پاکستان کا مطلب کیا…؟

آج شاعرِ عوام حبیب جالب کی بائیسویں برسی ہے ۔لہٰذا آج کا وکالت نامہ عوام کے نام ،اور وہ بھی بذریعہ حبیب جالب ۔ جالب کی شاعری پرلکھنے کے لیے مقالوں ،دفاتر اورہزاروں من کاغذ کی ضرورت ہے۔آج میںصرف اس کی ایک نظم پر بات کروں گا۔جس میں حبیب جالب نے جانے انجانے میں 1973ء کا پورا آئین سمو دیا ۔نظم کا عنوان ہی آج کا وکالت نامہ بھی ہے۔جالب نے نظم کے پہلے بند میں کہا:
روٹی، کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا 
مفت مجھے تعلیم دلا
''پاکستان کے آئین کا ایک آرٹیکل کہتا ہے کہ ریاست ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کرے گی اور ہر کسی کو اس کی اہلیت اور کارکردگی کے مطابق معاوضہ دے گی ۔اگر پاکستان کے لوگوں کو رہنے کو چھوٹا سا گھر ،جینے کے لیے دوا،کھانے کے لیے روٹی ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا دے دیا جائے ،تو پھر ایک چیز رہ جاتی ہے مفت تعلیم ۔ اس کے بارے میں آئین کا آرٹیکل 25(A) واضح ہے کہ ''ریاست مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو ‘‘
اگر ہم 1947ء سے پہلے کے انڈیا پر نظر ڈالیں تو مسلمانوں کو انہی میدانوں میں استحصال کا شکار رکھا گیا ۔ پاکستان میں یہ تفریق آج بھی جاری ہے ۔اسی لیے جالب نے پہلے بند کے آخر میں یہ کہا :
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہٰ الا اللہ
بیرونی امداد نما بھیک کی روایت پر حبیب جالب نے اگلے بند میں کاری ضرب لگائی اور پاکستانی اقتدار پر قابض اشرافیہ کو یوں جگایا:
امریکہ سے مانگ نہ بھیک 
مت کر لوگوں کی تضحیک
روک نہ جمہوری تحریک
حبیب جالب کے نظریے میں وہ ملک جو بھیک پر گزارا کرتے ہیں ،آزادی کا راستہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔انہوں نے آزادی کی راہ کو پاکستان کا مطلب قرار دیا:
چھوڑ نہ آزادی کی راہ
پاکستان کا مطلب کیا 
لا الہٰ الا اللہ
زرعی مزدوروں اور کھیت سے منڈی تک وڈیروں ،سرمایہ داروں اور چور بازاروں کے کارٹلز اور مافیاز کو للکار تے ہوئے بڑے شعبوں کو اجتماعی یا قومی ملکیت میں لینے کا نعرہ لگایا ۔ جالب غریب تھا،غریب کے لیے تڑپتا تھا ،اس نے تڑپا دینے والا بند یوں کہا:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
ملک کو اندھیروں سے نکال کر معاشی مساوات کی روشنی کے راستے پر ڈالنے کے لیے جالب معتبر ترین آواز بن کے اُبھرتا ہے ۔اس کی للکار سٹیٹس کو ،وی آئی پی کلچر کے خلاف بلند ہوتی ہے:
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا 
لا الہٰ الا اللہ
جالب کی یہ تاریخ ساز تخلیق مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے کی ہے ۔جالب قوم کو صوبائی خود مختاری کا شعور دیتا ہے :
سرحد، سندھ، بلوچستان 
تینوں ہیں پنجاب کی جان
اور بنگال ہے سب کی آن
جہاں چنگاری ہو وہاں دھواں اُٹھتا ہے اور جہاں محرومی ہو وہاں ہر طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ۔ کچھ عوام پرست،کچھ موقع پرست ،کچھ وطن پرست اور کچھ جاہ پرست ،ایسے تضادات کو جالب نے اسی نظم کے چوتھے بند میں یوں سمو دیا:
آئے نہ ان کے لب پر آہ 
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہٰ الا اللہ
آج کے پاکستان میں آزادی ِ اظہار ،آزادی رائے ،سوچ ،فکر،مذہب اور عقیدے کی آزادی بنیادی حقوق ہیں ۔جب جالب بول رہا تھا تب ایسا نہیں تھا،مگر اُسے معلوم تھا کہ پاکستان میں آخری فتح عوام کی ہی ہو گی ۔اس بارے میں جالب کی پیشین گوئی یہ ہے :
بات یہی ہے بنیادی
لوگوں کو ہو آزادی
غاصب کی ہو بربادی
حق گوئی نے جالب کو حق آگاہ بنا دیا ۔حق آگاہی جیسا انا الحق کا نعرہ جالب نے اپنے انداز میں لگایا:
حق کہتے ہیں حق آگاہ
پاکستان کا مطلب کیا 
لا الہٰ اللہ 
حبیب جالب کی شاعری امید سے بھری ہوئی ہے۔غریبوں کے لیے اچھے مستقبل کی امید،نچلے طبقات کے لیے ترقی کی امید اور وطن کے لیے بہتر مستقبل کی نوید ۔جمہوریت کو ڈی ریل ہونے کا خطرہ کہہ کر جمہور کو لوٹنے والوں کے خلاف حبیب جالب کی چارج شیٹ یہ ہے :
خطرہ ہے زرداروں کو 
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو 
ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں 
نام نبیؐ کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں 
خطرہ ہے خوں خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو 
امریکہ کے پیاروں کو 
آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میں
بِک نہ سکیں گے حسرت و ارماں اونچی سجی دکانوں میں 
خطرہ ہے بٹ ماروں کو 
مغرب کے بازاروں کو 
چوروں کو‘ مکّاروں کو
امن کا پرچم لے کر اٹھو ہر انساں سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیارکرو
خطرہ ہے درباروں کو
شاہوں کے غمخواروں کو
نوّابوں، غدّاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں