موت کا کنواں

ایجنڈا تھا نہیں۔منشور دیا نہیں گیا ۔اسی لیے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو آزاد امیدواروں کی (self styled) شخصی وجاہت نے شکست دے دی ۔کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا یہی خلاصہ ہے۔جبکہ جمہوریت پر سب سے بھر پور عوامی تبصرہ بھی۔
ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ 100فیصد لوگ منافقت یا سودے بازی میں حصے دار ہوں ۔مجھے خوشی ہے پاکستانی سماج میں چھائی ہوئی مُردنی کے باوجود لوگ مُردہ نہیں ۔اگلے روز، حیدر آباد سندھ میں ہاری مزدور کانفرنس اس کا ثبوت ہے۔یہ کانفرنس تین تنظیموں‘ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ،گھریلو ملازموں کی تنظیم ویمن ورکرز ایسوسی ایشن اور سندھ زرعی جنرل ورکرز یونین نے متحد ہو کر برپا کی‘ جس کے مطالبات پاکستان جیسے زرعی معیشت اور ماحول رکھنے والے ملک میں کسی بھی انقلابی،عوام دوست یا ترقی پسند سیاسی جماعت کا منشور ہو سکتے ہیں ۔
مثلاً مزدور کی کم از کم تنخواہ 25000روپے اور صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے ۔دفاعی اخراجات محدود ہوں۔ مزدور کی بھرتی کرنے کے لیے دلال سسٹم (Third party hiring) کا خاتمہ ۔ورکروں کو اپائنٹمنٹ لیٹر جاری کیے جائیں۔ کام کی جگہ پر سیفٹی اور بچاؤ کے لازمی اقدامات جبکہ فیکٹریوں میں لیبر انسپکشن سسٹم ۔سارے ملک میں ورکروں کی رجسٹریشن ہو تا کہ سوشل سکیورٹی ،اولڈ ایج بینیفٹ جیسی مراعات ورکروں کو مل سکیں۔ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں ناصر منصور،سائرہ منظور کھوڑو،گل رحمن ،ختل فیض اور ریاض عباسی نے کہا کہ سندھ کے حقوق جاگیرداری کے بوجھ تلے دبے ہیں۔سکھر میں بھی ہاریوں نے جلوس نکالا۔ان کا مطالبہ سُن لیجیے...! حکومت ہمیں بھی گندم بھرنے کے لیے بار دانے کی بوریاں سپلائی کرے۔سندھ کے ہاریوں ،ورکروں اور مزدوروں کو شاباش۔پنجاب میں کسانوں کے لیے جدو جہد کے دوران لاٹھیاں کھانے والوں کو سلام۔
محنت کشوں کی اس کانفرنس کی رُوداد پڑھ کر میرے دل نے کہا، کاش ایسی کانفرنسوں میں ہم سب شریک ہوں ۔محنت اور سرمائے کے تضادپر مبنی حکومت ،سماج اورنظام میں ایسے لوگ غنیمت ہیں جو اقتدار کے لالچ کے بغیر بھی محروم طبقوں کی آواز بلند کرتے ہیں‘ جن کے حقوق کی خاطر بولنا سیاسی اشرافیہ اپنی توہین سمجھتی ہے۔ ذرا یہ بھی سُن لیں، اس کانفرنس میں مزید کیامانگا گیا اورکِس کے لیے؟
1: ورکروں ،کارکنوں کے لیے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے سرکاری طور پر ورک شیڈول بنائے جائیں۔
2: حکومت مزدوروںکے انسانی حقوق کے حوالے سے وہ بین الاقوامی وعدے پورے کرے جو اس نے مغربی دنیا میں جی ایس پی (پلس) کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کر رکھے ہیں۔
3: خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کو ختم کیا جائے ۔ عورتوں کو ٹریڈ یونینز کے ساتھ ساتھ لیبر ویلفیئر اداروں میں مناسب نمائندگی ملے۔
4: مہنگی بجلی ،پانی ،گیس ، کھانے پینے کی اشیاء کو ''قابلِ خرید‘‘ بنانے کے لیے حکومت سبسڈی جاری کرے۔
5: ہاریوں، مزدوروں، ورکنگ خواتین کو اسمبلیوں سمیت عوامی نمائندگی کے اداروں میں عملی نمائندگی دی جائے۔
6: بیرونِ ملک کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بین لاقوامی قوانین کے تحت ادارہ جاتی قانون سازی ۔
7: حکومت سارے پینشنروں کو کم از کم 6ہزار روپے ماہانہ پینشن جاری کرے۔
8: ہر نئے ٹاؤن اور شہروں میں لیبر کالونیاں تعمیر کی جائیں۔
9: سرکاری زمین بے زمین ہاریوں اور زرعی مزدوروں میں تقسیم کر دی جائے۔
10: ہاریوں کے قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ناقص اور جعلی بیج ،کھاد کی فروخت روکی جائے۔نجی جیل خانے ،جرگہ سسٹم، جبری مشقت اور ورکرز کالونیوں اور آبادیوں کو گِرا کر زمین جاگیرداروں کے ہتھے چڑھانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
11: سرکار سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ گھریلو ملازمین کو ''مزدور‘‘ کا قانونی درجہ دے۔ ان کے تخفظ کے لیے پالیسی سازی کی جائے۔دلالی سسٹم کا خاتمہ او ر آئی ایل او کنونشن نمبر C-177پر فوری عملدرآمد۔اس موسم میں یہ مطالبات تازہ ہوا ہے ورنہ...:
لائسنسوں کا موسم ہے
اِن کو قوم کا کیا غم ہے
آج حکومت کے دَر پر
ہر شاہیں کا سَر خم ہے
درسِ خُودی دینے والے
بھول گئے اقبال کی یاد
چند گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
کرئہ ارضی پر زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور خوبصورتی قربانی میں ہے۔پچھلی فصل، بوڑھے انسان اور بو سیدہ درخت راستہ نہ دیں تو نہ نئے خوشے بنیں گے‘ نہ نئی کونپل پھوٹے گی‘ نہ نئے پھول کھلیں گے اور نہ ہی بانکے گبھرو دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ سب جاننے کے باوجود کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا سوائے چند ایک کے جو حیات بعد از موت پر اصل یقین رکھتے ہیں۔میرے آبائی علاقے کہوٹہ میں ملک ابرار کی بیس سالہ اکلوتی بیٹی گھر کے صحن میں کنویں میں جا گری۔کئی ڈبکیاں کھا کر اس نے اینٹوں میں ہاتھ پھنسا لیے مگر دو گھنٹے تک کسی کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ نوشین کہاں ہے...؟ جب پتہ چلا تو پورا گاؤں اکٹھا ہوا مگر 130فٹ گہرا 10فٹ چوڑا کنواں دیکھ کر سب تماشہ دیکھنے لگے۔ 91سالہ بوڑھے ملک عبدالمجید کا واحد بر سرِ روزگار بیٹا ملک تنویر آگے بڑھا۔ سب سے کہا پیچھے ہٹو اور پھر اس نے کپڑوں سمیت کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیلنے کا فیصلہ کیا اور کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ آج اس کے ہاتھ اور پاؤں کی چمڑی ادھڑ چکی ہے لیکن اس نے ایک انسانی جان بچالی۔ اس سماج میںمرتے وہ بھی ہیں جو ہر المیے کے تماشائی ہیں ۔ وہ بھی زندہ رہتے ہیں جو جان پر کھیل کر کسی دوسرے کی جان بچانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
افراد کی بات اور ہے مگرایسا نظام کیسے دیر پا ہو سکتا ہے جس میں چند گھرانے ریڈ ایریا میںرہ سکیں باقی قوم اللہ کے آسرے ۔ جہاں ایک حکمران کی حفاظت کے لیے آٹھ ہزار کی نفری لیکن کروڑوں دیہاتی دن کو باوردی لٹیروں اور رات کو نقاب پوش ڈاکوؤں کے رحم و کرم پرزندگی گزاریں۔جہاں غریب کی عورت اُ ٹھائی جائے تو پرچہ تک درج نہ ہوا اور امیر کی گھوڑی چوری کرنے والے ملزم پولیس مقابلے میں مارے جائیں۔پاکستانی سیاست کے بڑے کردار اور جماعتوں کے مالکان یہ سمجھنے سے معذور ہیں کہ دنیا بدل گئی۔اچھی تقریر کے ساتھ ساتھ لوگ کارکردگی کو ترستے ہیں۔ تقریر کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔ روٹی، کپڑا، مکان، تخفظ، علاج، ابدی حقیقتیں ہیں۔ ان کو سیاسی شور شرابے میں دفنا کر تعصب اور پراپیگنڈے کی چادروں سے چھپانے والے عوام کی نہیں اپنی قبریں کھود تے ہیں۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ نظامِ سرمایہ داری کی اکلوتی سُپر پاور امریکہ کی ناک کے نیچے ہوگوشاویز کیوں کامیاب ہوا۔ اس کے پاس ایجنڈا تھا‘ منشور تھا‘ مائیک تھا اور ایسی جان جو اس کی قوم کی امانت بن گئی۔قاتلوں کے گروہوں کی موجودگی میں وہ ہر ہفتے شاپنگ یا ورکنگ ایریا میں کھڑے ہو کر ٹی وی پر ٹاک شوکی میزبانی بھی کرتا اور حکمرانی بھی۔روس کی تقسیم کے بعد وہ اپنی قوم کو بہترین مساوات اور سوشل ازم دینے میں کامیاب ہوا ۔وہ الیکشن لڑ کر برسرِ اقتدار رہا لیکن کھوکھلی جمہوریت کی پر چون فروشوں والی نعرے بازی کبھی نہیں کی۔
مان لیتے ہیں‘ ہم سب جمہوریت پسند ہیں۔اس جمہوریت میں غریب ہاری، دیہاڑی دار مزدور، زرعی کسان اور عام آدمی کا حصہ کیا ہے...؟ یہ بھی تسلیم کہ مفاہمت درست ہے مگر اس کا ایجنڈا کیا عوام دوست ہے...؟ اگر ملکی نظام درست ہے تو پھر ذاتی دولت کے انبار کے مقابلے میں قومی خزانہ ٹھن ٹھن گوپال کیوں...؟ تازہ تحقیق یہ ہے ورکنگ کلاس میں خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جن کے پاس جینے کے اسباب اور باعزت زندگی گزارنے کا چانس ہو وہ جینا چاہیں گے ۔فلاحی ریاست رعایا کو جینے کی راہ پر ڈالتی ہے ،موت کے کنویں میں نہیں دھکیلتی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں