مرحوم سینیٹر اور 1996ء سے عزیز دوست اعظم خان ہوتی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے بنچ نمبر پانچ سے باہر آیا تو سٹاف نے بتایا تین مس کالزہیں۔میں عدالتی کارروائی اور اختلافی نوٹ کے دوران کبھی موبائل فون پاس نہیں رکھتا ۔جو بھی کام محبت سے نہ کیا جائے اس کا سٹینڈرڈ بیگار کیمپ کے قیدی مزدوروں کی جبری مشقت جیسا ہوتا ہے۔
تینوں کالز جو میں نہ سُن سکا سابق صدر آصف زرداری کی تھیں۔سپریم کورٹ پارکنگ میں گاڑی کے دروازے تک پہنچتے ہی چوتھی کال آ گئی ۔حسبِ سابق آواز آئی: "Hello good looking, what is cooking" پھر کہا تم نے دوستوں کا ظرف دیکھا؟ جواب دیا‘ کئی مرتبہ ۔زور دارقہقہے کے بعد ،پھر کہا ''میں نے چین کے10سے زیادہ دورے کیے۔ ''کرنسی سواپ‘‘ کا معاہدہ بھی۔ (کرنسی سواپ سے مراد جو مال پاکستان چین سے خریدے گا‘ اس کی ادائیگی بیرونی کرنسی ڈالرز وغیرہ میں نہیں ہو گی بلکہ وہ ادائیگی پاکستانی روپے میں کی جائے گی۔)لیکن دوست اس موقع پر میرا ذکر کرنا تک بھول گئے‘‘۔میں نے کچھ مزید معاہدے اور میٹنگیں یاد کرائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم او یوز کی وہ طویل نشستیں جہاں میں نے بھی شرکت کی تھی۔پھر کہا ''ان کا ظرف تو تب بھی دیکھا جب تم وکیل تھے اور میں قیدی‘‘۔ میں نے اضافہ کر دیا اور تب بھی جن دنوںمیں وزیرِ قانون اور میرا قیدی ''صدرِ‘‘ پاکستان تھا‘ لیکن ہم نے مقدمات چلانے کے شوقین بہت سارے لوگوں کا راستہ روکا۔ یہی اخباری سُرخی بنانے میں اور تاریخ بنانے میں بنیادی فرق ہے۔ پھر کہا‘ لیکن تم اختلاف کے باوجود اختلافی نوٹ میں کہنے والی بات ضرور کہہ دیتے ہو۔روٹین کے مطابق تازہ شعروں کی فرمائش کا جواب میں نے یوں دیا:
اگر خلاف ہے‘ ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دُھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف، ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے مُنہ سے جو نکلے، وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں، تمہاری زبان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں، لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا، پاکستان تھوڑی ہے
جس مٹی میں سب کا خون شامل ہے‘ سب کے باپ دادا کی قبریں ہیں‘ سب کے شہیدوں کے مزار تک‘ اس مٹی کے وسائل اور حقِ حکمرانی میں بھی سب کا حصہ ہے۔اور جو کوئی کرایہ دار مکان کو اپنی ذاتی پراپرٹی سمجھنے لگے‘ اس کے لیے پولیس بیلف، عدالت اور مالک مکان کا ''مسَل‘‘ سمیت گھر خالی کرانے اور قابض سے پیچھا چھڑانے کے کئی ہتھیار ہیں۔
اگلے روز انسدادِ منصوبہ بندی کے وزیر نے چینی صدر کی آمد سے چندگھنٹے پہلے بریفنگ دی۔بالکل ویسی بریفنگ جیسی کیپٹن ایڈورڈ جے سمتھ نے دی تھی۔وہی کیپٹن سمتھ جس کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھاجبکہ اُسے'' وی آئی پی‘‘ مسافروں کو بچانے کی فکر تھی۔
اس میں کیا شک ہے کہ چین پاکستان کا دوست ہے اور ان دونوں کا مشترکہ علاقائی ''ولن نُما‘‘ دشمن بھارت ۔ اس میں بھی کیا شک ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین دونوں مُلکوں کے ساتھ ایک سے زائد خونی جنگیں لڑ چُکا ہے۔مگر کیا مذاق ہے آج کل پاکستان کی ہر فروٹ شاپ پر کلکتہ کے انگور ،دہلی کے آلو اور ہما چل پردیش کی مرچیں بکنے کے لیے پڑی ہوئی ہیں۔پاک چین دوستی کی بنیاد کی سب سے بڑی علامت شاہراہِ ریشم ہے ۔اس سِلک روڈ کی تعمیر میں دونوں ملکوںکے مزدور، انجینئرز اور افسروں کا قیمتی لہو شامل ہے‘ اس لیے پاک چین دوستی کی مضبوط ترین بنیاد چینی اور پاکستانی عوام کے رشتے ہیں۔چین ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کو اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور آٹو پارٹس کی پیشکش کر چکا ہے۔اگر چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ (Free trade agreement) کر لیا جائے تو دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔چین بڑی مارکیٹ ہے اس لیے پاکستان کو زیادہ ۔ ساتھ ساتھ پاک چین دوستی کے شہد کے چند قطرے حکمرانوں اور ان کے گھرانوںکے علاوہ عوام کے حلق سے بھی نیچے اُترسکیں گے۔
پاکستان نیوی کے نئے سربراہ ذکااللہ آج کل عالمی تبصروں میں ہیں ۔ ہمارے اس قابلِ فخر خالص سولجر کے تبصروں میں آنے کی وجہ وہ آٹھ عدد چینی آبدوزیں ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور چین کے درمیان بیک ڈور مذاکرات ہوئے۔ واشنگٹن کے کئی بڑے تھنک ٹینک سمجھتے ہیں اگر یہ آبدوزیں پاکستان کو مل جائیں تو پھر سمندر میں پاکستان کا شمارعالمی طاقتوں میں ہو گا۔ اس سے پہلے ایشیا میں مغرب کے تعاون سے صرف بھارت اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے وار ہیڈ آبدوزوں پر نصب ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ معاشی ترقی کے لیے میگا منصوبے ہوتے ہیں‘ لیکن قوم کی ترقی کے لیے نہیں ۔ نظامِ سرمایہ داری میں معاشی ترقی کا مطلب سرمایہ داروں کے پیٹ کا تحفظ ہے‘ جو کبھی انچوں میں ہوتے تھے پھر ان کا سائز فُٹ پر گیا اب یہ میٹروں سے نکل کر ہزاروں کلو میٹروں تک پھیل چکے ہیں۔
شہید قائدِ عوام کے دور میں آئین ساز اسمبلی نے 70ء کے عشرے میں جو پہلا بجٹ بنایا‘ اس میں کل بجٹ کا 43.6فی صد تعلیم اور ہُنر کے لیے رکھا ۔آج چالیس سال بعد ایشین ٹائیگر کے بجٹ میں تعلیم کا حصہ 3 فی صد ہے۔آج کل بڑے منصوبے ایسے ہوتے ہیں جن میں عوام کا حصہ تین فی صد بھی نہیں ہوتا۔ پھر اس تین فی صد میں سے بھی پسماندہ اور غریب علاقوں کے حق میں بجٹ تقسیم کے وقت مونگ پھلی کا دانہ بھی نہیں آتا۔ اکثر جو رقم رکھی جاتی ہے وہ ریلیز ہی نہیں ہوتی۔ جو تھوڑی بہت ریلیز ہو وہ پشاور کے سابق ٹائون ناظم حاجی ملک شریف کے بقول سرخ فیتے اور ٹھیکیداری نظام میں چلی جاتی ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ رقم ریلیز کرنے کی بجائے اکثر وزیراعلیٰ کی ''صوابدیدی جیب‘‘ میں جمع ہوتی ہے۔
ذراسوچئے پاکستان کے علاوہ دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں صحت اور تعلیم و تربیت کے اداروں میں بھی گھوسٹ سکول اور گھوسٹ ہیلتھ سینٹر ہیں بلکہ کلاس روموں میں گدھے، گائے بھینس بندھی دیکھی جا سکتی ہے؟
چین اپنا یار ہے
اس پہ جان نثار ہے
پر وہاں جو ہے نظام
اس طرف نہ جائیو
اِس کو دور سے سلام
شیروں کی بہترین ٹیم نے چین کے ساتھ ہونے والے 51معاہدوں کو پہلے دن ہی متنازع بنا دیا۔بالکل ویسے ہی جیسے ایل این جی کا کنٹریکٹ۔یہ کونسی منطق ہے کہ معاہدے قوم،پارلیمنٹ،میڈیا ،اپوزیشن ، ٹرانسپیرنسی اور احتساب کے اداروں سے خفیہ رکھے جائیں؟ایٹم بم ہم پہلے ہی بنا چکے ہیں‘ اسی لیے دو پڑوسی ملکوں میں کاروبار چھپانے کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو چھپایا جا رہا ہے وہ معاہدہ نہیں‘ فائدہ ہے‘ قومی نہیں ذاتی مفاد والا۔میگا پروجیکٹس میںلوٹ کا مال نہیں‘ خزانے کا مال لگتا ہے اس لیے حکومت ٹھیکوں پر کمبل نہ ڈالے۔ریلوے انجن کی خریداری پر جو کمبل ڈالا گیا تھا وہ ریلوے سے بھی زیادہ دُھواں دے رہا ہے۔عوام ریلیف کے منتظر ہیں۔51میں سے عوام کے ریلیف کا معاہدہ کون سا ہے؟ چلیں حکومت اتنا تو بتا دے۔