Melting Pot

آج کا کالم Melting pot کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ melting pot کا Metaphor یعنی استعارہ‘ کنایہ یا معنی ایک ایسے برتن کے ہیں جس میں ڈالی جانے والی ہر چیز پگھل جاتی ہے۔ یہ تصور 1910 کی دہائی میں امریکہ میں بہت مشہور ہوا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ تصور امریکہ میں ایک قومی نعرہ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اور آج تک موجود ہے۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کو ہجرت کرکے آنے والے لوگوں بالخصوص یورپی لوگوں نے آباد کیا۔ آج کے امریکہ میں 70 فیصد سے زیادہ لوگوں کا تعلق یورپ سے ہے۔ اسی لئے بعض تاریخی ماہر امریکہ کو یورپ کی تاریخ کا ایک باب کہتے ہیں۔
Melting Pot سے امریکہ میں مراد خود ملک امریکہ ہے۔ چونکہ امریکہ میں یورپ کے علاوہ دنیا کے ہر علاقے، مذہب، نسل اور زبان کے لوگ بخوشی آباد ہیں۔ اس لئے امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکہ ایک ایسا گرم برتن ہے جس میں دنیا بھر سے کسی بھی کلچر سے آنے کے بعد ہر شخص پگھل جاتا ہے۔ اپنی شناخت کھو کر امریکہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ امریکہ کو Melting Pot کے بجائے Salad Bowl کہتے ہیں۔ Salad Bowl سے تشبیہ اس لئے دی جاتی ہے کہ سلاد کے برتن میں ہر سبزی اور پھل اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عین اسی طرح امریکہ میں بسنے والوں نے اپنی اصل پہچان یا کلچر کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ مختلف کلچر کے لوگوںکا ایک جگہ پر اکٹھے رہنا Cultural Pluralism یا Multiculturalism بھی کہلاتا ہے۔ چونکہ امریکہ میں مجموعی طور تمام دنیا سے آئے ہوئے لوگ مجموعی طور پر ایک ہی رنگ میں ڈھل کر رہتے ہیں اس لئے Melting Pot کا تصور نمایاں اور واضح معلوم ہوتا ہے۔
یہی لفظ 70ء کی دہائی میں پاکستان کی سیاست میں بھی استعمال ہوا مگر یکسر پگھلا دینے کے معنی کے طور پر۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات اور الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک ایک ایسی صورتحال سے دوچار تھا کہ نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کی جانب سے احتجاج جاری تھا۔ انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو ایک نجی طیارہ میں سوار تھے۔ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار ان کی خدمت کے طور پر ان کے پائوں دبا رہا تھا۔ ایسے میں ایک جونیئر افسر (جنہوں نے یہ واقعہ اپنی کتاب میں رقم کیا ہے) نے جرات کرتے ہوئے بھٹو سے پوچھا کہ سر کیا ہونے والا ہے؟ تو بھٹو نے مشروب کی چسکی لگاتے ہوئے غیر یقینی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیا: Everything is in the Melting Pot۔ اس سے بھٹو کی مراد یہ تھی کہ ہر چیز گرم برتن میں پڑی ہے‘ پتہ نہیں حتمی شکل کیا بنے گی۔ بعد ازاں نتیجہ مارشل لا کی شکل میں سامنے آیا۔
اب آتے ہیں ملک میں جاری موجودہ سیاسی صورت حال کی جانب۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ کشمکش یا کوششوں کے نتیجے میں وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار پا چکے ہیں۔ حکمران حلقے اس نااہلی کو بھٹو کے کیس سے تشبیہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی بیٹی کو بینظیر بھٹو سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے سے جاری پریس کانفرنسوں میں ہیجان انگیز مطالبوں اور دعووںپر مبنی تقریباً ناقابل برداشت لفظوں کی جنگ جاری ہے۔ سرِدست ایک قائم مقام وزیر اعظم 45 دن کے لئے حلف اٹھا چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے بقیہ دور کے لئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوا کر وزیر اعظم منتخب کروانے کا عندیہ دیا گیا ہے‘ مگر قطعی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ حکومتی جماعت کے مستقبل کے بارے میں مختلف آرا دی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک معتبر مگر خطرناک پیش گوئی یہ ہے کہ اس جماعت کا شیرازہ ق لیگ کی طرح بکھر سکتا ہے یا کم از کم پیپلز پارٹی کی طرح ایک صوبے تک حتیٰ کہ ایک صوبے کے کسی مخصوص علاقے تک محدود ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ماہر سیاسی استاد کا کہنا ہے کہ موجودہ حکمران سیاسی جماعت کی ساکھ اور طاقت میں بظاہر کوئی کمی اس لئے محسوس نہیں ہو رہی کہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی۔ میڈیا پر مرضی کے پروگرام اور تبصرے چل رہے ہیں اور حسبِ توفیق شاہی دربان بھی موجود ہیں۔ اصل پتا اس وقت چلے گا جب اگلے الیکشن کا اعلان ہو گا۔ استاد کی جانب سے یہ دعویٰ، ڈٹ کر، کرنے کی ایک بڑی وجہ جمہوریت کا عوامی امیدوں پر پورا نہ اترنا ہے کیونکہ دوسری جمہوری حکومت کے بھی چار سال بغیر کسی ایک بھی بڑے عوامی منصوبے کے گزر چکے ہیں‘ لہٰذا حکومتی جماعت کا مستقبل بھی Melting Pot میں ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں آنے والی کمی بالخصوص کراچی شہر میں آنے والی بہتری کا کریڈٹ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے جاری رکھے گئے آپریشن کو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ سی پیک جیسے منصوبے کا کریڈٹ صرف کوئی ایک حکومت نہیں لے سکتی‘ بلکہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ سی پیک منصوبہ براہ راست فوج کی زیر نگرانی جاری ہے۔ کراچی پر دہائیوں سے حکمران سیاسی جماعت کا شیرازہ بالآخر بکھر چکا ہے۔ یہ جماعت کم از کم تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس میں سے ایک حصہ ایک نئی جماعت کی شکل میں نکلا ہے۔ یہ نئی جماعت بدستور پھل پھول اور پھیل رہی ہے۔ چونکہ یہ ایک نئی جماعت ہے اور عوام میں اپنا اثر و رسوخ یعنی ووٹ بینک زیادہ نہیں رکھتی ‘اس لئے امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل کے الیکشن میں یہ جماعت پی ٹی آئی سے ممکنہ اتحاد کر سکتی ہے۔ اتحاد کی صورت میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے دونوں پارٹیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس اتحاد کی دوسری بڑی وجہ پی ٹی آئی کا شہروں کی مقبول جماعت ہونا ہے۔ کراچی کی سیاست میں خلا پیدا ہو چکا ہے‘ اور کراچی ایک ایسا شہر ہے‘ جس کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے‘ جو پاکستان کی کل آبادی کا دس فی صد ہے۔ یہاں پورے پاکستان کے لوگ آباد ہیں‘ لہٰذا کراچی شہر میں ہر سیاسی وابستگی کے لوگ موجود ہیں۔ اسی لئے کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کراچی پاکستان کا امریکہ ہے مگر بڑا فرق امن و امان کا ہے۔ اگلے الیکشن میں کراچی میں جماعت اسلامی کا کردار یا کسی پارٹی سے اتحاد بھی کسی حد تک اہم ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی جماعت اسلامی کا گڑھ مانا جاتا تھا‘ لہٰذا اگلے الیکشن تک کراچی میں سیاسی تبدیلی یا سبقت کی صورت حال بھی Melting Pot میں ہے۔
بظاہر اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا گراف اوپر جاتا نظر آرہا ہے۔ سیاسی استاد اس سلسلے میں دو بڑی توجیحات پیش کرتے ہیں۔ اول: پیپلز پارٹی اپنا دور پورا کر چکی اور ن لیگ کا دور پورا ہونے کو ہے‘ مگر دونوں جماعتیں عوام کے لئے کوئی بڑا خوش کرنے والا کارنامہ تو درکنار کوئی مطمئن کرنے والی کارکردگی بھی نہیں دکھا سکیں۔ دوئم: کرپشن کی دیوی بھرپور طریقے سے بے نقاب ہو چکی ہے اور کرپشن کے حوالے سے دونوں پارٹیاں سب سے زیادہ الزامات زدہ ہیں۔ کرپشن کی دیوی کو بے نقا ب کرنے کا سہرا پی ٹی آئی کے سر بندھ چکا ہے‘ مگر پی ٹی آئی کی تقدیر کا انحصار، عمران خان کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مشروط ہے۔ ایک نئے سیاسی نظام کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ گویا مجموعی سیاسی صورتحال ہی Melting Pot میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں