بالغ میڈیا

اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسز لکھتے ہوئے ریسرچ کے دوران جو مقولہ مجھے سب سے زیادہ اہم لگا، وہ مارشل نامی ایک مغربی مفکر کا ہے‘ جس میں وہ کہتا ہے کہ ''میڈیا سے مستفید ہوتے ہوئے اگر آپ احتیاط نہیں برتیں گے تو یہ آپ کو ظالم سے پیار اور مظلوم سے نفرت کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘۔ قارئین! بنیادی طور پر میڈیا کا مقصد آپ کو باخبر رکھنا اور معلومات فراہم کرنا ہے۔ اسے آپ خبر دینا بھی کہہ سکتے ہیں۔ میڈیا کے اور مقاصد بھی ہیں۔ دوئم‘ آپ کو Educate کرنا اور سوئم‘ آپ کو تفریح مہیا کرنا ہے۔ میڈیا کا جنم اخبار کی شکل میں ہوا‘ جہاں سے پہلے ریڈیو، پھر ٹیلی ویژن اور اب آج کے دور میں سوشل میڈیا‘ جسے Counter Meadia بھی کہا جاتا ہے‘ کی شکل میں دنیا کے ہر شخص کی زندگی میں بلا تفریق سرایت کر چکا ہے‘ چاہے وہ امیر ہو یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہو۔ حتیٰ کہ شہری و دیہی کی تفریق کے بھی بغیر کیونکہ سوشل میڈیا بالخصوص Facebook کی شکل میں تمام اخبارات کی اہم خبریں یا بریکنگ نیوز، موسیقی اور فلموں تک ہر شخص کی رسائی صرف ایک موبائل کے ذریعے ہو چکی ہے۔ اور تو اور چلتا پھرتا ہوا ایک عام سے عام شخص بھی ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کسی بھی جگہ ویڈیو بنا کر خود Citizen جرنلسٹ کے طور پر میڈیا سے منسلک ہو سکتا ہے۔ کئی لوگ اس طرح منسلک ہیں۔ میڈیا کی تاریخ کھنگالی جائے تو پتا چلے گا کہ میڈیا کا عروج‘ جسے میڈیا کا جوان ہونا یا بالغ ہونا بھی کہتے ہیں‘ وہ وقت تھا جب امریکہ کے صدر نکسن کو واٹر گیٹ سکینڈل کے اُچھالے جانے پر مستعفی ہونا پڑا تھا۔ واضح رہے کہ نکسن امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جنہیں مستعفی ہونا پڑا۔ میڈیا کی بلوغت یا عروج کو عام لفظوں میں ریاست کا چوتھا ستون ہونا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں‘ بالخصوص جب سے میڈیا بین الاقوامی ہوا‘ یعنی کچھ چینل انٹرنیشنل ہو گئے‘ جس کی مثال پاکستان کے حوالے سے امریکی چینل سی این این کی ہے، تو میڈیا نے Weapons of Mass Deception کی شکل اختیار کر لی۔مغربی میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا مہم اس طرح سے لانچ کی گئی ہیں کہ دنیا کے بہت سارے مظلوموں پر ہونے والے ظلم سے لوگ اوّل تو بے خبر رہے یعنی انہیں کوریج ہی نہ دی گئی اور اگر کوریج دی گئی تو اس طرح کے پروپیگنڈے کے ساتھ کہ لوگ مظلوموں سے ہمدردی کے بجائے نفرت کرنے لگیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال مسلم دنیا ہے جہاں سیاسی افراتفری، انتشار اور دہشت گردی، جس میں بیرونی دنیا پوری طرح ملوث ہے، کے نتیجے میں لاکھوں معصوم بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ دور کیا جانا افغانستان کے داخلی معاملات کا جائزہ لے لیں اور مشرق وسطیٰ میں گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا احاطہ کر لیں۔ سارا کھیل واضح ہو جائے گا‘ مگر دنیا کے اکثر ممالک‘ بالخصوص مغربی دنیا میں مسلمانوں کا تشخص دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے نہ کہ ایسے ممالک اور عوام کے طور پر جو دہشت گردی کا شکار ہیں‘ یعنی مظلوم لوگوں کے طور پر۔ 
وقت حاضر میں میڈیا نے اتنی زیادہ وُسعت، گہرائی اور شدت پکڑی ہے کہ اب میڈیا کے اندر مزید مضامین اور شاخیں شامل ہو گئی ہیں‘ جن کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں یہ تیزی سے وُسعت پکڑنے والا بڑا شعبہ بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ترقیاتی صحافت (Development Journalism) ہے۔ یعنی دنیا میں کسی قوم کی ترقی میں بھی میڈیا نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے تعلیم کا فروغ، آبادی میں تیز رفتار اضافے پر قابو پانا، ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے جیسے امور سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔
مزید آگے بڑھیں اور حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے کچھ ماہرین اپنی تعلیمی قابلیت‘ اور کچھ مربوط شخصیت کے ذریعے‘ اور اگر ان کے پاس یہ دونوں خصوصیات یا قابلیتیں نہ ہوں تو صرف اپنی ناموری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمران چاہے کرپٹ ہوں، ڈکٹیٹر ہوں یا ان میں کوئی اور خرابی پائی جاتی ہو، مگر کچھ لوگ اپنے لکھے اور بولے الفاظ کے ذریعے ان کی مدح سرائی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کی رائے بدل بھی جاتی ہے۔ میڈیا سے منسلک ایسے مورکھوں کو سپن ماسٹر یا ماسٹرز آف سپن Masters of spin کہا جاتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا، جس کے فیڈ بیک کی وجہ سے یہ سپنرز کبھی کبھی قدرے سیدھی گیندیں کرتے ہوئے، قدرے صحیح بات کرتے ہیں یا موضوع کا انتخاب مقامی سیاست کے علاوہ کرتے ہیں۔ 
گویا یہ لوگ کسی سپن بالر کی طرح بات کو اس طرح اور اتنا زیادہ گھماتے ہیں اور گول مول کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی ظالم حکمران کا تشخص )جب وہ اقتدار میں ہوتا ہے( اس طرح سامنے آتا ہے کہ لوگوں کو ان سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ اسے درست تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ مذہبی حوالوں کا استعمال کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ ان لوگوں میں کچھ تو اپنی بات کو اتنا گھما پھرا کر پیش کرتے ہیں کہ کوئی لیگ سپنر بھی گیند کو نہ گھما سکتا ہو گا۔ یہ سپن ماسٹرز کرپٹ حکمرانوں کی مدح سرائی میں اپنی خدمات بلا معاوضہ ہرگز پیش نہیں کرتے‘ یعنی ان کی آرا غیر جانبدارانہ طور پر ایسے حکمرانوں کے حق میں نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے پیسہ، پراپر ٹی یا دیگر کوئی عنصر کارفرما ہوتا ہے۔ 
اب آپ غور کریں اور سوچیں ان تحریروں کے بارے جو آپ نے پڑھیں، وہ مباحثے جو آپ نے سنے، تو آپ کو اندازہ ہونا شروع ہو جائے گا کہ ڈکٹیٹر سے لے کر جمہوری حکمرانوں تک کی مدح سرائی میں کتنے لوگوں نے ایسا لکھا یا یا بولا کہ لوگ کرپٹ اور ظالم حکمرانوں کی محبت حتیٰ کہ نرگسیت میں گرفتار ہو گئے۔ آپ چاہے گرفتار ہوئے یا نہیں، مگر ان سپن ماسٹروں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ میڈیا اگرچہ بہت طاقتور یا بالغ ضرور ہو چکا ہے، مگر عاقل یا عادل ہرگز نہیں۔ اس لئے میڈیا کا مواد (contents) پڑھتے یا سنتے اور دیکھتے ہوئے احتیاط ضرور کریں‘ ورنہ یہ آپ کو بھی مظلوم سے نفرت اور ظالم سے پیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں