بادشاہت سے جمہوریت تک کا سفر بہت سے انقلابات، مشکلات اور نظریات کی بدولت ممکن ہوا۔ ابتدا میں جمہوریت کے تین ستون تھے‘ پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ میڈیا بالخصوص پرنٹ میڈیا نے آہستہ آہستہ ریاست میں اتنے پائوں جمائے کہ چوتھے ستون کا درجہ حاصل کر لیا۔ گویا میڈیا ریاست کے ایسے پہلے ستون کی مانند تھا جو سرکاری نہیں تھا یا سرکار کا حصہ نہیں تھا۔ باوجود کچھ سرکاری اخبارات اور چینلز کے‘ بہت سارے پرائیویٹ میڈیا چینلز بھی کھل گئے تو میڈیا کو ریاست کا ایک غیر سرکاری ستون قرار دیا گیا۔ کئی ماہرین اس سطح کو پہنچنے والے میڈیا کو جمہوریت کے مکمل ہونے کا ایک پیمانہ تصور کرتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے سوشل میڈیا اتنی تیزی سے مختلف اشکال میں ابھرا اور تناور ہوا کہ متوازی میڈیا کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا لیا۔ بقول میڈیا گرو، سہیل وڑائچ یہ Counter میڈیا ہے‘ یعنی آرگنائزڈ‘ بڑی رقوم خرچ کر کے بننے والے میڈیا ہائوسز کے مقابل آ گیا ہے۔
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی حسب توقع اور حسب سابق کھانے پینے کی اشیا بشمول پھلوں کے‘ کی قیمتوں میں 25 سے 30 فیصد اضافہ ہو گیا۔ اس پر کسی نے کائونٹر میڈیا کے ایک ذریعہ یعنی فیس بک کے ذریعے تحریک چلائی کہ تین دنوں کے لئے پھلوں کی خریداری کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اس تحریک کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور دیکھنے میں آیا کہ پھلوں کی قیمتوں میں 25 سے 30 فیصد کمی واقع ہو گئی۔ اس پر کافی شور مچا یعنی اس کے متبادل ایک بیانیہ جاری کیا گیا کہ پھل زمیندار پیدا کرتا ہے اور درخت سے ٹوٹا ہوا پھل چند روز سے زیادہ نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح ایک یہ جواز پیش کیا گیا کہ بہت چھوٹے پیمانے پر گلیوں کے اندر ریڑھی پر پھل بیچنے والے بالخصوص بوڑھے مجبور لوگ تین دن کے لئے بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے‘ اگرچہ جتنا پھل فروخت ہوتا ہے اس میں اس طرح ریڑھیوں پر بالخصوص بوڑھے لوگوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے‘ لہٰذا لوگ باآسانی چاہیں تو ان کی مدد پھل خرید کر یا دیگر صورتوں میں کر سکتے ہیں۔ واپس آتے ہیں اصل ملزمان‘ جو کہ تعداد میں، پھل کی اصطلاح میں، چند درجن بھی نہیں ہوتے مگر مالی استطاعت میں کروڑوں پر بھاری ہوتے ہیں‘ پھلوں کو رمضان سے چند روز پہلے مارکیٹ سے خرید کر کولڈ سٹوریج میں ذخیرہ کر لیتے ہیں اور یہ ذخیرہ اندوز کہلاتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی سے سپلائی اور ڈیمانڈ غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا‘ کم از کم 25 فیصد‘ اضافہ معمول کے طور پر ہو جاتا ہے جبکہ اس بڑھی ہوئی قیمت کا کسان کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا چند درجن بڑے سرمایہ دار، ذخیرہ اندوز اس مقدس مہینہ میں بھی یہ کروڑوں افراد سے ناجائز منافع حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ میڈیا رپورٹس بتا رہی ہیں کہ تحریک کامیاب ہو گئی ہے اور بعض پھل 150 کی بجائے 100 روپے کلو تک آ چکے ہیں‘ تو اس میں جائزہ لینے والی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے متحرک ہونے کا ثبوت دیا ہے جو کہ بہت دیر بعد، بعض لوگوں کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے چلنے والی تحریک کے بعد‘ اگلی بڑی تحریک ہے۔ اگر لوگوں کی تعداد اور وہ علاقہ یعنی پورا پاکستان شمار کیا جائے تو یہ اس سے بڑی تحریک ہے مگر فرق یہ ہے نہ تو اس تحریک کا باضابطہ کوئی قد آور لیڈر یعنی قائد ہے‘ نہ کوئی علامتی ہڑتال ہوئی ہے‘ نہ جلسہ جلوس بلکہ صرف انگلیوں کے اشارے سے لوگوں نے اس مطالبے اور تحریک کے نعرے کو پسند کیا، کمنٹ کیا اور آگے شیئر کر دیا اور یوں ایک سے دس، دس سے سو، سو سے ہزار اور پھر چل سو چل لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے اور اس کو کامیاب بنایا۔
اب چلتے ہیں اسی سے ملتے جلتے ایک اور پہلو کی طرف‘ اور وہ ہے بوتلوں میں بکتا منرل واٹر یعنی پینے کا پانی، ڈبوں میں بند جوس اور مائع اور خشک حالت میں دستیاب دودھ بھی۔ بہت سے مبصر نما لوگ یہ خیال اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملاوٹ شدہ اور جعلی یعنی مصنوعی دودھ کی فروخت‘ جس کے متعلق اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے‘ بند نہیں ہوئی اور تاحال یہ چیزیں مارکیٹ میں بک رہی ہیں اور سارا سال بکتی ہیں۔ پانی کی مثال لے لیں۔ تقریباً چالیس سے پچاس روپے میں ایک لٹر کی بوتل دستیاب ہوتی ہے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی کمپنی مارکیٹ میں ایسی نہیں جس کے پانی کے متعلق کسی بھی لیبارٹری نے تصدیق کی ہو کہ یہ پانی منرل تو دور کی بات‘ صحت بخش بھی ہے۔ یہی صورتحال ڈبوں میں بند دودھ کی ہے جس کے متعلق یہ خبریں آئیں کہ کچھ کمپنیوں نے اگر سو کلو دودھ خریدا تو اسے ملاوٹ اور مضر صحت مصنوعی اجزا کی مدد سے دو سو کلو بنا کر فروخت کیا۔ جبکہ کچھ کمپنیوں نے تو مکمل طور پر مصنوعی دودھ تیار اور فروخت کیا۔ ایک دلچسپ عنصر کا جائزہ لیجئے۔ شہر میں پینتالیس روپے میں پانی کی بوتل میسر آتی ہے جبکہ گائوں میں آپ ضمانت کے ساتھ اسی قیمت میں ایک کلو خالص دودھ حاصل کر سکتے ہیں‘ لہٰذا پھلوںکے بعد اگلی تحریک اس دودھ نما ملاوٹ شدہ مائع اور پانی کے خلاف چلنی چاہیے اس میں ایک بات لازم ہے کہ اگر شہری کھلے نل سے حاصل کردہ پانی کو ابال لیں اور پھر ٹھنڈا ہونے پر مٹی کے گھڑوں میں ڈال لیں یا فریج میں رکھ لیں اور بوتلوں میں ڈال کر ساتھ لے جائیں تو بغیر کسی قیمت اور دقت کے مارکیٹ میں بکنے والے غیر صحت مند پانی کا تدارک کر سکتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال کھانے پینے کی دیگر اشیا بالخصوص گوشت، بیکری کی چیزوں اور جوسز کا بھی ہے۔
پینے کے پانی اور جعلی دودھ کے خلاف تحریک چلتی ہے یا نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ ماہ رمضان میں پھلوں کی قیمتوں کے خلاف چلنے والی کامیاب تحریک قوم کی بیداری کی علامت ضرور ہے۔ کسی ایک ماہر کے مطابق اس تحریک کو مدِنظر رکھتے ہوئے 2018ء کے انتخابات میں بھی اسی طرز پر تحریک نہ سہی کوئی مہم ضرور لانچ کی جا سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں اس بار کائونٹر میڈیا کو کائونٹر کرنے کے لئے کیا کیا جاتا ہے۔