ترقی کا بیج

دنیا بھر میں تحقیق سے منسلک سرگرمیوں کو سب سے اعلی درجے کی سرگرمی گردانا جاتاہے ۔جسے معاشیات کی زبان میں Quinary سرگرمی میں شمار کرتے ہوئے اسے گولڈ کالر کا درجہ دیا جاتاہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کا اصل کام تحقیق کرکے جدت پیدا کرنا ہے ۔ اس کو مثال سے یو ں واضح کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ملک کو درپیش مسائل جیسے بیماریوں کے ادراک کے لئے نت نئی ادویات اور علاج دریافت کرنا ۔ملک کی سب سے پرانی اور بڑی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ مالیکیولر بیالوجی کے تحقیق دانوں کی ایک ٹیم نے پروفیسر ڈاکٹر ادریس کی سربراہی میں کپاس کا ایک ایسا بیج دریافت کیا ہے جو کسانوں اور ملکی معیشت کے لئے قو می سطح پر بے پناہ خوبیوں کا حامل ہے ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر یونیورسٹی کی اس کامیابی پر اتنے خوش نظر آتے ہیں کہ گزشتہ روز ایک ورکشاپ کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کپاس کے اس بیج کو ـ ـ ترقی کا بیج قرار دیتے ہوئے اپنے عزم کو دھرایاکہ وہ اس طرز پر دیگر ایجادات و دریافتوں کو اولین ترجیحات میں شمار کریں گے ۔ ڈاکٹر ظفر صاحب نے بتایا کہ کپاس کے اس بیج کے استعمال سے فی ایکڑ پیداوار کے لیے پندرہ ہزار روپے سے زائدکی بچت ہوگی۔
اُس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یہ بیج چار مختلف سُنڈیوں کے خلاف مکمل قوت مدافعت رکھتا ہے لہٰذاکسان کو سُنڈیاں مارنے والی ادویات کا سپرے نہیں کرنا پڑے گا۔ اسی طرح کپاس کا یہ بیج جڑی بوٹیوں کے خلاف مکمل قوت مدافعت رکھتا ہے اس لئے تین سے چار دفعہ کی جانے والی گوڈی کی محنت اور لاگت کی بچت بھی ہوگی۔ یہاں پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کپاس کا یہ بیج '' نرما‘‘ ٹائپ کا ہے جو پاکستان کی کل کپاس کا 90 فیصد سے زائد ہے ۔ یعنی نوے سے 95 فیصد کاشتکار نرما قسم کا بیج ہی استعمال کرتے ہیں ۔ ایک کسان ہر سال اڑھائی سے تین ہزار روپے فی کلو یہ بیج مغربی ممالک سے درآمد کرتا ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے دریافت کردہ بیج کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو تک ہونے کا امکان ہے ۔ ان تمام عوامل کو شامل کیا جائے تو پیداواری لاگت میں فی ایکٹر پندرہ ہزار روپے سے زائدکی کمی کا امکان ہے ۔ پاکستان میں پچھلے سال 72 لاکھ ایکٹر پر کپاس کاشت کی گئی تھی، جو ماضی کے مقابلے میں 8 لاکھ ایکٹر کم ہے جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مختلف قسم کی سُنڈیوں کے حملے کی وجہ سے فصل خراب اور بسا اوقات تباہ ہوجاتی تھی۔ اس لئے بہت سارے کسان کپاس کی بجائے کسی دوسری فصل کی کاشت کی طرف راغب ہوجاتے تھے۔ اگر 72 لاکھ ایکٹر کا حساب لگایا جائے اور فی ایکٹر پندرہ ہزار روپے کی بچت سے ضرب دی جائے تو تقریبا 140 ارب روپے یعنی 1.4 ارب ڈالر کی بچت کا امکان ہے ۔ اس بیج کی دریافت بلاشبہ ایک قومی کارنامہ ہے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی پنجاب یونیورسٹی کے دریافت کردہ اس بیج کی 40 اقسام بھی پیدا کی گئی ہیں ۔ ملک بھر کی زراعت کچھ یوں ہے کہ تما م علاقے، موسم اور مٹی ایک جیسی نہیں ۔40 سے زیادہ قسمیں بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں کے موسمی حالات اور مٹی کی مناسبت سے یہ بیج فراہم کیا جائے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایجاد کردہ بیج کی 40 مختلف اقسام کی وجہ سے یہ بیج بین الاقوامی اہمیت کاحامل ہوگا۔ یعنی اس بیج سے پوری دنیا کے ممالک ،جو کپاس کاشت کرتے ہیں، مستفید ہوسکیں گے اور پاکستان زر مبادلہ کماسکے گا۔ پہلے ذکر ہواہے کہ مغرب سے کپاس کے بیج کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا تھا ،لہٰذا اس بیج کی تیاری سے نہ صرف زر مبادلہ بچے گا بلکہ الٹا پاکستان زر مبادلہ کمانے کے قابل ہو جائے گا اور یہ زرمبادلہ اربوں روپے میں ہو گا ۔
پاکستان دنیا کا کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور زیر کاشت رقبہ کے اعتبار سے کپاس گندم کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی فصل ہے ، پاکستان کی برآمدات میں کپاس اور اس سے منسلک مصنوعات پاکستان کی کل برآمدات میں سب سے نمایاں ہیں ۔اس بات کو آسانی سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ Cotton ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے نمایاں انڈسٹری ہے ۔ اسے واضح طور پر پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ کپاس کی کاشت کے بعد Ginning وہ پہلا مرحلہ ہے جس میں بنولے کا بیج کپاس سے علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ کپاس کا یہ بیج جسے عرف عام میں بنولہ کہتے ہیں ،اس سے جانوروں کی مرغوب اور طاقت ور غذا ''کھل ‘‘بنتی ہے ۔ جننگ کے بعد دوسرا مرحلہ دھاگہ بنانے کا ہے۔ دھاگے کے بعد اس سے کپڑا بنایا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد اسی کپڑے سے ملبوسات تیار کئے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل کو ذہن میں لائیں تو آپکو بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری حقیت میں پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں پورا جسم ہے ۔ اس صنعت کے ساتھ کپاس کی بوائی سے لیکر کپڑوں کی سلائی تک کروڑوں لوگوں کا روز گار وابستہ ہوتا ہے ۔
کپاس وہ جنس ہے جس کی کشش Colonialism کا باعث بنی تھی۔ دنیا کی سب سے پہلی Colonial پاور برطانیہ تھی ۔ جہاں پر کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری قائم کی گئی ۔ مگر واضح رہے کہ برطانیہ نے کبھی ایک'' پھُٹی‘‘ بھی کاشت نہیں کی اور برصغیر اُس وقت کا کپاس کاشت کرنے والا سب سے بڑا علاقہ تھا اس لئے برطانوی سامراج کے جنوبی ایشا کا رُخ کرنے کی ایک بڑی وجہ کپاس تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مصنوعی دھاگہ ایجاد کرلیا گیا مگر کپاس کی اہمیت کو کم نہ کیا جاسکا چونکہ کپاس یورپ جیسے علاقے میں کاشت نہیں ہوتی اس لئے یہ ممالک کپاس سے تیار کردہ کپڑا اور ملبوسات بنانے سے قاصر ہیں ۔ مگر ملبوسات میں کاٹن لازمی جُز وہونے کی وجہ سے وہ کپاس سے تیار کردہ ملبوسات درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان دو ملین ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ چین ، بھارت اور امریکہ کے بعد وہ ملک ہے جہاں پر دنیا کی کل کپاس کا تقریباً 10 فیصد پیدا ہو رہا ہے ۔ کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری جس کا ذکر اوپر کیا گیا کو ذہن میں رکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے تیار کردہ بیج کی مد د سے 15 ہزار روپے فی ایکٹر لاگت میں کمی کو مدنظر رکھاجائے تو بلاشبہ پنجاب یونیورسٹی کا تیارکرد ہ یہ بیج صحیح معنوں میں قومی کارنامہ ہے ۔ اسی لئے اپنے خطاب میں رئیس جامعہ ڈاکٹر ظفر صا حب شاداں و فرحاں نظر آئے اور انہوں نے ایک مزید خوش خبری کی پیش گوئی کی کہ اسی بیج کی طرز پر مکئی کا بیج بھی متعارف کروایا جائے گا اور اس سلسلے کو جاری و ساری رکھا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پنجاب یونیورسٹی بہت جلد اس طرح کی ایجادات سے خود کفیل ہوجائے گی اور اپنے تمام تر اخراجات خود اُٹھائے گی ۔ یقینا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا یہی راز ہے کہ وہ ترقی کے بیج ایجاد کر تے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں