اــس دن مجھے ایک اور ثبوت مل گیا۔ اگرچہ میں جان چکا تھا کہ جہازوںسے تصویر یں گرا کر رائے عامہ پر زہر کی بارش کرنے والے جمہوریت کے نام پر ذاتیا ت کی کس حد تک جا سکتے ہیں۔وہ بھی ایک عورت کے ساتھ جس کا پہلا اور آخری قصور یہی تھا کہ اس نے اپنے لیے مزاحمتی سیا ست کا عوامی راستہ چنا۔
لاہور ہائی کورٹ کے پنڈی بنچ میں 1997ء کے بدنام ِ زمانہ احتساب ریفرنس میں شہید بینظیر بھٹو کی تاریخ پیشی تھی اور میں ان کا وکیل ۔ہائی کورٹ کے اس وقت کے سیاسی چیف جسٹس کے حکم سے ویٹنگ روم لاک کر دیئے گئے۔ وہی چیف جسٹس بعد ازاں جن کی موجودہ سیاسی وزیر ِاعلیٰ سے گفتگو کی ٹیپ پکڑی گئی تھی۔اگر اس کی کوئی تفصیل دیکھنا چا ہے کہ وطنِ عز یز میں سیا سی ا نصاف کیسے ہوتا ہے تو وہ PLD 2001 سپریم کورٹ صفحہ نمبر 568پڑھ کر تسلی کر لے۔
بہر حال... ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کمرے پر بھی تالا لگا تھا ۔ میں نے بار کے صدر ڈاکٹر جی ایس خان سے رابطہ کیا‘ جو دس منٹ میں ڈسٹرکٹ کورٹ سے بار پہنچے۔بینظیر بھٹو سے معذرت کی اور انہیں چائے کی دعوت دی ۔گنتی کے چند وکلاء کمرے میں آئے‘ جن میں بھٹو شہید کی کابینہ کے وزیر ملک محمد جعفر بھی موجود تھے۔ ان دنوں اقتدار سے محرومی کے بعد وہ بڑے بڑے وکیل جنہوں نے شہید بی بی کے دور میں بڑے بڑے عہدے لیے تھے گُم نامی کے چھوٹے چھوٹے بِلوں میں گُھس کر زیرِ زمین تھے‘ احتساب کی دہشت کا ڈنکا بجتا تھا ۔ خیرمیں نے بی بی سے ملک صاحب کا تعارف کرایا کہ یہ میرے انکل ہیں۔ انہیں وہ واقعہ سنایا جو ملک جعفر کی پی پی پی میں شمولیت کا باعث بنا۔ ایئرپورٹ پر ملک جعفر اور بھٹو صاحب کی ملاقات ہوئی۔ وہ ملک جعفر کے انگریزی کالموں کے قاری تھے۔بڑے لیڈر بڑی اہلیت رکھنے والے لوگوں کو پارٹی میں لانا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں اور سیاسی بونے اگر لیڈر بن بھی جائیں تو وہ ہر قد آور دوست سے ڈرتے ہیں۔بھٹو ملک کے لیے بہتر ین ٹیم بنانے نکلے تھے۔ انہوں نے انکل جعفر کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت یوں دی؛۔
Mr Malik, you write like us, you think like us,why don`t you join us?
(آپ ہماری طرح لکھتے ہیں اور ہماری ہی طرح سے سوچتے ہیں تو آپ پیپلز پارٹی کیوں نہیں جوائن کر لیتے؟)
پہلے یہ سُن لیں کہ آج مجھے انکل جعفر کی یاد کیسے آئی۔ بی بی سے انکل جعفر اور ڈاکٹر جی ایس خان کی باقی بات چیت کی طرف پھر واپس آؤں گا۔ آج میں بحث ختم کر کے سپریم کورٹ سے نکلا۔ دفتر میں میرے ٹیبل پر ساجدہ جعفر کا وزٹنگ کارڈ اور ملک جعفر کی کتاب، ''جن روزوں درویش ہوئے ہم‘‘ پڑی تھی ۔میں نے کتاب کا آغاز اور آخری دو درجن صفحات پڑھے۔ پھر ساجدہ کو فون ملایا اور کتاب بھجوانے پر شکریہ ادا کیا ۔ساجدہ نے پوچھا آپ نے کتاب پڑھی...ـ؟ میں نے کہا‘ نہیں ابتدا اور اختتام دیکھا ہے۔پھر ساجدہ سے ایسی گفتگو ہوئی جیسے انکل جعفر اس گفتگو کے تیسرے فریق ہوں۔
سیاست میں ایسے لوگ خا ل خال ہی ملیں گے، جو عہدے کے رُعب میں نہیں آتے۔ نہ ہی اقتدار کی افیون عرف افیم کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔اس قبیل کے مردانِ با صفا صرف دو وجہ سے با آسانی پہچانے جا سکتے ہیں۔پہلا یہ کہ زندگی میں وہ لکیر کھینچنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ایسی لکیر جس سے نیچے اُترنا خودی اور اَنا رکھنے والے کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔جس میں یہ صفت موجود ہو، وہ نہ اقتدار ملنے پر ناچتا ہے‘ نہ ہی اس کے چھن جانے پر تڑپتا ہے۔ ورنہ اقتدار کی غلام گردشوں اور بادشاہوں کے درباروں میں کس کو رسائی ملتی ہے اُس بارے میں پنجاب کی ایک کہانی سُن لیں ۔یہ کہانی فرانسیسی جرنیل موسیو الرڈ کی ہے۔جرنل الرڈ فرانس کے بادشاہ لوئی فلپ کے دربار میں بھی رسائی رکھتا تھا۔ یو رپی وقائع نگار میسن نے جرنل مو سیو الرڈ کے بارے میں لکھا کہ وہ رنجیت سنگھ کی ناک کا بال ہے۔ میسن ماہر نباتات اور مشہور فرانسیسی سیاح بھی تھا۔جرنل الرڈ، مہاراجہ رنجیت جیسے کامیاب ترین پنجابی حکمران کے ناک کا بال کیسے بنا؟ وہ بھی ایسے زیرک اور مردم شناس لڑاکے کا، جس نے فتح کر کے کابل کو بھی سلطنت میںشامل کیا۔جرنل الرڈ نے سکھ جنگجو مہا راجہ کے دل میں اُترنے کے لیے فارسی میں جو شعر لاہور میں کہے اُن کا اردو میں ترجمہ یہ ہے:
''اے خدا میرے مالک کو لمبی عمر عطا فرما
آسمان (تقدیر) کو اس کی اطاعت میں دیدے
میں اس کے شاہی دربار میں جانے کی سعادت حاصل کر سکوں
اور جس روز میں اس کی حکم عدولی کروں وہ میری زندگی کا آخری دن ہو
اور جب میں مروں میری قبر لاہور میں بنے
اور میری باقیات کی انارکلی میں تدفین ہو!‘‘
اِن دنوں ہر گھر میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔ اس طرح کے موسیو الرڈ روزانہ شام ڈھلے ٹی وی سکرین پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔جو شاید فارسی زبان تو نہیں بول سکتے‘ لیکن ان کی گفتگوئیں سُنیں تو یوں لگتا ہے جیسے لاہور کے تخت پر مہا راجہ صاحب براجمان ہیں۔ نیچے دری بچھی ہے‘ جس پر بیٹھے ہوئے پردیسی موسیو اپنے مالک کی طویل عمری کے لیے ہاتھ اُٹھا کر گِڑ گِڑا رہے ہیں۔ شاہی دربار میں جانے کی سعادت حاصل کرنے والے تو دربار کے سنگِ در کو سجدہ گاہ ِ نیاز بنا ڈالتے ہیں۔ جس قدر عاجزی،انکساری بلکہ تابعداری سے وہ اپنے مالکان یا شہزادے شہزادیوں کے نام لیتے ہیں‘ اگر وہ اس قدر تابعداری اصلی والے بادشاہ کی شروع کر دیں تو پھر ولایت نہ سہی، فقیری ان کے در پرخود حاضری دے ڈالے۔
ملک محمد جعفر ایڈووکیٹ نے آج کل کی چکری چونترہ والی سیٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا ۔ انتخابی نشان تھا تلوار۔ مدِ مقابل موجودہ وزیرِداخلہ کے والدصاحب تھے۔ بڑی کروفر والی رُعب دار شخصیت ، فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر ۔پاکستان میں اسی الیکشن کے ذریعے لوگوں کو ایک آدمی ایک ووٹ کا حق پہلی بار ملا ۔ملک جعفر نے زندگی بھر پنڈی میں وکالت کی ۔بلکہ سچ تو یہ ہے ان کی وکالت افسرانہ یا شاہانہ نہیں‘ درویشیوں والی تھی۔میری ان سے آخری ملاقات دریائے سواں کے کنارے ہوئی۔میں سواں کا پُل کراس کر کے چونترہ گاؤںمیں داخل ہونے لگا تو ایک خالی پلاٹ میں وہ ایک ملازم کے ہمراہ چارپائی پر بیٹھے نظر آئے۔پھر میں اُن کے جنازے میں شریک ہوا۔
1997 ء میںصدر ڈاکٹر جی ایس خان اور ملک جعفر نے محترمہ شہید بینظیر بھٹوسے کہا آپ اقتدار میں واپس آئیں گی۔ ہم سے وعدہ کریں کہ آپ کے اگلے دور حکومت میں وفاق میں نیا ہائی کورٹ بنے گا۔ڈاکٹر جی ایس خان حیات اور صحت مند ہیں ، وکالت کرتے ہیں۔ بی بی نے جواب دیااگر میں اقتدار میں آئی تو آپ کے بابر اعوان میری حکومت میں... عہدے پر ہوںگے۔ پاکستان کی واحد جمہوری لیڈر شہید کر دی گئی۔ میں اُس عہدے پر تو نہ آ سکا لیکن ملک جعفر، ڈاکٹر خان اور شہید بینظیر کا وعدہ پورا کرنے کے لیے پوٹھوہار کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحفہ دے دیا۔ ہائی کورٹ میں داخل ہوتے وقت میری نظر جب بھی اپنے نام کی تحتی پر پڑتی ہے‘ مجھے جعفر انکل ضرور یاد آتے ہیں۔ ڈاکٹر جی ایس خان ہر ملاقات میں اس واقع کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے ۔میں نے کتاب بھی پڑ ھی اور ملک جعفر کو بھی۔
حق مغفرت تھے، عجب آزاد مرد تھا