پاکستان بنتے ہی جہاں ایک طرف پڑوسی ملک کی طرف سے درپیش خطرات میں گھرا ہوا تھا تو دوسری طرف صرف واخان کی پٹی چھوڑ کر موجودہ تاجکستان کی شکل میںسوویٹ یونین جیسی عالمی طاقت کا پڑوسی تھا اور فوری طور پر جس چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک آزمائش تھی کہ آیا کمیونسٹ بلاک میں شرکت کریںیا کہ سرمایہ دارانہ بلاک میں ۔بنیادی مسئلہ اپنی بقاء کا تھا کیونکہ 1948میں ہی آزاد کشمیر کا محاذ کھل گیا تھا۔پورے معاشی وسائل نہ ملنا، مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ ‘انتظامی مسائل اور ہندو مسلم خونی فسادات اس کے علاوہ تھے ۔ بعض لوگوں کا خیال تھاکہ پاکستان چونکہ رقبہ اور وسائل کے اعتبار سے ادھوری شکل میں آزاد ہوا ہے اس لئے شاید survive نہ کر سکے ۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ پاکستان نے پہلے بجٹوں میں65سے 70فیصد رقم دفاع پر رکھی تھی تاکہ اپنا بچائو کر سکے۔ ایسی صورت حال میں اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں سے کسی ایک کا حصہ بننا وہ پہلی بیانیہ کی جنگ تھی جس کا ہم حصہ بنے اور ہم نے کمیونزم کے مقابلے میں صرف سرمایہ دارانہ بیانیہ چنا اور امریکی بلاک کا حصہ بنے۔1960میں پاکستان باضاطہ طور پر اس جنگ میں اس وقت دھکیلا گیا جب امریکہ کا جاسوس طیارہ U-2پشاور سے اُڑا اور سوویٹ یونین کی حدود میں داخل ہوا ۔یہ طیارہ توقع کے برعکس ریڈار میں آگیا اورمار گرایا گیا اس جہاز کا پائلٹ زندہ پکڑ لیا گیا۔ پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہونے کی ایک وجہ مسلم دنیا کے ممالک بھی تھے جو کہ خود امریکی بلاک کا حصہ بن چکے تھے اور خوف زدہ تھے کہ کمیونزم کا انقلاب ان کی بادشاہتوں کو ملیا میٹ نہ کر دے و اضح رہے کہ میڈل ایسٹ کے ممالک آج کی اس جدید دنیا میں واحد علاقہ ہیں جہاں ابھی بھی خاندانی بادشاہت پائی جاتی ہے۔
چونکہ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنا لہٰذا پاکستان میں مذہب کے نام پر پریشر گروپ اور جماعتوں کی آبیاری کی گئی تاکہ انہیں کمیونزم کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ مذہب کے نام پر آمرانہ سیاست ضیاء الحق کے شب خون مارنے اور بالخصوص 1979میں افغانستان میں سوویٹ یونین کی فوجی آمد کے بعد عروج پر پہنچ گئی۔ اگر اسلام نافذ کرنے کا بیانیہ لازمی قرار دینا ہوتاتوزکوٰۃ امیروں سے لے کر غریبوں تک پہنچائی جاتی قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے اور سب سے بڑھ کر پن بجلی کے بڑے منصوبے بنا دیئے جاتے جو کہ آ مریت کے ذریعے آسانی سے ممکن تھے تو نا صرف پاکستان کی معاشی حالت (میزانیہ) بہتر ہوتی بلکہ مرحوم ضیاء الحق تاریخ کے صفحات میں کچھ نرم الفاظ میںجگہ بنا پاتے۔ ضیاء الحق کے دور میں‘ سوویٹ یونین مخالف جنگ کے دوران امریکی صدر ریگن کے کہنے پر مدارس میں پڑھنے ولے بچوں اور جوانوں کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیا گیا یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سخت بیانیہ تھا۔ ضیاء کے بعد چارادھورے جمہوری ادوار آئے مگر کوئی و ا ضح بیانیہ دئیے بغیر بالآخر پرویز مشرف کے ہاتھوں رخصت ہوگئے مگر پرویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی یک لخت ضیاء دور کے برعکس روشن خیالی کا بیانیہ دے دیا جو کہ دنیا کی تاریخ میں اچھوتی مثال تھی کہ ایک ڈکٹیڑاورروشن خیالی ۔ سیاست میں خواتین کا علیحدہ کوٹہ اور پرائیوٹ میڈیا چینلز کے لائسنسز کے بے شمار اجراکے ذریعے جدت پسندی لاگو کرنے پر تل گیا مگر ایک کمی پھر باقی رہی کہ مشرف بھی کوئی بڑا اور دیرپامعاشی منصوبہ دینے میں ناکام رہا ۔ مشرف کے چلے جانے کے بعد دوسری جمہوری حکومت کا دور چل رہا ہے اور بیانیہ یعنی منشو ر اور قومی سوچ کو بتدریج نرم ، ماڈرن یا جدت پسند کرنے کی کوشش جاری ہیں۔
جب تک کسی قوم کی معاشی حالت نہ بدلے اُس کا بیانیہ یعنی ذہنی حالت اور سوچ بھر پور اور مکمل طور پر نہیں بدلی جا سکتی ۔''ـــ جب خوشامد کرنے والے اکٹھے ہوتے ہیں تو شیطان Dinner کرنے چلا جاتا ہے ‘‘لیکن اگر کسی علاقہ میں بھوک افلاس وہ بھی ، وسائل چند ہاتھوں میں ارتکاز ہوجائیں، تو شیطان وہ علاقہ چھوڑ دیتا ہے کیونکہ بھوکے پیٹ شیطان کو مات دے جاتے ہیں۔ ہمارا دینی بیانیہ تو یہ سبق دیتا ہے کہ کوئی کتا بھی بھوکا نا مرے لیکن اگر بھوک اس انتہا کو پہنچ جائے کہ لوگ کتے ذبح کر کے کھانے شروع کر دیں تو لوگ قومی بیانیہ تو درکنار مذہب کی تعلیمات کے بھی مخالف چل پڑتے ہیں۔کیونکہ بھوکے پیٹ خدا نہیںسوجھتا۔ جمہوریت اور قومی بیانیہ کس بلا کا نام ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں اکثر مشتبہ افراد گرفتار کرنے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔مگرکسی دانشور کاکہنا ہے کہ ـیاد رکھیں! ہر بھوکا اورناانصافی کا شکار شخص کسی بھی معاشرے میں مشتبہ فرد ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر کبھی بھی، کہیں بھی ،کسی بھی طرح شدت پسندوں کے ہاتھ نہ بھی لگے تو خود شدت پسند قدم اٹھا سکتا ہے اب بات اس ڈگر پر آن پہنچی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم کر نے اور امن و امان قائم کرنے کیلئے بیرونی بیانیے جوکہ پڑوسی و دیگر ممالک سے آتے ہیں ان کی کشمکش میں پڑنے کے علاوہ سب سے ضروری بات معاشی خوشحالی نہ سہی برابری بہت ضروری ہے جس دیس میں امرا ء کے کتے وہ خوراک کھاتے ہیں جو غریب کی اکلوتی اولاد کو میسر نہیںتو آپ شدت پسندی کی شاخیں اور پتے تو کاٹ سکتے ہیںمگر جڑ ہر گز نہیں کاٹ سکتے۔ جس ملک میں پانی سے پچاس ہزار میگا واٹ ایک روپیہ فی یونٹ کی قیمت سے بجلی پیدا ہو سکتی ہو مگر آپ پندرہ روپے فی یونٹ گھریلو صارف کو دیں تو کوئی بھی صاحب شعور حتیٰ کے مڈل کلاس کا بندہ بھی اپنے آپ کو لوئر کلاس میں محسوس کرے گا اور شدت پسندی کی طرف لا محالہ مائل ہو گا اس لئے ملک میں دیر پا امن قائم کرنے کے لئے صرف 'جد الفساد ‘ یعنی بیانیہ نہیںبلکہ میزانیہ بھی بدلو کیونکہ غربت ' ضرب الفساد‘ ہے۔!