حقوقِ نسواں کا گلاب: 8 مارچ یا 6 مارچ؟

1914ء سے8 مارچ کا دن بجا طور پر‘ عورتوں کے حقوق کے دن کی حیثیت سے سرخی مائل گلابی یا بینگنی رنگ کے نشان کے ساتھ عالمی سطح پر پوری شدومد کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ 18ویں صدی کے وسط میں یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں انسانی زندگی پر جو اثرات نمایاں طور پر مرتب ہوئے ان میں سب سے پہلے بڑے شہروں کا تیزی سے نیا طرزِ زندگی تھا۔ اس شہری زندگی نے ازل سے دوسرے درجے کے شہری کے طور پر زندہ رہنے والی عورت کو اپنے غصب کیے گئے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس سلسلے کی ابتداء 1880ء کی دہائی میں‘ دنیا کی اولین جمہوریتوں میں سے ایک‘ ریاست امریکا سے ہوئی۔ یہ تحریک کسی انقلاب سے کم نہ تھی کیونکہ جمہوری ملک ہونے کے باوجود عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہ تھا، وہ جائیداد نہیں خرید سکتی تھی، اس کو مرد کے برابر اجرت نہیں ملتی تھی، یہاں تک کہ اسے ووٹ کا حق بھی میسر نہ تھا۔ سادہ لفظوں میں مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت مغرب میں جمہوریت بھی صرف مردوں کے لئے تھی۔
خواتین کے حقوق کی پہلی تحریک کو First Wave of Feminism کہا جاتا ہے، کیونکہ عورتوں کو اپنے حقوق کے لئے اس کے بعد بھی وقفوں وقفوں سے جدوجہد کرنا پڑی اور Third wave of Feminism کے بعد 1920ء میں امریکا سمیت بڑے مغربی ممالک میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا تھا۔ اس سلسلے میں عورتوں کو روس میں 1917ء میں آنے والے کمیونسٹ یعنی سرخ انقلاب کا ممنون مانا جاتا ہے جس نے عورتوں سمیت تمام انسانوں کیلئے برابری بالخصوص (ہر حال میں) معاشی برابری کا نعرہ لگایا اور بعد ازاں اس پر عمل کر کے دکھایا۔ یوں بھی خواتین سے منسوب گلابی رنگ سرخ رنگ کے ہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر قدیم تاریخ کے اوراق میں انسانی شعور اور ترقی پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات و افکار کی اصل اور بڑی سرزمین یونان کو مانا جاتا ہے‘ جہاں چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک درجنوں مفکروں نے دنیا کو آزاد سوچ کے ساتھ علم کی سورج نما شمع سے آشنا کیا۔ اسے ہم یونانی منشور قرار دے سکتے ہیں۔ اہلِ یونان کے علاقے میں انتشار پھیلنے (400ء) کے بعد کے دورکو تمام تاریخ دان Dark Ages قرار دیتے ہیں۔ یہ تاریکی اس وقت ختم ہوئی جب 610ء میں دنیا میں ایک نئے منشور کا نزول عرب کے صحرائی علاقے سے شروع ہوا۔ اس الہامی منشور کی تکمیل 6 مارچ 632ء کو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئی۔ اس دن آخری اور تکمیلی خطبے میں انسانیت کو درپیش دیگر امور کے ساتھ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک ہے اور یہ کہ ان کے حقوق مردوں کے برابر (Equal) بلکہ بہتر (Equity) ہیں۔ اس منشور کے تحت علم کا حصول محض حق نہیں بلکہ لازم قرار دیا گیا۔ جائیداد اپنے نام پر رکھنے کے علاوہ وراثت میں بھی عورت کو حصہ دار قرار دیا گیا۔ تقریباً پوری دنیا میں بیٹے سے نسل چلنے کا ایک خود ساختہ تصور پایا جاتا تھا جسے یکسر مسترد کیا گیا۔ کسی بھی شخص کے لئے‘ سب سے زیادہ حق کے معاملے میں ماں کی ہستی کو باپ پر تین چوتھائی فوقیت دی گئی۔ بوڑھے ماں باپ کی باتوں کا کسی طور برا نہ ماننے کی تلقین کی گئی‘ چاہے وہ کتنی ناگوار ہی کیوں نہ گزریں۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا منشور ہے جس نے عورت کو مکمل تحفظ ا ور تمام بنیادی حقوق فراہم کیے۔ اس سے پہلے کسی مذہبی یا دنیاوی افکار، نظریات، منشور یا عقیدے نے عورتوں کو یہ مقام نہیں دیا تھا۔ اس کے بعد موجودہ عراق کی سرزمین پر علم کا ایک ایسا شہر بسایا گیا جہاں اہلِ یونان کی دنیاوی علم کی جستجو کو آگے بڑھایا گیا اور یہ سلسلہ پانچ سو سال سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا جس کے بعد یہ سلسلہ یورپ میں چلا گیا جسے Renaissance یعنی یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ برتری آج تک برقرار ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ عورتوں کے حقوق کی تحریک مغربی ممالک میں پروان چڑھی‘ اسی لئے یہ ممالک اپنے آپ کو اس کا بانی اور وارث سمجھتے ہیں اور آج بھی اس عالمی دن کو منانے میں نہ صرف سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں بلکہ اپنے زیر اثر دنیا کے دیگر ممالک کو بزور طاقت اپنے معیار کے مطابق عورتوں کے حقوق پر عمل کروانے کے لئے ہر ممکن حد تک جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز مشرف کے دور کو دیکھ لیجیے جس میں عورتوں کے لئے اسمبلیوں میں کوٹہ مخصوص کرنے کا کہا گیا تھا۔ ٹی وی ڈراموں کے موضوعات سے لے کر ایسے ایشوز کی کوریج تک کے امور پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ کسی ایسے ایجنڈے کا حصہ ہے جس پر بزور عمل کروایا جاتا ہے۔
اگر بات کریں پاکستان کی‘ تو جہاں ہمارے معاشرے میں دیگر شعبوں میں اختلافات کے بجائے متصادم صورتحال (Bi-Polarity) نظر آتی ہے وہیں کسی نہ کسی طور Feminism کا نعرہ بھی ایک متنازع معاملہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مخالفت برائے مخالفت اور مٹھی بھر تنظیموں کی طرف سے عورتوں کے لئے ''آزادی‘‘ کے بجائے بدوضع ہیجان انگیز مظاہرے اور مطالبات نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کل آبادی کا صرف 49 فیصد ہے نہ کہ 51 فیصد۔ (یہ تصحیح فرما لیں کہ پاکستان میں خواتین 49 فیصد ہیں۔ مزید تسلی کے لئے قومی سطح پر ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار دیکھ لیں یا بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس۔ مزید یہ کہ دنیا کے تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی آبادی کا تناسب بمشکل 49 فیصد تک ہی ہے) مگر انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ قدرتی طور پر بیٹی کی اوسط عمر بیٹے کے حوالے سے تین سے چار سال زیادہ ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے بچی کی پیدائش پر زچہ و بچہ کو وہ احتیاط، خوراک اور ادویات نہیں دی جاتیں جو بیٹے کی پیدائش پر دی جاتی ہیں۔ آپ کی نظر سے یقینا ایسی خبریں بھی گزری ہوں گی کہ بیٹی کی پیدائش پر معاملہ غصے اور تشدد سے ہوتا ہوا طلاق تک جا پہنچا۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں ہر سال ہزاروں مائیں زچگی کے دوران مناسب میڈیکل سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کچھ ممالک میں تو دورانِ حمل الٹرا سائونڈ میں بیٹی کی رپورٹ آنے پر اسقاطِ حمل بھی کروا لیا جاتا ہے ۔ عورتوں کی شرحِ تعلیم آج بھی مردوں سے کم ہے، وراثت میں اپنا حق، جہیز کی لعنت اور بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد کے الفاظ سے بیشتر ترقی پذیر معاشرے محروم ہیں۔ دوسری طرف مغرب کی عورت جنسی استحصال سے بچائو اور بڑھاپے میں اپنوں کے ساتھ رہنے کیلئے کوشاں ہے۔
اب حقوقِ نسواں کی بیان کی گئی تاریخ پر دوبارہ غور کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ عورتوں کے لئے سب سے پہلے‘ مکمل حقوق کا منشور 6 مارچ، 632ء کو خطبہ حجۃ الوداع میں دیا گیا۔ مغرب والے اپنے مواد میں اس کا بالکل ذکر نہیں کرتے حالانکہ Islamic Feminism دنیا کا سب سے پرانا تصور ہے۔ اسی طرح ''جینڈر سٹڈیز‘‘ کے تھیوری کے سبجیکٹ میں بھی اس کا ذکر یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق‘ مسلمان ہونے کے ناتے‘ دیکھیں تو یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہیں لہٰذا مسلمانوں کو عورتوں کا عالمی دن محض ایک روز نہیں بلکہ 6 سے 8 مارچ تک‘ تین دن تک منانا چاہئے یا 6 مارچ کو علیحدہ طور پر کسی اور نام سے بھی منایا جا سکتا ہے کیونکہ عورتوں کے مکمل حقوق کا گلاب سب سے پہلے 6 مارچ 632ء کو عرب کے ریگزاروں میں کِھلا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں