دنیا کا ’’چھوٹا‘‘

دنیا میں جغرافیے اور سیاسی تقسیم کے حوالے صرف ایک علاقہ ایسا ہے جسے ''اعظم‘‘ ( بڑا) کے بجائے ''صغیر‘‘ ( چھوٹا ) کہتے ہیں، آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بات برصغیر یعنی جنوبی ایشیا کی ہو رہی ہے۔ براعظم کا مطلب خشکی کا بڑا ٹکڑا ہوتا ہے، پوری دنیا میں سات براعظم ہیں‘ ایشیا، افریقہ، یورپ، شمالی امریکا، جنوبی امریکا، آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا۔ (حالیہ ایک تحقیق میں یہ کہا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ جس خطے میں ہے وہ زی لینڈیا یعنی دنیا کا آٹھواں براعظم ہے؛ تاہم یہ بات ابھی مفروضوں کی حد تک ہی ہے) دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر کا کل رقبہ تقریباً 51 لاکھ مربع کلومیٹر ہے جبکہ کینیڈا، امریکا، چین، روس اور برازیل ایسے ممالک ہیں جن کا رقبہ جنوبی ایشیا کے کل رقبے سے بھی زیادہ ہے مگر ان ممالک میں سے کسی کو ''برصغیر‘‘ نہیں کہا جاتا۔ واضح رہے کہ روس کا کل رقبہ دنیا کے تین براعظموں‘ یورپ، آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا‘ سے زیادہ ہے۔
برصغیر کی کل آبادی اس وقت ایک ارب نوے کروڑ ہے جبکہ سالانہ ڈھائی کروڑ کے اضافے کے ساتھ‘ اگلے چار سال میں یہ دو ارب سے زائد ہو جائے گی۔ یہ دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ 25 فیصد ہے۔ عالمی و مقامی ماہرین کے مطابق یہ انتہائی قابلِ تشویش بات ہے کیونکہ اسی باعث اس خطے کے مسائل بھی دوچند ہوتے جا رہے ہیں۔ آلودگی اور ماحولیات سمیت کئی مسائل آبادی میں بے ہنگم اضافے کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دہلی اور لاہور عرصہ دراز سے دنیا کے گندے ترین شہروں میں سرفہرست ہیں۔ اسی طرح قدرتی ماحول کے دیگر اشاریوں‘ جیسے پانی کی قلت‘ کے اعتبار سے بھی یہ خطہ خطرناک نہج پر پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ کسی بھی علاقے کے لئے یہ حقائق کافی تشویشناک ہوتے ہیں مگر یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے محض شروع ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کے ممالک ان بنیادی مسائل کے حل کی طرف ابھی تک بڑھنا شروع بھی نہیں ہوئے بلکہ دیکھا جائے تو مسائل مزید گمبھیر اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ خطۂ برصغیر کے تنازعات میں صرف پاک بھارت کشیدگی ہی نہیں ہے بلکہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کا کوئی تنازع نہ چل رہا ہو۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ خطے کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ بھارت کا تنازع نہ ہو۔ جی ہاں! بھارت کے سرحدی و دیگر تنازعات پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھوٹان، میانمار (برما)، سری لنکا اور تو اور ہندو اکثریتی ملک نیپال کے ساتھ بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مالدیپ کے ساتھ بھی اس کا سمندری حدود کا تنازع ہے جبکہ چین کے ساتھ بھارت کی کشیدگی تقریباً تمام سرحد پر موجود ہے۔ اسی وجہ سے بھارت ایک علاقائی آکٹوپس کی صورت اختیار کر چکا ہے جو خطے کے سبھی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے بلکہ امریکا کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے بھارت افغانستان میں بھی تمام ممکنہ انداز میں ملوث ہے۔
کسی بھی علاقے میں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت کا انحصار سب سے پہلے اس خطے کی بڑی قوت یا اکائی اور اس کے بعد بین الاقوامی طاقتوں پر ہوتا ہے۔ اس خطے کی سب سے بڑی اکائی بلاشبہ بھارت ہے جبکہ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک‘ امریکا کے ایما پر چین سے برسر پیکار بھی ہے۔ آپ مودی کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش کے مقاصد دیکھ لیں۔ اس میں موصوف نے اپنی خود ساختہ کار گزاریوں کا ذکر صر ف تلخیوں میں اضافے کیلئے کیا۔مزید پس منظر جاننے کے لیے روس کے صحافی اور اعلیٰ ترین عہدے کے جاسوس Yuri Bezmenovکا وہ انٹرویو سن لیں یا اس کی کتاب پڑھ لیں جس میں وہ سقوطِ ڈھاکہ پر روس اور امریکا کے اتفاق اور ہر طرح کے تعاون اور کردار کا پردہ فاش کرتا ہے۔ اسی طرح نریندر مودی نے اپنے دورے میں دونوں ممالک کے مابین چلنے والے مسائل مثلاً بنگلہ دیش کے ساتھ دہائیوں سے پانی کی تقسیم کے معاملے، سمگلنگ اور لوگوں کی غیر قانونی نقل و حمل کا ذکر تک نہیں کیا۔ مودی کے اس دورے کی مخالفت میں بنگلہ دیش کے تمام بڑے شہروں میں سخت گیر مظاہرے ہوئے جس میں پویس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک درجن سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔
دنیا کے دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرنا یا انہیں اپنی مرضی چلانا اگرچہ تمام بڑی طاقتوں کا وتیرہ ہے مگر یہ کام وہ ممالک کرتے ہیں جو اپنے داخلی مسائل پر قابو پا کر ترقی کی منازل طے کر رہے ہوں۔ اگر آپ بھارت کے نوبیل انعام یافتہ اکانومسٹ امرتیا سین (Amartya Sen) کی کتاب پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت کے اندر تا حال 30 کروڑ سے زائد لوگوں کو بجلی میسر نہیں ہے۔ 40 فیصد سے زائد نوزائیدہ بچوں کا وزن کم ہوتا ہے اس طرح تقریباً آدھی سے زائد آبادی کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ سیاسی، مذہبی، لسانی، معاشی، معاشرتی اور دیگر تمام نوعیت کے مسائل بھارت میں پوری شدت سے موجود ہیں۔ اگر بھارت کی علیحدگی پسند تحریکوں کے حوالے سے آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو آپ کو ایک درجن بڑی اور درجنوں چھوٹی تحاریک کا ذکر ملے گا۔ کشمیر کی تحریک تو ایک علیحدہ موضوع ہے‘ بھارت کی شمال مشرقی تمام ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، تمام سرحدی علاقوں میں علیحدگی پسند متحرک ہیں جن کا الزام بھارت اپنے پڑوسیوں پر دھرتا رہتا ہے، بھارتی پنجاب میں اس وقت خالصتان تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے‘ جو 1980ء کی دہائی میں بھارت کا سب سے بڑا دردِ سر بن چکی تھی۔ کچھ ریاستوں میں ایک سے زائد تحریکیں بھی چل رہی ہے اور کچھ علاقوں میں نئی تحاریک کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم انکشاف بھارتی آرمی چیف کا ہے جس نے اس بات کا مبہم انداز میں اعتراف کیا ہے کہ بھارتی آرمی میں بے چینی اور خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔ تقریباً تین سال پہلے بھی اُس وقت کے آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں اقرار کیا تھا کہ بھارتی آرمی ڈھائی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ان ڈھائی محاذوں کی وضاحت یوں کی گئی کہ دو محاذ چین اور پاکستان جبکہ آدھا محاذ اندرونی علیحدگی کی تحریکیں ہیں۔ گزشتہ برس چین کے ساتھ تنازعات کے بعد سے شروع ہونے والی نیپال بھارت کشیدگی پر کوئی بات نہیں کرتا مگر حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف بھارتی علاقوں کو پہلے متنازع اور پھر نیپالی پارلیمنٹ سے نیا نقشہ منظور کروا کر نیپال جیسے چھوٹے سے ملک نے بھی بھارت کی کھوکھلی ساکھ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اس کے بعد بھوٹان نے بھارت کا پانی روک کر ایک نیا تنازع پیدا کر دیا، اسی طرح بنگلہ دیش چین سے ملنے والی تجارتی مراعات کے بعد واضح طور پر چین کی جانب جھکتا چلا جا رہا ہے۔
ابتدا میں ذکر ہوا برصغیر کی اصطلاح کا‘ تو صغیر کا مطلب چھوٹا ہوتا ہے۔ اگر اسی اصطلاح کو لے کر آگے چلیں تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بھارت نے ستر سال سے زائد عرصے کی تاریخ میں اپنے ملک کے برہمنوں کی حکمرانی (بھارت کی تاریخ میں 52 سال برہمن وزیراعظموں نے حکمرانی کی ہے) میں دیگر ذات کے ہندوئوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو چھوٹا بنا کر رکھا ہے جبکہ علاقائی ممالک کو چھوٹا بنا کر رکھنے کی ہیجان انگیز جنگی کوششوں میں وہ کچھ اس طرح مگن اور ملوث رہا ہے کہ اندازہ ہی نہیں کر سکا کہ اب بذاتِ خود وہ ایک بین الاقوامی ''چھوٹا‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھارت مغربی طاقتوں کے ایما پر چین سے برسر پیکار ہو کر ففتھ جنریشن وار فیئر میں شطرنج کے ایک پیادے یعنی چھوٹے کا کردار نبھانے کی بھینٹ چڑھ رہا ہے حالانکہ امریکا کی تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ وہ اپنا چھوٹا بدلنے یا کسی چھوٹے سے آنکھیں پھیرنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں لگاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں