Remember you are (only) a Human

ملک میں جاری سیاسی ہلچل نے مخفی طور پر ایک سلسلہ ، تاریخی و ادبی الفاظ بلکہ محاوروںکے ذکر کا ، بھی شروع کر دیا ہے۔اس کی ابتدا ء معزز عدلیہ کے ابتدائی فیصلہ سے ہوئی جب فیصلہ میں شہرہ آفاق ناول"گاڈ فادر " سے محاورہ " Behind every successful fortune there is a Crime " کا ذ کر آیا یعنی ہر بڑی قسمت (مالدار) کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔یہ محاورہ واضح کرتا ہے کہ بہت زیادہ مالدار لوگ بالخصوص بغیر کسی تخلیقی صلاحیت کے او ر یک دم امیر ہونے والوں کے پیچھے کرپشن چھپی ہوتی ہے۔اس محاورے کے فیصلے میں ذکر کے بعد اطالوی ڈرامائی ناول، گاڈ فادر، پاکستان میں اتنا مقبول ہوا کہ کتابوں کی دکانوںکے مالکان کو اضافی کاپیاں منگوانی پڑیں حالانکہ یہ ناول بہت پرانا ہے۔ یہ ناول 1969ء میں شائع ہوا جس کی کہانی اٹلی کے ایک انڈر ورلڈ کریمینل خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ اسی ناول کے ذکر کے بعد اس کے کچھ مزید محاورے بھی مشہور ہوئے جیسے ایک افسر مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ"I am gonna make him an offer he can't refuse". یعنی میں اس کو ایسی پیشکش کروں گا کہ وہ انکار نہ کر سکے۔ بظاہر یہ ایک بڑی مالی پیشکش لگتی ہے اور ہو بھی سکتی ہے مگر ناول میں اس سے مراد یہ تھی کہ افسر کی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر فیصلہ لینا۔ آفر اس طرح تھی کہ کاغذ پر اس کے دستخط ہوں گے یا اس کابھیجا۔اگلا مشہور فقرہ "Never let anyone know what you are thinking." اسی طرح "Never hate your enemies. It affects your judgment." بھی اسی ناول میں تحریر ہے۔
اس کے بعد جناب سہیل وڑائچ نے ایک کالم Party is Over کے عنوان سے لکھ دیا گویا اس کالم نے پیشگوئی کر دی کہ حکومت کا جاناطے ہے۔ اس کالم کا تذکرہ نجی محفلوں سے لیکر تمام میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں گونجتا رہا۔ جناب وزیر اعظم نے اُن سے ایک سفری ملاقات میں خود بھی اس کالم کا شکوہ بھرا ذکر کیا۔ مکمل فیصلہ آنے کے بعد اس شاہکار کالم کی گونج مزید شدت پکڑگئی ہے اور تو اور کچھ لوگ تو Party is Over سے مراد صرف حکومت کا جانا ہی نہیں بلکہ حکومتی جماعت کا جانا ( تقسیم یا کمزورہونا) بھی سمجھ رہے ہیں۔ 
تاریخی و ادبی محاوروں کے سلسلے کی اگلی قسط تاریخ ساز فیصلے سے ایک دن پہلے وزیر داخلہ نثار احمد خان،جو کہ اب وزیراعظم کی طرح سابق ہوچکے ہیں، نے اپنی پریس کانفرنس میں رومن ایمپائر کے بادشاہ Julius Caesar کے متعلق لکھے جانے والے ڈرامائی ناول سے ماخوذایک مقولہ بول کر اس تاریخی ادب کی بحث اور ذکر کو وسعت مہیاکر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران سیزر کے کان میں دو افراد مسلسل ایک فقرہ بولتے رہتے تھے کہ You are Just a Human"،Caesar "چوہدری نثار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ وزیر اعظم( سابق) کو انہی دو افراد کی طرز پر یاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے اختتام پر بھی ایک تلقین کی کہ اگر فیصلہ حق میں آئے تو پائوں زمین پر ہی رکھیںاور لوگوں کی گردنیں مت اتاریں اور فیصلہ خلاف آنے پر صبر سے کام لیں۔دلچسپ اتفاق ہے کہ سیزر جس رومن سلطنت کا بادشاہ تھا یہ موجود ہ اٹلی کا ہی علاقہ ہے۔گویا یہ ڈرامائی ناول بھی اٹلی کے علاقہ سے ہی متعلق ہے اور یہ تحریر کہیں بڑے مصنف،شیکسپیئر نے 1599 میں لکھی۔ اس ناول میںر ومن بادشاہ سے منسوب بہت سارے شہرئہ آفاق ڈائیلاگ ہیں جن کو اقوال زریں کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ در اصلAuriga نامی ایک غلام تھا جو بادشاہ کی دو گھوڑوں والی بگھی چلاتا تھا‘ اس کا شمار بادشاہ کے انتہائی با اعتماد اور وفادار لوگوں میں ہوتا تھا اور یہی غلام ہر اہم موقع پربادشاہ کے پیچھے کھڑا ہوتا تھااور بادشاہ کو طاقت کے نشے میں غلط فیصلہ کرنے سے روکنے کے لئے ایک موئژ تدبیر کے طور پر دو الفاظ کا یہ فقرہ بولتا تھا کہ Memento Homo یہ اٹالین زبان کے الفاظ ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ "Remember you are (only) a Human"اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ غلام مکمل عالمانہ الفاظ ادا کرتا تھا کہ آپ بہرحال صرف ایک انسان ہیں۔ بادشاہ کا ماننا تھا کہ اس غلام کے ان الفاظ کی وجہ سے وہ بہت اہم مواقع پر جوش و جذبات کی بجائے ہوش و ہواس سے کام لیتا تھا۔قارئین آپ نے یہ مقولہ یقینا سنا ہو گا، "A cowrad dies thousand times before his death"آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ مقولہ بھی اسی تصنیف میں لکھا گیا ہے۔اسی طرح مزیدکئی فقرے جو ہم روز مرہ گفتگو اور تحریروں میں استعمال کرتے ہیں‘ اسی لافانی تصنیف سے لئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مقولہ I came ,I saw ,I conquered "میں آیا، میں نے دیکھا، اور میں نے فتح کر لیا "ہے اسی فقرے کا ایک ترجمہ "وہ آیا ،اس نے دیکھا اور فتح کر لیا"بھی کیا جاتا ہے اسی طرح اس تصنیف میں مقولہ ہے کہ " تجربہ تمام چیزوں کا استاد ہوتا ہے"بادشاہ سیزر اپنے قریبی جرنیل بروٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے شاہکار فقرہ کہتا ہے کہ "The Fault is not in our Stars but in ourselves" مطلب"قصور ہمارے ستاروںیعنی تقدیر کا نہیں بلکہ ہمارااپنا ہوتا ہے"۔یاد رہے کہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے پیپلز پارٹی چھوڑنے اور پارٹی کے مخالف ، کرپشن کی اندرونی کہانیوں کے راز افشاںکرنے والے بیانات بلکہ پریس کانفرنس کرنے پر بلاول بھٹو نے مرزا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے اٹالین زبان کے الفاظ میں ٹویٹ میں کیا تھاکہ "Et tu Brutus" جس کا انگریزی ترجمہ مشہور ترین مقولہ You Too Brutus " یعنی" بروٹس تم بھی" ۔یہ الفاظ سیزر اس وقت کہتا ہے جب اس کا قریبی ترین ساتھی بروٹس بھی اس سے غداری کرتے ہوئے اسے قتل کرنے والوںکے ساتھ مل جاتا ہے۔اس لئے کسی کے قریبی دوست کے چھوڑ جانے پر حتیٰ کہ شبہ ہونے پر یہ فقرہ کثرت سے بولا جاتا ہے۔
واپس آتے ہیں چوہدری نثار کی طرف توپتہ چلتا ہے کہ ان کے بولے فقرے میں انسان کی جبلی اصلیت کا احاطہ حقیقی انداز سے کیا گیا ہے۔کیوں کہ بادشاہ سے بڑا کوئی عہدہ نہیں ہوتامگر اس کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بہرحال وہ صرف ایک انسان ہے اور انسان فانی ہونے کے ساتھ ساتھ غلطیوں کا پتلا ہے اور یہ کہ وہ جتنی کم غلطیاں کرے گا، اتنا ہی کم نقصان اٹھائے گا ۔قارئین ! کتنی دلچسپ بات ہے کہ جتنے بھی واقعات اور بالخصوص محاورات کا ذکر ہم کر رہے ہیںان کا پاکستان کی سیاسی صورت حال سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ آخرمیں ذکر سیزر بادشاہ کے ایک مزید ڈائیلاگ کا جو کہ بہت تلخ ہے ،وہ آج سے دو ہزار سال قبل کہتا ہے کہ "What a Terrible Era ,in Which Idiots Govern the Blinds" یعنی کتنا بھیانک دور ہے کہ احمق اندھوں پر حکومت کر رہے ہیں۔
اب معذرت کے ساتھ آپ سے گزارش ہے کہ ایمانداری سے سوچیںاور بتائیں کہ تمام فقروں یعنی محاوروں میں سے آپ کو پاکستان کی زیادہ تر سیاسی تاریخ سے متعلق حقیقی اور قریبی محاورہ کون سا لگا؟
ضروری نوٹ:آپ ایک سے زیادہ محاوروں کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں اور آخری بات
Human Remember you are (only) a 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں