تیزی سے بدلتی دنیا میں سیاست اور سفارت کاری کے انداز بھی بدلتے رہتے ہیں۔ جس طرح فلموں کے ذریعے بھارت نے اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی زیادہ تر فلموں میں روشن خیالی، ترقی اور خوشحالی کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فلموں کے ذریعے ہی بھارتی سکھوں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا کلچر اور اپنی علیحدہ پہچان قائم کی ہے۔ اس کی بڑی مثال سکھوں کی خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک پر بننے والی فلموںکی ہے۔ بھارت کی سب سے متعصب تصور کی جانے والی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے واقعے پر پنجابی فلم ''قوم کے ہیرے‘‘ بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے باضابطہ حملے کے ظلم کی داستان کو انتہائی مہارت سے فلمایا گیا ہے۔ بھارت کی پنجابی فلمیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھارتی سکھ آباد یا پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں ،انتہائی شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ اگر آپ Youtube پر ان فلموں کا لنک کھولیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک فلم کو Youtube پر دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ Youtube پر موجود فلموں، کرنٹ افئیر کے پروگراموں اور مختلف Documentaries کے ذریعے بھارتی سکھ انتہائی کامیابی سے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھا رہے ہیں، جو کہ حقیقت پر مبنی ہے۔
فلموں یعنی میڈیا کے علاوہ مختلف کھیل وہ ذریعہ ہیں جس سے مختلف ممالک سفارت کاری کرتے ہیں۔ ان کھیلوں میں جنوبی ایشیا کی حد تک سب سے اہم کھیل کرکٹ ہے۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیمیں دنیائے کرکٹ کی پہلی دس ٹیموں میں شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان گزشتہ چند سالوں سے اپنی ساکھ کو بحال اور
بہتر کرنے کے لئے کامیابی سے کوشاں ہے۔ زمبابوے کی ٹیم کا دورہ پاکستان، پھر T20,PSL ٹورنامنٹ کے فائنل کا انعقاد اور اب ورلڈ الیون ٹیم کا کامیاب دورہ پاکستان، اس سلسلے میں بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔ بھارت میں تقریباً پورا سال کوئی نہ کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ جاری رہتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینے میں IPL کا انعقاد ہوتا ہے جس کے فوری بعد تامل ناڈو پریمئیر لیگ اور پھر کرناٹکا پریمئیر لیگ کے نام سے T20 ٹورنامنٹ کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔ بھارت کھیلوں میں بھی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ جاری رکھتا ہے ، IPL ٹورنامنٹ میں ساری دنیا کے کھلاڑیوں کو دعوت دیتا ہے مگر پاکستان کے کھلاڑیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ہر سال ہونے والے T20 ٹورنامنٹ میں کوئی بھی بھارتی کھلاڑی شرکت نہیں کرتا۔ آپ پاکستان کا دورہ کرنے والی ورلڈ الیون ہی کو دیکھ لیں اس میں ویسٹ انڈیز، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے کھلاڑی شامل تھے سوائے بھارت کے، جو بھارت کی خارجہ پالیسی کی جارحیت اور تعصب کا کھلا ثبوت ہے۔ گویا یہ بات بغیر شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ بھارت کھیلوں کے سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھتا ہے۔ اس کا مزید ثبوت دنیا ئے کرکٹ Online کرکٹ کی سب سے بڑی سائٹ ہے جس کا مالک ایک بھارتی ہے۔ یہ سائٹ کو چاہئے تو یہ کہ وہ صرف کرکٹ کی خبر دے، مگر یہ پاکستان کے حوالے سے کوئی بھی خبر ہو تو اسے منفی رنگ دینے کی ضرور کوشش کرتا ہے ۔
اسی طرح بھارت پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز کسی نیوٹرل مقام پر بھی کھیلنے سے کترا رہا ہے۔ کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی کرکٹ کا پچھلے چند سال کا عروج دراصل سٹے بازی، یعنی میچ فکسنگ کی بدولت ہے۔ کھیلوں میں سیاست کی طرح بہت سی مجبوریاں حائل ہوتی ہیں۔ جس طرح بھارت میں ہونے والے ورلڈکپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں فائنل تک بھارت کی رسائی اس لئے ناگزیر تھی کہ اگر بھارت فائنل نہ کھیلتا تو پورا ملک فائنل میچ بھی نہ دیکھتا، جس سے اربوں روپے کے اشتہارات کا نقصان ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کی کل آبادی کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے اس لئے جو ٹورنامنٹ یا میچ بھارت کھیلتا ہے اس کو دیکھنے والوں کی تعداد سوا ارب سے زیادہ ، صرف بھارت میں ہوتی ہے۔ اس لئے مارکیٹنگ سے وابستہ لوگ بھی میچ فکسنگ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
واپس آتے ہیں پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی طرف، جس میں ورلڈ الیون سیریز کا کامیابی سے انعقاد بلا شبہ پاکستان کی کرکٹ سفارت کاری میں بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے T20 ٹورنامنٹ، PSL کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ ہے کہ پشاور زلمی کی ٹیم میں دو کھلاڑی چائنہ سے شامل ہو گئے ہیں جو 2017ء کے ٹورنامنٹ میں شرکت کریں گے۔ یہ بہت بڑی اور اہم خبر ہے چونکہ چین دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور ہے اور اس نے کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے تو پاکستان کو چاہئے کہ اس محاذ پر بھی چین کا بھرپور ساتھ دے۔ چین کی کرکٹ کے کھیل میں انٹری سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا کیونکہ سب سے پہلے چین ICC کا نہ صرف حصہ بنے گا بلکہ سب سے مضبوط آواز بن کر اُبھرے گا۔ جس طرح پہلے ذکر ہوا اشتہارات کی جنگ کا، تو چین اس لحاظ سے انڈیا سے کہیں آگے ہے۔ اوّل تو چین کی آبادی بھارت سے بھی زیادہ ہے، دوم جب کسی ٹورنامنٹ میں چین شرکت کرے گا،پورا چین وہ ٹورنامنٹ دیکھے گااور حقیقی معنوں میں وہ لوگ سو اارب سے زیادہ ہوں گے، یاد رہے کہ تیس کروڑ سے زیادہ بھارتی محض بجلی کی سہولت موجود نہ ہونے کے باعث کرکٹ ٹورنامنٹ دیکھنے سے محروم رہتے ہیں لیکن چین میں بجلی کی ایسی کوئی قلت نہیں ہے۔ لہٰذا چین میں اگر کوئی چیز میڈیا پر دیکھی جا رہی ہوگی تو وہ پورے ایک ارب ۳۵ کروڑ لوگ دیکھ رہے ہوں گے۔ چین میں کرکٹ کی دلچسپی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ چین ورلڈ اولمپکس کا انعقاد کروا چکا ہے لہٰذا چین کے اندرسٹیڈیم بھارت سے کہیں بڑے اور بہتر ہیں۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ PSL کا انعقاد دبئی کی بجائے چین میں کروایا جائے کیونکہ PSL کا انعقاد چین میں ہونے کی وجہ سے پاکستانی شائقین بذریعہ سڑک میچ دیکھنے جا سکیں گے جس سے ٹورنامنٹ کے جوش و خروش میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ کھیلوں کے مقابلوں پر قریبی نظر رکھنے والے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کو اپنے طور پر ایک T20 ٹورنامنٹ کا انعقاد کروانا چاہئے ۔اس سے چین اپنے ملک کی سفارت کاری بھی بہتر کر سکے گا اور چین میں کرکٹ کے کھیل کو فروغ بھی ملے گا ۔ یہاں پر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ میں چین نے اسٹیڈیم تعمیر کرنے میں مکمل مالی تعاون کیا تھا۔
دیکھتے ہیں کہ چین کب اور کس حد تک اس طرف مائل ہوتا ہے مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ الیون سے جو میچ کھیلے ہیں، یہ اتنی ہی بڑی کامیابی ہے جتنی بڑی کامیابی بھارتی، اسرائیلی اور دیگر کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی پیدا کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی دلیر افاج نے حاصل کی ہے۔ا س لئے یہ بھی ''پاکستان بمقابلہ پوری دنیا‘‘ کی طرح ہے۔