مغلیہ نظام کا شغلیہ الیکشن

سینیٹ الیکشن والے دن میں جو نہی سپریم کورٹ کے بنچ نمبر تین سے بحث ختم کر کے نکلا ، صحافیوں نے گھیر لیا۔ سوال یہ تھا، کیا جمہوری نظام میں ایک ہی آئینی عہدے کے لیے ووٹنگ کا دُہرا معیار یا دو طریقے ہو سکتے ہیں؟میں نے کہا،کیوں نہیں!
جہاں دو بھائی بیک وقت چیف ایگزیکٹو ہو سکتے ہیں،دو خاندان سیاہ و سفید کے مالک ہو سکتے ہیں، ایک ایک وزیر کے پاس دو درجن کمیٹیاں اور دو درجن عہدے ہو سکتے ہیں ،گورنر شپ اور وفاقی وزارت کی دو تلواریں ایک ہی میان میں سما سکتی ہیں، جہاں انصاف کی دو آنکھیں اور قانون ایک آنکھ والا بھی ہو سکتا ہے، جہاں بصارت سے محروم شہریوں پر دو بار دست درازی ہو سکتی ہے، جہاں دو مرتبہ وزیر اعظم اور چار بار وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی تاحیات بادشاہت پر پابندی نہیں، جہاں دو پاکستان ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ ایک غریب کرایہ داروں کا‘ دوسرا شہنشاہی مالکان کا، وہاں سینیٹ الیکشن کے لیے دو معیارکیوں نہیں ہو سکتے۔ایک شرارتی رپورٹر بولا، پھراس دھندے کو آپ کیا نام دیں گے؟ عرض کیا، مغلیہ نظام کا شغلیہ الیکشن!
سینیٹ کا یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن ہے جس میں گھوڑوں کی تجارت(Horse trading)کو بھی مات ہو گئی۔ بقول چودھری شجاعت حسین ،ہارس ٹریڈنگ کا سنا تھا ''کھوتا ٹریڈنگ‘‘ پہلی بار ہو رہی ہے۔ اس الیکشن میں پہلی دفعہ یہ انوکھا کاروبار شروع ہوا۔ 
شغلیہ الیکشن کا ایکٹ وَن مکمل ہوا ۔کیسے۔۔۔؟ یہ دلچسپ کہانی ہے۔ الیکشن کمیشن ، کابینہ اور سیاسی جماعتوں کو معلوم تھا، مارچ میں آدھے سینیٹرز ریٹائر ہوںگے، خالی نشستو ں پر دوبارہ الیکشن آئینی تقاضا ہے۔ شغلیہ الیکشن میں دونوں طرف سے سیاسی جادوگر کرتب دکھانے کی ایکٹنگ کرتے رہے۔ یہ کہنا زیا دہ مناسب ہوگا کہ سیاسی ناخدا اس کرتب بازی میں خدا کی خدائی کو اُلّو بنانے پر لگے رہے۔ ایک صاحب سندھ سے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر آئے، بیچارے پــُلسیے تھے۔ نہ ٹیکنوکریٹ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں اور نہ ہی سینیٹ ان کے لیے شایانِ شان جگہ ۔ پنجاب میں اس سے بھی بُرا ہوا۔ جو موصوف چالیس سال پہلے وکالت چھوڑ چکے انہیں اب خیال آیا وہ ٹیکنو کریٹ ہیں؛ اگرچہ مسرور احسن کیس میں یہ طے ہوگیا ٹیکنوکریٹ کون ہے؟ پھر بھی قوم کو اُلّو بنانے میں کیا حرج ہے!
آئین کا آرٹیکل 59 کہتا ہے، سینیٹر وہاں سے ہوگا، فیڈریشن کے جس خطے سے اس کا تعلق ہو۔ آئین کہتا ہے، آرٹیکل 62,63 پر پورا اترو۔ آئین تو یہ بھی کہتا ہے اس بے چارے پر عمل کرو، لیکن جس دیس کے باسی میلی گنگا میں اشنان کو صحت سمجھ لیں، رام فارغ نہیں بیٹھاکہ وہ صرف ان کے لیے ہی بھلی کرے۔ شغلیہ الیکشن پر شاعر نے غیر شغلیہ شعر یوںکہے: 
خدا کی خدائی کو اُلّو بنائو
ارے نیک نامو! ارے پارسائو
مصیبت پڑے تو مکانوں میں گھس کر
بڑے ٹھاٹھ سے قوم کا مال کھائو
جلو میں لیے سبز طوطوں کی ٹیں ٹیں 
ریاست سے لوٹن کبوتر منگائو
پتنگ آپ کا کٹ گیا بھی تو کیا ہے
دو تاوی سے ہٹ کر سہ تاوی اڑائو
سیاست کی مرغی خطابت کا چرغا
دساور اٹھا ہے کراچی کے بھائو
وطن آ گیا ہے لٹیروں کی زد میں 
کہاں ہو؟ کدھر ہو؟ سیاسی خدائو
سرِعام اپنوں کے سر توڑ ڈالو
پرایوں کی چوکھٹ پہ سجدے لٹائو
سینیٹ الیکشن میں کئی اَن ہو نیاں ہوئیں۔ایک انہونی مظلوم کے ساتھ بھی ہو گئی۔آئین کے آرٹیکل نمبر1میں فاٹا کسی صوبے کا حصّہ نہیں، اس کی اپنی آئینی حیثیت بہت امتیازی ہے۔ 1973ء کے آئین میں فاٹا صوبے کے برابرہے۔ فیڈریشن گریز حکومت نے پتا نہیں کیسے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ فاٹا کے الیکشن میں دھاندلی ہوگی۔ لہٰذا ملک سے غائب وزیراعظم اور دارالحکومت سے غیرحاضر صدر نے کسی خلائی سیارے پر یا کسی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر یا عالم ِارواح میں ایسا آرڈر جاری کیا جِسے مِڈ نائٹ جیکال کہا جا سکتا ہے۔اس کانتیجہ سامنے ہے، الیکشن کمیشن حکمرانوں کو ناراض نہ کر سکا اور فاٹا اس شغلیہ نظام کے سب سے بڑے ایوان میں نمائندگی سے محروم ہوگیا۔
دوسرا شغل اس سے بھی بڑا تھا جس کی نشاندہی میں نے گزشتہ اتوار کے 'اختلافی نوٹ‘ میں ان لفظوں سے کی: ''سرکاری لیگ کے ووٹ پنجاب میں بھی ٹوٹیں گے‘‘۔ نتیجہ دیکھ لیجیے، برادرم ندیم چن کو گیارہ ووٹ فالتو پڑے ۔ پی ٹی آئی کا کوئی رکن ووٹ ڈالنے اسمبلی نہیں آیا۔ اس کے باوجود ندیم 27 ووٹ لے گیا۔ وزارتِ سرکاری اطلاعات و غلط نشریات واویلا کرتی رہ گئی کہ پی ٹی آئی، کے پی کے میںٹوٹ چکی ہے۔ لیکن اس الیکشن میں لوٹوںکو سب سے بُری شکست اس صوبے میں ہوئی جہاں پی ٹی آئی برسرِاقتدار ہے۔ نون لیگ بلوچستان میں سردار یعقوب ناصر جیسے بہترین آدمی کو بھی ہرا بیٹھی۔ صوبہ سندھ سے نون لیگ زیرو پرکلین بولڈ ہو ئی۔
شغلیہ الیکشن میں مغلیہ طرزکی بد حواسی کا ری پلے بھی ہوا۔ مثلاً فیڈریشن کی اہم ترین علامت وزیراعظم کا عہدہ ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام کے اعلیٰ ترین ایوان کے عین انتخابات والے دن '' اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر۔۔۔۔ ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق‘‘ کے مصداق، ہمارے وزیراعظم ووٹ ڈالنے کے بجائے حاضری ڈالنے کے لیے الریاض کے شاہی دربار میں جا پہنچے۔ اس کے ساتھ بے چارہ اسلام آباد بھی نمائندگی سے محروم ہوگیا۔
سینیٹ الیکشن میں شغل کی انتہا یہ ہے کہ ابھی تک ''صدارتی آرڈر‘‘ جس کے تحت فاٹا انتخابات روکے گئے وزارتِ قانون کی سمجھ میں آ یا نہ الیکشن کمیشن کے پلّے پڑ سکا۔ ایسے میں چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات بھی سوالیہ نشان کی زد میںہیں۔ نَہلے پے دَہلا کی طرح، شغل پہ شغل یہ ہواکہ اسلام آباد سے منتخب ہونے والے دونوں سینیٹروںکانوٹیفکیشن مقدمہ بازی کی وجہ سے رُک گیا۔ اسی الیکشن نے پاکستان میں خلافت سے ملوکیت تک کا سفر مکمل کر دیا۔ یہ ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ چار سے زائد خاندان صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ تک جا پہنچے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ ''مرنے مارنے‘‘ پر تیارکارکن نا اہل ہیں۔ جمہوری پارٹی ہو، مذہبی جماعت یا قوم پرست گروہ ، بہترین دماغ اور اعلیٰ ترین قانون سازگھر کے اندر سے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی کارکردگی دیکھ کر برطانیہ کا ہائوس آف لارڈز، امریکی کانگریس،روسی ڈُوما، چین کی پیپلز کانگرس ، بھارتی لوک سبھا،فرانس و جرمنی کے پارلیمانی ستون، چُلُو بھر پانی ڈھونڈ نے لگے۔ پینتالیس منٹ میں پنجاب اسمبلی نے گیارہ قوانین کے بل منظور کر لیے ۔ چار منٹ میں ایک بِل پاس کرنا خالہ جی کے گھر میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ چار منٹ میں سپیکر سے بِل پیش کرنے کی اجازت طلب کی، سپیکر نے بِل پیش کرنے کی اجازت دی، وزیرِقانون نے بِل کے اغراض و مقاصد پڑھے، بِل پیش کرنے کی تحریک منظور ہوئی، بِل کی ایک ایک شق ایوان میں پیش ہوئی، اس پر بحث ہوئی اور وہ منظور ہوئی۔ آخر میں پورے بِل کو پاس کرنے کے لیے ایوان کے سامنے رکھا گیا اور آخری مرتبہ رائے شماری سے بِل پاس ہوا۔ ایسی کارکردگی دنیا کی کوئی دوسری پارلیمنٹ نہیں دکھا سکتی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس ریکارڈ ساز قانون سازی پر پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ اور مراعات سابق سیاسی چیف جسٹس کے برابرکر دی جائیں ۔ جہاں کارکردگی برابر ہو وہاں خدمت میں فرق کیسا۔۔۔۔؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں