بھارتی لالیتا کے آنسو

چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ کمیونسٹ ملک ہونے کی وجہ سے وہاں سنگل پارٹی نظام رائج ہے‘ جس کو مغربی معیار کے مطابق مکمل جمہوری نہیں مانا جاتا۔ اسی لئے زیادہ تر لکھنے والے بھارت کو، آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گردانتے ہیں۔ میرے خیال میں چین کا نظام سوشل ازم کے قریب ترین ہے۔ اس طرح بھارت کا پہلا اور سب سے بڑا دعویٰ بھی ایک تضاد ہے۔ بھارت اپنے طور سیکولر ہونے کا دعویدار ہے‘ جبکہ بھارت میں سب سے لمبا دور برہمن (سب سے اونچی ہندو ذات) وزرائے اعظم کا ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آج تک بھارت میں 52 سال برہمن وزرائے اعظم رہے ہیں۔ ان 52 سالوں میں سے 37 سال بھارت پر گاندھی خاندان نے حکومت کی‘ اور اگر سونیا گاندھی اپنی اور راجیو گاندھی کی اولاد کو اقتدار سے دور نہ کرتیں‘ تو من موہن سنگھ کے 10 سال بھی گاندھی (برہمن) خاندان کے حصے میں آتے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو 16 سال برسرِ اقتدار )تا حیات) رہے۔ کسی ایک وزیر اعظم کا اتنا لمبا عرصہ برسر اقتدار رہنا جمہوریت کی اصل روح کے منافی تصور ہوتا ہے۔ انتقال کے وقت نہرو کی عمر 75 سال تھی اور ابھی ان کی ٹرم پوری ہونے میں 3 سال باقی تھے۔ اگر زندگی وفا کرتی تو ٹرم کے اختتام پر ان کی عمر 78 سال ہو چکی ہوتی اور یوں غیر برہمن شاستری کے حصے ڈیڑھ سال بھی نہیں آنا تھے۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم ایک چھوٹی ذات کے ہندو، شاستری 9 جون 1964 سے 10 جنوری 1966 تک اقتدار میں رہے۔ شاستری کی موت آج تک ایک معمہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ مشہورزمانہ تاشقند معاہدہ پر دستخط کرنے کی رات تقریباً ڈیڑھ بجے، موجودہ ازبکستان، جو اس وقت متحدہ روس (USSR) کا حصہ تھا، کے ایک شہر میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ موت کا غالب اور واضح اندیشہ یہ ظاہر کیا گیا کہ ان کے کھانے میں زہر ملایا گیا‘ اگرچہ ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی۔ ان کے ذاتی معالج نے اس کی قطعی تردید کی۔ ان کے اہل خانہ بالخصوص ان کا سیاستدان بیٹا سنیل شاستری‘ جس کا تعلق بی جے پی سے ہے‘ اور شاستری جی کے پوتے بھی، آج تک یہ ماننے کو تیار نہیں اور گاہے گاہے اپنے درد کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی موت طبعی نہ تھی۔ شاستری کا پوسٹ مارٹم نہ کروانا‘ ان کی موت کو مزید مشکوک بنا دیتا ہے۔ ان کے بیٹے کے مطابق آنجہانی کے جسم پر موجود گہرے نیلے نشان، موت کی وجہ زہر خورانی کا واضح ثبوت تھے۔ شاستری جی کے بیٹے نے چند سال پہلے ایک پاکستانی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں بھی اپنے انہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس مشکوک فیصلے کے حوالے سے اصل دبائو، اگلی عارضی حکومت کا تھا‘ جس کا انتخاب شاستری کی لاش انڈیا آنے سے پہلے ہو چکا تھا‘ جبکہ اگلی مستقل وزیر اعظم کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ پہلے وزیر اعظم جواہر لال کی بیٹی اندرا گاندھی تھی۔ واضح رہے کہ اندرا گاندھی کو مرار جی ڈیسائی جیسی قد آور سیاسی شخصیت پر سبقت دیتے ہوئے وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ اندرا گاندھی 1980 میں دوبارہ اقتدار میں آئی اور 1984 میں ان کے قتل ہونے پر ان کے سولہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ آنجہانی شاستری کی بیوی لالیتا نے اپنی شاعری کی کتاب 'لالیتا کے آنسو‘ میں اپنے درد کو بھرپور انداز میں پیش کیا تھا۔ لالیتا کی یہ کتاب اندرا گاندھی کے 1966 تا 1977 یعنی پہلے گیارہ سالہ دور کے بعد 1978 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کو اتنی پذیرائی ملی کہ اس کی نظم 'لالیتا کے آنسو‘ دنیا کی سو بڑی رزمیہ (EPIC) نظموں میں شمار ہوئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ان کا بیٹا راجیو گاندھی 1984میں برسر اقتدار آیا مگر 1991 میں تامل علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں اس وقت قتل ہو گیا‘ جب وہ اگلے الیکشن کی ریلی سے خطاب میں مصروف تھا۔ 
شاستری کے بیٹے سنیل شاستری نریندر مودی کے حکومت میں آنے پر اپنی مطالبہ دہرا چکے ہیں کہ جتنی بھی معلومات مبینہ قتل سے متعلق اکٹھی ہوئی تھیں ان کو DECLASSIFY کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی ہر دوسرا شخص ان سے پوچھتا ہے کہ لال بہادر شاستری کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ ان کا مزیدکہنا تھا کہ انہوں نے تین دفعہ من موہن سنگھ سے بھی درخواست کی تھی۔ اس ضمن میں روس کے سفارت کار نما جاسوس YURI BEZMENOV کا انٹرویو بہت اہم ہے‘ جو اس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دیا اور کتاب Deception my job میں بھی اس کا ذکر کیا کہ وہ لوگ نہرو خاندان کے کہنے پر ممکنہ سیاسی مخالف لوگوں کو مار دیا کرتے تھے۔ اسی KGB آفیسر نے بھارت کے اندر کام کرنے والی مختلف activist تنظیموں کوباآسانی اور بیرونی مرضی کے مطابق کام کرنے پر راضی ہو جانے کی بنا پر مفید احمق (useful idiots) کا نام دیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں بھارت غیر جانبداری کے برعکس مکمل طور پر روس کے ہاتھوں میں کھیلتا تھا۔
آج کا بھارت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ بھارت میں آج بھی نہ صرف چھوٹی ذات کے ہندوئوں اور مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کی اقلیتیں ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں بلکہ ہندو انتہا پسند بیرونی محاذوں پر بھی اشتعال انگیزی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی غربت والی آبادی، اپنے عوام کے مسائل پر توجہ دے اور پڑوسی ممالک کو بھی سکھ کا سانس لینے دے مگر اس کے دماغ پر سوار برہمن سوچ نے عقل کو تالے لگا دئیے ہیں۔ وہ اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کے تحت‘ مغربی دنیا کے ہاتھوں میں بگڑ ے ہوئے برہمن سوچ والے مفید احمق کی طرح کھیلتے ہوئے چین مخالف مہم جوئی میں مصروف ہے۔ اسی طرح افغانستان میں دہشت گردانہ اقدامات صرف پاکستان کو نقصان پہچانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ بھارت کی اس جارحیت کی وجہ سے پورے علاقے کی سلامتی کو خدشات لاحق ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب حالیہ بھارتی عزائم اور حرکتوں کی تاریخ لکھی جائے گی تو شاستری کے قتل کی طرز پر جو لکھا جائے گا اس کا عنوان صرف ''لالیتا کے آنسو‘‘ نہیں بلکہ ''بھارتی لالیتا کے آنسو‘‘ ہو گا‘ اور بھارتی عوام کو بربادی کی وجوہات برہمن بھارت کے ہاتھوں پر تلاش کرتے اور خمیازہ بھگتتے شاید مزید 70 سال لگ جائیں۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں