قانون صرف سزا کے لیے نہیں ہوتا۔ دنیا بھرکی ساری اصلاحات (Reforms)قانون کے ذریعے ہی ممکن ہوئیں۔ معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو، دور اور نظام جو مرضی۔
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ مغرب کا سماج خون کی ندیاں پار کر کے تبدیلی سے ہمکنار ہوا ۔آج وہاں جو معاشی ترقی اور اداروں کا استحکام دکھائی دیتا ہے وہ راکھ کے ڈھیر سے نکلا۔کون نہیں جانتا کہ آج کا چمکتا ہوا نیو یارک کل کی ''گینگ آف نیو یارک‘‘ کے قبرستان پر بنایا گیا۔نیو یارک میں کئی عشرے قصائی راج برپا رہا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں ایسی تلواریں ،بھالے اور کلہاڑے تھے جو چھ فُٹ کے آدمی کو ایک ہی وار میں دو ٹکڑے کر دیتے۔ پھر ذرا یورپ میں آ جائیں، جہاں مذہبی پاپائیت کی حکمرانی تھی۔جو صاحبِ جمال یا پری آسا خاتون اس نظام کے بڑوں کی داسی بننے سے انکار کرتی‘ اسے عین چوراہے میں لکڑیوں کے ڈھیر پر باندھ کر نذرِ آتش کر دیا جاتا۔اس کے لیے باقاعدہ قانون بنایا گیا ،جس کا نام تھا "Witch craft law" یا ''چڑیلوں سے نمٹنے کا قانون‘‘۔ مذہبی پاپائیت سے بغاوت کرنے والے نوجوانوں کو پھانسی دینے کے لیے بھی مذ ہب کوہی بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ کئی صدیوں تک لاکھوں جری نوجوان"wolf ware"قراردے کر مارے گئے۔ اس سے مراد تھی وہ مرد جو رات کو بڑے سائز کا بھیڑیا بن جاتا ہے۔
یہ کوئی فلمی داستان نہیں بلکہ گزرے ہوئے کل کے مغرب کی اصلی شکل ہے ۔جو جتنی بھیانک ہے اتنی ہی سچی بھی۔پھر مذہبی پاپائیت اور اس کے سائے میں پلنے والے بادشاہوں کے خاتمے کا دور آیا جس میں دو قوانین نے دو تاریخی کارنامے سرانجام دیے۔
ایک، مغرب کی ریاستیں مستحکم ہوئیں‘ دوسرے طاقت ور اشرافیہ اور گروہوں کو نکیل ڈال دی گئی۔آئیے ان دونوں قوانین کا ذرا تفصیلی تذکرہ کریں۔ پہلا تھا شخصی آزادیوں کا قانون‘ جس پر فوری اور سخت عملدرآمد کروایا گیا ۔اس کا بنیادی تصور کوہ مری کے پہاڑ کی ایک کہانی واضح کرتی ہے۔ وہ آپ بھی سن لیں!!۔ چودہ اگست کی صبح کوہ مری کا ایک راجہ سر پر کُلاّ باندھے ہاتھ میں پکڑی چھڑی‘ جسے پہاڑی زبان میں ''کُھونڈی‘‘ کہتے ہیں‘ کو آزادی کی خوشی میں مال روڈ پر لہرا رہا تھا۔راجہ صاحب اپنی کھونڈی کو چاروں طرف اپنے ارد گرد فضا میں گُھما رہے تھے کہ وہ کُھونڈی ایک گورے کی ناک پر جا لگی‘ جس پرسخت مباحثہ اور جھگڑا ہونے لگا، لہٰذا مجمع لگ گیا۔ گورے نے راجہ سے کہا‘ میں تمہیں تھانے لے جاؤں گا‘ تم نے میری ناک پر لاٹھی چارج کیا ہے۔ راجہ بولا‘ آج سے میں آزاد ملک کا شہری ہوں‘ کُھونڈی میری ہے جیسے چاہوں اسے گھماؤں۔ گورے نے جواب دیا‘ بیشک کُھونڈی تمہاری ہے لیکن ناک میری اور جہاں سے ـمیری ناک کی آزادی شروع ہوتی ہے‘ وہیں سے تمہاری چھڑی کی آزادی ختم ہو تی ہے۔ شخصی آزادیوں والے ایسے قوانین پر عمل کروانے کے لیے مغرب نے لائق ترین جج بٹھائے۔ ان ججوں کو اعلی تربیت یافتہ بیرسٹر معاونت کے لیے ملے‘ جنہوں نے سول حقوق کے قانون کی دھاک بٹھا دی ۔آج شخصی آزادیوں کی پامالی تو دور کی بات ان کی خلاف ورزی سے بھی وہ لوگ ڈرتے ہیں۔اسی لیے آج ایسے ملکوں میں اگر لمبی گاڑیاں اچانک بریک ماریں تو آپ سمجھ لیں کہ سڑک سے کوئی بوڑھا گزر رہا ہے یا کبوتر سڑک کراس کر رہا ہے۔ان ملکوں کی عدالتوں نے ''حق زندگی‘‘ کی نئی تعبیر کی جس میں سکون سے زندگی گزارنا ،اپنی مرضی کا حلیہ یا لباس پہننا، رات کو بروقت سونا ،پانی،بجلی، سڑک ،تعلیم ،علاج جیسی سہولتیں "Fundamental rights" یعنی بنیادی حقوق بن گئے۔
آج ان معاشروں میں کوئی جج، جرنیل ،جرنلسٹ ،وکیل، پارلیمنٹیرین ،حکمران ایسے کسی حق کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کرتا اور اس کی وجہ صرف ایک ہے ۔وہ یہ کہ قانون میں ایسی خلاف ورزی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ بلکہ خلاف ورزی کرنے والے کا مال ،شہرت ،عزت ،عہدہ سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ بنیادی، انسانی ، شہری حقوق اور آزادیوں کی بالادستی نے ایک اور بنیادی سماجی تبدیلی کو بھی جنم دیا؛ چنانچہ طاقت ور طبقہ، پیشہ، عہدہ اورپُل کے نیچے ننگی سڑک پر سونے والا بے گھر ،بے روزگار اور بے حیثیت شہری برابر ہو گئے۔ان ملکوں میں عدالتیں آزادی کے ساتھ شہریوں کے حق میں ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف کروڑوں ڈالر یا پاؤنڈ کی ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔ ریاست بھی سرجھکا کرہر عدالتی ڈگری اور ہرجانے کی رقم ادا کرنا پسند کرتی ہے بلکہ فلاحی ریاستیں شہریوں کو نظامِ انصاف پر یقین دلانے کے لیے ان مقدمات کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
کچھ سال پہلے امریکہ کی ایک ریاست میں معصوم بچے مارنے (infant killing)کا ایک سکینڈل سامنے آیا۔ اس مقدمے کی تفصیل پڑھنے اور سننے کے قابل ہے۔ہوا یہ کہ ایک مقامی اخبار نے معصوم بچے مارنے والے ملزموں کی ہسٹری شیٹ یا فہرست جرائم شائع کر دی‘ جس میں ایک نام ایسی خاتون کا تھا جو 35 سال پہلے کسی گھر میں ''بے بی سِٹر‘‘ یعنی معصوم بچے کی خادمہ تھی۔سیڑھیوں سے پاؤں پھسلنے کی وجہ سے خادمہ اور بے بی دونوں گرپڑے۔ سرمیں آنے والی چوٹ نے معصوم بچے کی جان لے لی۔واقعہ کا مقدمہ چلا اور موقع کی بہترین تفتیش کی وجہ سے نابالغ ملزمہ قتل خطا (Killing by mistake)یا بلا ارادہ قتل۔(Manslaughter) دونوں جرائم سے بری ہو گئی‘ مگر جب اس خاتون کا نام اخبار میں شائع ہوا تو اس کی عمر 40سال ہو چکی تھی۔ خاتون نے اپنی شہرت کے نقصان پر ذہنی اذیت کا مقدمہ دائرکردیا۔ یہ مقدمہ ٹرائل کورٹس سے سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ اس میں حکومت کے خلاف بھاری ہر جانے کی ڈگری جاری ہوئی۔قانونی ماہرین کے بیانات اور اخباری تبصروں کے مطابق کہا گیا کہ اگر یہ عورت 40سال نیو یارک کے فائیننشنل ڈسٹرکٹ میں کسی کمپنی کی چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر ملازم ہوتی تب بھی40سال میں اتنے پیسے نہیں کما سکتی تھی۔
یہ ہے وہ دوسرا قانون جس نے شہریوں کو گندے کھانے، ناقص دواؤں ،بے رحم علاج ،مجرمانہ ڈرائیونگ جیسے جان لیوا جرائم سے محفوظ کر دیا۔ اس لیے کہ تین مہینے یا چھ مہینے جیل کاٹنا آسان کام ہے لیکن اگر عدالت 6کروڑ جرمانہ کر دے تو ایسے جرائم میں مالی نقصان کا ہرجانہ ادا کرنے کے لیے گھر ،گاڑیاں اور جائداد بِک جاتی ہے۔ شہریوں کے نقصان کے ازالے، جرمانے اور ہرجانے کے اس قانون نے سماج کی سوچ،عادت بلکہ رویہ تک بدل ڈالا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مغرب نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا۔ اس کا جواب سادہ سا ہے اور مختصر بھی۔مغرب میں کوئی عہدہ یا شخص مقدس گائے نہیں‘ جو کوئی ان دو قوانین کے شکنجے میں آ جائے اس کی چیخیں اور کڑاکے‘ دونوں نکل جاتے ہیں۔آپ جاننا چاہتے ہیں ایسا تازہ واقعہ کون سا ہے؟ برطانیہ کے سب سے پرانے اخبار کا جو پچھلے سال ایسے ہی مقدمے میں ہار کر بند ہو چکا ہے۔جسے خفیہ کالیں ٹیپ کرنے کی سزا ملی۔اپنے ہاں یہ جرم کرنے والے تمغہ حُسنِ کارکردگی المعروف پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مانگتے ہیں۔
زندگی بھر ذہن و دل پر خوف کے سائے رہے!!
ہائے سچائی کے کتنے پھول مرجھائے رہے
روشنی کے دشمنوں نے روشنی ہونے نہ دی
اپنے ارمانوں کے سورج چاند گہنائے رہے
آ رہی ہے، آنے والی ہے محبت کی سحر
ہم یہی کہہ کہہ کے اپنے دل کو بہلائے رہے