۔اس کے علاوہ جو امتحان ہوئے وہاں ریاضی والے دن تاریخ کے پرچے طالب علموں کے ہاتھ میں پکڑا دیئے گئے۔ دوسرا پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز سے ہونے والے معاہدے اور وعدے دیکھ لیجیے ۔ینگ ڈاکٹرز بازو اور سر تُڑوانے کے بعد ایک بار پھر پنجاب پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز کی آواز اسی لیے نہیں سُنی جاتی کیونکہ پنجاب کا کوئی حکمران ان کو ڈاکٹر نہیں سمجھتا۔ ان کے ڈاکٹر تو ڈیوڈ اور پیٹر ہیں جو برطانیہ، امریکہ کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں پاکستان کی دولت چرنے والوں کا علاج کرتے ہیں۔
پاکستان میں کمائے گئے ڈالروں کے بوجھ تلے دبے یہ لیڈر اعصابی مضبوطی کے لیے پیٹر اور ڈیوڈ کے نسخے پر جان دیتے ہیں۔وارث شاہ ، میاں محمد بخش اور بُلّھے شاہ کے دیس کے ڈاکٹر انہیں نیم حکیم بھی نہیں لگتے۔
ویسے بھی لوٹا ڈارلنگ ہوتا ہے ۔جبکہ ڈاکٹرکڑوی گولی دے کر ٹیکہ بھی لگادیتا ہے۔