سرکاری سِنک ٹینک

پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے اخبار نویس اکثر ''سیاست باز‘‘ بن جاتے ہیں۔آپ جانتے ہی ہیں، سیاست دانوں کی اپنی اپنی جماعت ، علیحدہ علیحدہ ایجنڈا، مختلف منشور، ایوانِ اقتدار میں سیدھا ٹارگٹ اور اپنا اپنا بال پین ہوتا ہے۔ بال پوائنٹ آپ نے دیکھا ہوا ہے ، وہ سرخ بھی ہوتا ہے سبز بھی نیلا اور رنگیلا بھی۔ چیئرمین اور ڈپٹی سینیٹ کے الیکشن والے دن ایک ٹی وی رپورٹر نے شاندار سوال کیا، اگراس کا نام معلوم ہوتا تو آج کے کالم میں ضرور لکھتا۔ سوال تھا، نئے سینیٹ میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ترجیح نمبر ایک کیا ہو نی چاہیے؟
مزید چند نشریاتی وارداتوں کااحوال بھی سن لیں۔ بال پوائنٹ یا مائک پکڑے کچھ خواتین و حضرات اپنے سوال کا جواب صرف ہاں یا نہ میں مانگتے ہیں۔ مانگنے کا سٹائل بھتہ خور سے مختلف نہیں ہوتا، جو کہتا ہے پیسے بھیجو گے یا کلاشنکوف کی گولی بھیجوں؟ جس سے سوال ہوتا ہے وہ اگراپنی مرضی کا جواب دینا چاہے تو جدید رپورٹنگ میں یہ بغاوت ہے، ظاہر ہے جو سلوک باغیوں سے کیا جاتا ہے۔ دوسرے سوال میں وہی سلوک تجزیہ کرنے والے سے ہوتا ہے۔
ایک صاحب آئے، فرمایا: آپ کو قومی ترانہ آتا ہے؟ میں نے کہا مائک چھوڑو۔ میرے ساتھ کھڑے ہو جائو، مل کر پڑھ لیتے ہیں، پھر کہا: قومی ترانہ شعر نہیں جو تمہیں سنائوں۔ دنیا بھر میں قومی ترانہ پڑھنے کے آداب ہیں، آئو مل کر پڑھیں۔ موصوف نے ترانے کے تیسرے مصرعے کو مکھڑا سمجھ کر پڑھا اورکہا مجھے تو یہی افتتاحی لائن آتی ہے۔ بلّھے شاہ یاد آیا:
اِکو اَلف تیرے درکا
عِلموں بس کریں او یار
ایک اور جھلکی سناتا ہوں۔۔۔۔ معروف ٹی وی چینل سے انٹرویو چل رہا تھا، موبائل فون آن کرکے بغیر کسی شناخت کے ایک صاحب وارد ہوئے، فرمایا: میرے سوال کا جواب دیں۔ مجھے انٹرویوکرنے والے نے حیرت سے اُسے دیکھا تو وہ کہنے لگا:کیا اب سوال پوچھنے کا بھی پروٹوکول اور طریقہ ہوگا؟ طارق وارثی ساتھ کھڑے تھے، میں نے کہا: صحافی ہو تو اس دادا استاد سے پوچھ لو۔۔۔۔!
گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ کا لطیفہ گجرانوالہ ، میانوالی، لاہورکے وکیلوں میں مشہور ہے۔کیوں یاد آیا؟ بعد میں بتاؤں گا، پہلے واردات سُنیں جِسے میں نے لطیفہ کہہ دیا۔ گجرانوالہ کے ایک تیز طرار وکیل تھے، موصوف سول جج کے امتحان میں بیٹھے اور نمایاں نمبروں سے فیل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔گورنر ہائوس میں عرضی ڈالی، ہمت نہیں ہاری اورآخرکار نواب آف کالا باغ نے انہیں ایڈیشنل سیشن جج بھرتی کرا دیا۔ وکیلوں نے اس کا بُرا منایا، وفد لے کرگورنر صاحب سے ملاقات کی، گفتگو بہت دلچسپ تھی۔ وکیل بولے: گورنر صاحب ! آپ نے ایسا آدمی سیشن جج بنایا جو 302 کا ملزم ہے۔ مزید دلیل دی کہ یہ شخص تو سول جج کے امتحان میں فیل ہوا تھا۔گورنر مسکرائے اورکہنے لگے: سیشن جج 302کا فیصلہ کرتا ہے یا نہیں؟ وکیلوں نے کہا کرتا ہے۔گورنر نے فرمایا: پھر آپ ہی بتائیں ، جس نے خود 302کر رکھا ہو اس سے زیادہ قتل کامقدمہ کون سمجھے گا؟دوسرے سوال کا جواب گورنر نے یوں دیا: مجھے اتفاق ہے، یہ آدمی سول جج کے امتحان میں فیل تھا اسی لیے میں نے اسے سول جج نہیں لگایا۔ آپ جاننا چاہتے ہوںگے موصوف کون ہیں؟جواب میرے بجائے جنرل مشرف سے پوچھ لیں، دونوں نے ایک سال سے زیادہ عرصہ صدر ہاؤس'' مشترکہ‘‘ طور پر چلایا تھا۔آج کل ہونے والی بھرتیاں پہلی وجہ اور دوسری وجہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر قائم تِھنک ٹینک ہے جس کے سبب مجھے نواب آف کالا باغ کی داستان سُنانا پڑی۔
جس وزیراعظم ہاؤس میں میجر عامر جیسا صلح کار فیصلے نہ کروا سکا، آج کل وہاں سقراط، بقراط،کوٹیلہ چانکیہ ، میکاولی، بیر بَل بلکہ مہابَلی کے بھی استاد بیٹھے ہیں۔ ان کی استادیاں چیف ایگزیکٹو آفس سے فیصلے کرواتی ہیں؛ بلکہ زیادہ تر فیصلے اور فائلیں تو بس دبادی جاتی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تعلیمی اداروں اور یونیورسٹی چارٹر جیسے کچھ فیصلے وزیراعظم نے کرنے چاہے مگر''سِنک ٹینک‘‘ وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتورنکلا جس نے فیصلوں کی فائلوںکو فائلوں کے سمندر میں ڈبو دیا۔ ایک مشیرِ خاص صبح، دوپہر، شام ان الفاظ میں خاندانی جمہوریت کو طاقت کا ٹیکہ لگاتا ہے:'' بس جی، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی اینکر ہاتھ میں رہنے چاہئیں، باقی سب ٹھیک ہے‘‘۔ اس سِنک ٹینک میں مفادات کی ڈبکیاں لگانے والے اکثر بابے وہ ہیں جو ایک نہیں دودو پینشنیں وصولتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے لیے باقی سب ٹھیک ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک سے بھی زیادہ ہے، اسی لیے سرکاری بابے اور سرکاری کھابے گڈ مَڈ ہوگئے ہیں۔
ٹھیک ٹھاک کا تازہ ترین ثبوت دو جگہ سے مزید ملا۔ پہلا کراچی سے جہاں ریاست نے ریاست کے اندر ریاستوں کے خاتمے کی مہم شروع کی۔ پتا نہیں آپ حیران ہوئے یا نہیں، میں تو پریشان ہوگیا۔ جس سرکارکا دعویٰ ہے، وہ اور فوج ایک صفحے پر ہیں، اسی کا سربراہ کراچی آپریشن پر بولنے کے وقت مراقبے میں چلاگیا، ورنہ ایسی خاموشی کا تقاضا تو مراقبہ کیا ''یوگا‘‘ بھی نہیں کرتا۔ پھرکیا بات ہے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف عرف صدرِ پاکستان کی، جنہیں ابھی تک خبر ہی نہیں پہنچی، کراچی میں کیا ہو رہا ہے، ورنہ کمانڈر انچیف دلیرانہ کارروائی پر اپنے فوجیوںکو شاباش تو دیتا!
میں نے یوحنا آباد احتجاج والے دن ہی کہہ دیا تھا،اس افسوس ناک واقعے کو ہینڈل نہیں بلکہ مِس ہینڈل کیاگیا۔ اب ہفتے بعد وہی بات آپ زندہ جلائے گئے دو پاکستانی شہریوں کے والدین سے سُن لیں۔ ایک ماں نے دل ہلا دینے والی فریاد کی:''اس کا بیٹا واپس نہیں لا سکتے اورکچھ نہیں کر سکتے تو پولیس کی پیٹیاں تو اُتارو‘‘۔ دوسرے مقتول کے والد نے ٹی وی کیمرے پرکہا:'' پولیس اس کے بیٹے کو نہیں بچا سکی‘‘۔کم از کم تین تازہ واقعات ایسے ہیں جن کے سائے میں وزیراعظم ہائوس کا سِنک ٹینک،ٹائی ٹینک کی باقیات لگ رہا ہے۔
پہلا، سپریم کورٹ نے کل پوچھا: اختلافی نوٹ نے تین ہفتے پہلے سوال کیا ،کِس کِس کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں اورکیوں ؟ جی، میں مجرموں، ان کے سہولت کاروں، سر پرستوں یا فنانسرزکی بات نہیں کر رہا۔ دوسرے ، میڈیا کنٹرول برانڈ سرکاری ادارے، سرکار مخالف پروگرام تو بند کرا سکتے ہیں لیکن ریاست مخالف،فوج مخالف اور پاکستان مخالف کارروائی آٹھ گھنٹے کی ہو یا دوگھنٹے کی،نہیں روک سکتے ۔ تیسرے، قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے تو پھر سیاست یا این جی او کے حمایت یافتہ پھانسی کے ملزم پھندہ چوم کر واپس کیوں آنا شروع ہو گئے؟غریب قیدیوں کے لیے''پھانسی گھاٹ‘‘ جبکہ سیاسی حمایت یافتہ کے لیے ''معافی گیٹ‘‘ کِس نے کھول دیے؟
میں جو محسوس کرتا ہوں اگر تحریر ہو جائے
تو یہ نظم مرصّع، زلف یا زنجیر ہو جائے
وفا زندہ دلان شہر کی تقصیر ہو جائے
پیالہ زہرکا سقراط کی تصویر ہوجائے
حقیقت کھل چکی ہے عالمانِ دین و دنیا کی
اب ان کے بتکدوں میں نعرۂ تکبیر ہو جائے
گریباں چاک دیوانوں کا ذوقِ نغمہ پیرائی
عجب کیا ہے عوام النّاس کی تقدیر ہو جائے
ادب کے تاجروں نے آجروں سے شرط باندھی ہے
قلم میرا، وزیر و میر کی جاگیر ہوجائے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں