بین الاقوامی نظام میں ریاست کا وجود سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اس انٹر نیشنل سسٹم میں دیگر کئی کھلاڑی میدان میں آنے کے باوجود ریاست عالمی نظام میں ایک بنیادی یونٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا کردار اور کام کرنے کاطریقہ تبدیل ہوگیا ہے۔ریاست کی اہمیت کا مکمل ادراک کرنے کیلئے ہمیں جن اہم ایشوز کو ذہن میں رکھنا ہوگا ان میں ایک یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی نظر میں تمام ریاستیں مساوی وزن اور اہمیت رکھتی ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستوں کی برابری کا اصول حقیقی سیاست میں کہیں وجود نہیں رکھتا۔بین الاقوامی نظام میں ریاستوں کی برابری کی درجہ بندی کرنے کے مختلف اصول ہوتے ہیں‘ جن میں اس ریاست کاجغرافیائی رقبہ‘آبادی‘قدرتی وسائل‘ اکانومی‘عسکری قوت‘ تربیت یافتہ افرادی قوت اور علم و ٹیکنالوجی شامل ہیں۔اس امر کاجائزہ لینا نہایت اہم ہے کہ ایک ریاست اپنے بنیادی فنکشنز کی ادائیگی کیلئے کس قدر مؤثر ہے۔یہاں ساری توجہ اس کے داخلی تناظرپر مرکوز ہے‘ کہ وہ ریاست داخلی تناظر میں اپنی برتری اورقانون کی بالادستی برقراررکھنے‘ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے اورانسانی اور سماجی ترقی کیلئے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟
ہمیں جدید ریاست کا کھوج سترہویں صدی کے وسط میں ملتا ہے جب یورپ میں سیاست کے سیکولر ہونے کی بدولت خود مختار ریاست اور حکمران کے نظریے نے فروغ پانا شروع کیا تھا۔ حکمرانوں پر چرچ کے بالادست کردار کو ختم کردیا گیا تھا اورایک خود مختار علاقے کی حامل ریاست کے تصور نے پہلے یورپ اور پھر دیگر علاقوں میں فروغ پانے میں ایک صدی کا وقت لیا۔ پھر رفتہ رفتہ ایک مقتدر بادشاہت اورخودمختار جاگیر دارانہ طبقے کی حکمرانی کی جگہ انتخابات کے ذریعے عوام کے نمائندہ حکمرانوں کا تصور سامنے آنے لگا‘خالص سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ فلاحی ریاست کا نظریہ فروغ پانے لگا۔انیسویں صدی کے آخر سے 1945ء میں دوسر ی جنگِ عظیم کے خاتمے تک رفتہ رفتہ ایشیا‘افریقہ اور مشرق ِوسطیٰ میں نوآبادیاتی حکمرانوں کی بدولت جدید ریاست کا نظام متعارف ہوگیا۔برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے دورمیں جنوبی ایشیا کے ممالک خصوصاًبھارت‘ پاکستان‘بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ریاستی ادارے وجود میں آئے۔ جن ممالک کو براہ راست مغربی نوآبادیات سے واسطہ نہیں بھی پڑا انہوں نے بھی جدید ریاست کے نظام کے مطابق ڈھلنے کا عمل سیکھ لیا۔ جدید ریاست میں ہمیں یہ خصوصیات ملتی ہیں کہ اس ریاست کو اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی حدود میں سپریم لیگل اتھارٹی حاصل ہوتی ہے اور اپنی رٹ برقرار رکھنے کیلئے فزیکل اور لیگل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ آئین او رقانون کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ریاستی اداروں کے کردار کا تنوع اسے روایتی بادشاہی نظام سے ممیز کرتا ہے۔تمام جدید ریاستوں نے آئینی اور قانونی نظاموں کی تدوین کر دی ہے۔ریاست تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے جنہیں قانون اور آئین کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ایک ریاست کا نمائندہ دستوری نظام دوسری ریاست سے مختلف ہو سکتا ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہی ریاست کے اندر تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔
دورِ حاضر میں گورننس اور سیاسی انتظام کی ذمہ داری ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔پاکستان جیسی ریاستوں میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا جواز برقرار رکھنے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے متعدد فرائض ادا کرے۔ریاست کے ساتھ شہریوں کی وفاداری کو محض ایک روایتی فرض نہیں سمجھا جا سکتا۔ریاست کو بھی اپنی ذمہ داریاں اس انداز میں قبول کرنا پڑتی ہیں کہ شہریوں کوبھی اپنے تجربے سے یہ ادراک ہوجاتا ہے کہ ریاست بھی ان کے مفادات کا خیال رکھتی ہے نیز یہ کہ وہ اس موجودہ ریاستی نظام میں ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی غالب اکثریت مسلمان ہے مگر یہاں ایک علاقائی‘لسانی اورنسلی تنوع پایا جاتا ہے‘ اس کیلئے اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ ان متنوع عوامل کیلئے گنجائش کیسے پیدا کی جائے۔ ان متنوع ذیلی شناختوں کو قومی دھارے سے خارج کرنے کے بجائے انہیں قومی شناخت کے اجزائے ترکیبی سمجھا جائے۔شناختوں کے اس تنوع کیلئے گنجائش پیدا کرکے انہیں پاکستان کی طاقت کے قالب میں ڈھالا جائے۔ہم کسی واحدانی اور مرکزیت پسند قومی شناخت کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ اسے ایک کثیر جہتی شناخت ہونا چاہئے جو پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے تہذیبی اور تقافتی پہلوئوں کی عکاسی کرتی ہو۔ایک متنوع تناظر میں رہتے ہوئے سماجی استحکام اورقومی ہم آہنگی اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے اگر ریاستی حکومت ایک ایسا نمائندہ سیاسی نظام تخلیق کرنے پر بھرپور توجہ دے جو علاقائی‘نسلی اورسیاسی تعلق اور جینڈر سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کیلئے مساوی مواقع فراہم کرے۔یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ قومی ہم آہنگی پیدا کرنے والے سیاسی طور پر متحرک لوگوں میں یہ احساس جاگزیں کیاجائے وہ اپنے ملک کے سیاسی عمل میں برابر کے شریک ہیں۔
اس تنوع کے چبھتے ہوئے عوامل کو معاشی ترقی کے ذریعے بہتر اور درست کیا جاسکتا ہے۔اگر پاکستان کے تمام شہریوں کو بہتر معاشی مواقع فراہم کر دیے جائیں تو قومی ہم آہنگی اور داخلی اتحاد کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔اگر ملکی معیشت شہریوں کی زندگی کی کوالٹی بہتر بنانے کے مواقع پیدا کردیتی ہے تو ہمارا معاشرہ مزید پرامن اور مضبوط ہو سکتا ہے۔یہ بات پاکستان جیسے ملک کیلئے نہایت ضروری ہے جہاں کی آبادی کا غالب حصہ 18سے 40سال کے ایج گروپ میں آتا ہے۔عمر کی اس کیٹیگری میں شامل لوگ معاشی اور سماجی ترقی کے زینے طے کرنے کے متمنی ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ریاست سے امید کی جاتی ہے کہ وہ انہیں اپنے خوابوں کی تکمیل کے بہتر مواقع مہیا کرے گی۔ صرف معاشی ترقی ہی کافی نہیں ہوتی‘یہ بھی ضروری ہے کہ معاشی ترقی کا ثمر سوسائٹی کے تمام طبقات تک پہنچ رہا ہو۔اگر معاشی ترقی کے نتیجے میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہو اور اگر مختلف علاقوں اور عوام میں معاشی عدم مساوات پید ا ہو رہی ہو تو سماجی تنازعات میں شدت اور کشیدگی پیدا ہو تی ہے اور لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نسلی اور مقامی شناختوں کا سہارالینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ریاست میں قومی ہم آہنگی کومستحکم کرنے کیلئے اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی بھی ناگزیر ہوتی ہے۔
کسی ریاست کی حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی سروسز مہیا کرنے کا بندوبست کرے جن کا تقاضاہے کہ انہیں تعلیم او رصحت عامہ کی خدمات اور شہری سہولتیں مہیا کی جائیں۔ پاکستانی حکومتوں نے روایتی طورپر عام شہریوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی پرکافی وسائل خرچ نہیں کیے جس نے پاکستان میں قومیت سازی کے عمل پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی معیشت ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے قاصر ہے جنہیں اپنا مستقبل غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ اس طرح کے حالات نوجوان نسل کو سیاسی طورپر گمراہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ہمیں اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ چین‘ جاپان اور کئی دیگر مشرقی ایشیائی ممالک نے گزشتہ چار عشروں میں ترقی کی منازل کیسے طے کی ہیں۔ان ممالک نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ ہیومین ریسورس ڈیویلپمنٹ پر خرچ کیا ہے اور اپنی متنوع آبادی کو برابر معاشی مواقع فراہم کرنے کیلئے اپنی اکانومی کو وسعت دی ہے۔پاکستان کے پالیسی ساز ان ممالک کے تجربے سے سیکھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ان کی پالیسیاں اور سیاست ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور سماجی و معاشی انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔