دس اپریل کو پارلیمنٹ کے ارکان نے پارلیمنٹ ہائوس میں ایک خصوصی اجلاس میں دستورِپاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔چونکہ یہ سارا پروگرا م پی ڈی ایم کے حکمران اتحاد نے منعقد کیا تھا اس لئے اس کے کئی رہنما اپنے بڑے سیاسی حریف یعنی عمران خان اور پی ٹی آئی کے حوالے سے نکتہ چینی کرنے سے باز نہ رہ سکے؛ تاہم اس تقریب کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ پی ڈی ایم کی حکومت ملک کی موجودہ سیاسی‘معاشی اور دفاعی صورتحال کی آڑ لے کرخود ہی آئین کی اس واضح شق کی خلاف ورزی پر تلی ہوئی ہے جو یہ کہتی ہے کہ کسی بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے رو ز کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہے۔وہ جاری سیاسی حقائق کی آڑ میں اس آئینی شق کو اپنے پائوں تلے روندنے کی کوشش کررہی ہے۔یہ نظریۂ ضرورت کے استعمال کا کوئی نیا انداز ہے جس کی تشریح یوں کی جارہی ہے کہ ملک میں موجودہ سیاسی پیشرفت یہ تقاضا کررہی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوامیں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتو ی کر دیے جائیں۔مگر ملک کی موجودہ صورتحال آج ایک آئینی شق کو روندنے کی اجازت دے سکتی ہے توپھر پی ڈی ایم قیادت دوسو کیس اکتوبر1958ء‘ نصرت بھٹو کیس اکتوبر1977 ء اور ظفر علی شاہ کیس مئی 2000ء میں نظریۂ ضرورت کے تحت ایک سویلین حکومت ختم کرکے اس کی جگہ فوجی حکمرانی مسلط کرنے کے عمل کو تنقید کا نشانہ کیسے بنا سکتی ہے ؟
1973ء کے آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ایک اور ستم ظریقی یہ ہوئی کہ حکمران پی ڈی ایم اتحاد اوراپوزیشن پی ٹی آئی دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف ایک تلخ اور نہ ختم ہونے والی سیاسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔پی ڈی ایم حکومتی اتحاد ریاستی مشینری‘مقدمات کی بھرمار اور انکوائریز کے ذریعے اپوزیشن کو کچلنے کے درپے ہے۔پی ٹی آئی ان حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے اور جوابی دبائو بڑھانے کیلئے اپنی سٹریٹ پاور کا استعمال کررہی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت سے گریزاں ہیں۔حکومت اور اپوزیشن میں مخاصمت پر مبنی تعلقات کی نوعیت 1972-73ء میں حکومت او راپوزیشن کے باہمی تعلقات کے بالکل برعکس ہے جب پاکستان کا موجودہ آئین بنایا جارہا تھا۔1972-73ء وہ دور تھا جب پی پی پی حکومت اور اپوزیشن کے باہمی تعلقات میں سخت کشیدگی پائی جاتی تھی۔اپوزیشن میں نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی(خان عبدالولی خان) اور جمعیت العلمائے اسلام (مفتی محمود گروپ )شامل تھے۔ فریقین میں باہمی اعتماد کا فقدان پایا جاتا تھااور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کے خلا ف ریاستی مشینری کا بے دریغ استعما ل کرتے تھے۔ 15 فروری 1973ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان حکومت ختم کردی اور اس برطرفی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی مستعفی ہونے کا اعلا ن کردیا۔وفاقی حکومت نے ان دونوں صوبوں کے گورنرز بھی تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔کچھ دن بعد 23مارچ 1973ء کو نیپ اور اس کے اتحادیوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا جس پر پی پی پی کے حمایت یافتہ عناصر نے حملہ کردیا جس میں متعدد کارکن مارے گئے‘ بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ایک دوسرے کے خلاف انتہائی کشیدگی اورپروپیگنڈا کے باوجود پی پی پی کی حکومت اور اپوزیشن ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئیں اور آئین کی تیاری سمیت تما م اہم قومی امور طے کرنے کیلئے دونوں فریقوں نے لچک کا مظاہرہ کیا۔حکومت اور اپوزیشن میں تعاون کی تین اہم مثالیںیہ ہیں کہ اکتوبر1972ء میں آئین بنانے کا معاہدہ ہواجس کے مطابق31دسمبر 1972ء تک آ ئین ساز کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرنا تھی‘ یہ معاہدہ بھی ہوا کہ اپوزیشن اپریل 1973ء میں آئین پر حتمی ووٹ ڈالنے سے قبل قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا خاتمہ کردے گی۔ذوالفقار علی بھٹو کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی اور وہ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر بھی آئین کی منظوری لے سکتے تھے؛ تاہم ان کی خواہش تھی کہ اپوزیشن بھی ملکی آئین کی منظوری کے عمل کا حصہ بنے۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئے اور اپوزیشن کی متعد دشکایات کا ازالہ کرنے پر رضامند ہوگئے؛ چنانچہ پاکستان کا آئین اتفاقِ رائے سے منظورکر لیا گیا جس کے خلا ف کوئی ووٹ نہ آیا؛ تاہم تین ارکانِ قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے وقت اجلاس سے غیر حاضر پائے گئے۔ یہ ارکان آئین کی ماسٹر کاپی پر دستخط کرنے کیلئے ایوان صدر بھی نہ گئے۔ آئین منظور ہونے کے چند روز بعد ہی بھٹو حکومت اور اپوزیشن میں تنقید کی گولا باری دوبار ہ شروع ہو گئی۔
1972-73ء کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے ہماری موجودہ قیادت کو چاہئے کہ سب لوگ ایک دوسرے کے خلاف اخلاق باختہ زبان اور جملو ں کا استعمال ترک کردیں۔محاذآرائی میں کمی لائیں اور قومی اہمیت کے حامل ایشوز پر باہمی تعاون کا مظاہرہ کریں۔ پی ڈی ایم حکومت او رپی ٹی آئی کو چاہئے کہ شدید محاذآرائی کی فضا میں اعتدال پیداکریں تاکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے افہام وتفہیم کا ماحول پید اہو سکے۔کشیدگی میں کمی لانے کیلئے یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات چیت کا آغاز کرے۔ اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ لچک کامظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی دعوت کو قبول کرے۔ بات چیت اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔
1973ء کے آئین نے ملک میں پارلیمانی جمہوریت او روفاقیت کی بنیاد رکھی۔بنیادی انسانی حقوق اس آئین میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ پالیسی کے اصول‘پالیسی سازی اور پالیسی پر عمل درآمد کیلئے آئوٹ لائن اور رہنمائی بھی اس آئین میں دستیا ب ہے۔ریاستی اداروں کو دی گئی خودمختاری اداروں کی آزادی کے ساتھ لازم وملزوم ہے؛ تاہم ہمیں جمہوریت‘الیکشن اور سول اور سیاسی حقوق سے متعلق اعلیٰ شقوں پر زیادہ عمل درآمد نظر نہیں آتا‘ خاص طورپر اس وقت جب ہم اس آئین کی روشنی میں جمہوریت کے ارتقا کا جائزہ لیتے ہیں اور بنیادی حقوق کے غیر منصفانہ نفاذ اور چنیدہ قوانین کی حکمرانی دیکھتے ہیں تو جمہوریت کی کوالٹی انتہائی ناقص نظر آتی ہے۔سویلین اور ڈکٹیٹر‘ دونوں طرح کی حکومتوں نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے اور اپنے سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کیلئے ریاستی مشینری کو بہت زیادہ جانبداری سے استعمال کیا ہے۔گزشتہ پانچ برس سے سیاست کا چلن زبوں حالی کا شکار ہے اور سیاسی قائدین ایک دوسر ے کے خلاف انتہائی غیر مہذب اورنامناسب زبان استعمال کرتے ہیں۔ آئینی اصولوں اور سیاسی عمل میں پائے جانے والے سنگین تفاوت کی وجہ سے آپریشنل سطح پرجمہوریت کا شدید فقدان نظرآتا ہے یہاں تک کہ انتخابات کرانے کیلئے تشکیل دیے گئے تین ماہ کے نگران سیٹ اَپ کو بھی اس جانبدارانہ سیاسی چپقلش میں ملوث کر لیا گیا ہے۔ زمینی حقائق اور تھیوری کے مابین پائے جانے والے خلا کو سیاسی عدم تسلسل اور آئین کی معطلی کے علاوہ اس پریکٹس کے ساتھ بھی منسوب کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح حکمران قیادت کے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے آئین کا حلیہ بگاڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہتھکنڈے سویلین حکومتوں نے بھی استعمال کیے ہیں۔جمہوری اورسویلین سیاست کی پختگی کو جن دیگر عوامل نے نقصان پہنچایا ہے ان میں مذہبی اور کلچرل عدم برداشت‘شدت پسند ی اور دہشت گردی شامل ہیں جس کی جڑیں ضیا دورِ اقتدار‘ غربت‘سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کی وجہ سے پائی جانے والی پسماندگی تک پھیل جاتی ہیں۔ ان عوامل میں پے درپے حکومتوں کی طرف سے انسانی فلاح و بہبود‘ سماجی ترقی پر مناسب انسانی وسائل خرچ کرنے میں ناکامی کے علاوہ ملک کی بگڑتی معیشت اور اسے رواں رکھنے کیلئے بیرونی مالیاتی وسائل پر انحصار بھی شامل ہے۔جب تک حکمران اور سیاسی قائدین ان مسائل کو حل کرنے پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ نہیں دیتے‘آئین کی گولڈن جوبلی عوام کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔