انسان کو اپنی صحت بہتر رکھنے اور مختلف بیماریوں سے بچنے کے لئے کون سے وٹامن لینے چاہئیں اور کون سی غذا کھانی چاہئے‘ اس کا ذکر اور ادراک اس سے پہلے کبھی بھی اتنا نہ تھا جتنا کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد سے ہو رہا ہے۔ کورونا کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں ایک محشر برپا کر رکھا ہے‘ وہیں صحت سے متعلق کوئی بھی نئی بات مہینوں کا سفر ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے لمحوں میں طے کر کے لوگوں تک نہ صرف پہنچتی ہے بلکہ لوگ اس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذکر اس خوراک کا ہوتا ہے جس سے جسم میں قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہو یا اس میں اضافہ ہو سکتا ہو۔ اب لوگ بخوبی آگاہ ہیں کہ وٹامن ڈی اور وٹامن سی کن ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تاحال‘ ویکسین کے علاوہ‘ یہ دونوں وٹامن ہی انسان کے بس میں ہیں جن سے اس وبائی مرض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بیماریوں سے نجات کے لیے دوائیوں کا استعما ل اچھی بات نہیں کیونکہ صحت کے زیادہ تر مسائل دوائیوں کے بجائے خوراک کی مدد سے حل ہو سکتے ہیں، لیکن چونکہ دوائیوں کی فروخت دنیا کا ایک بہت بڑا نفع بخش کاروبار ہے اس لئے علاج بالغذا (Food Therapy) کی زیادہ پذیرائی نہیں کی جاتی۔ چین میں 1972ء سے 1975ء تک سرکاری نگرانی میں ہونے والی ریسرچ کی بنیاد پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اگر ہم پودوں سے حاصل ہونے والی غذا یعنی سبزیاں، پھل اور سلاد زیادہ کھائیں تو بہت ساری بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق The China Study کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اسی سلسلے کی ایک اور تحقیق بہت سادہ مگر نہایت اہم ہے۔ آپ نے سن رکھا ہو گا کہ ''اپنا دماغ ٹھنڈا اور اپنے پائوں گرم رکھیں‘‘ اس سے آپ صحت مند رہیں گے اور لمبی زندگی پائیں گے۔ یہ فقرہ ہالینڈ کے ایک مشہور ڈاکٹرHerman سے منسوب کیا جاتا ہے‘ جن کا انتقال 1738ء میں ہوا تھا۔ وہ ایک طبیب، ماہر کیمسٹری اور جڑی بوٹیوں کے تحقیق دان تھے۔ ان کی شہرت یورپ سے لے کر ایشیا تک تھی۔ وہ اس فقرے کا بہت پرچار کیا کرتے تھے۔ اس فقرے کی مزید کھوج لگا ئی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے چین کے ایک Bian Que نامی طبیب نے آج سے تقریباً 2300 سال پہلے (310 قبل مسیح) میں یہ بات بتائی تھی۔ اس نے یہ فقرہ ایک نسخے کے طور پر لوگوں کو بتایا تھا۔ یہ طبیب خوراک کے ڈاکٹر (Diety Doctor) کے نام سے مشہور تھا جسے ہم علاج بالغذاکہتے ہیں۔ اب آتے ہیں اس نسخے کی تفصیل کے متعلق، تو یہ فقرہ مکمل کچھ یوں ہے کہ:
Keep the Head cool, the Feet warm, and the Stomach open.
مطلب اپنا دماغ ٹھنڈا، پائوں گرم اور معدہ خالی رکھیں‘ اس سے آپ بیماریوں سے بچے رہیں گے اور لمبی زندگی پائیں گے۔ دماغ ٹھنڈا رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ غیر ضروری اور منفی سوچوں سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس طرح سے کی گئی ہے کہ لالچ، غصہ، ناراضی، غرور اور دکھاوے وغیرہ کی سوچوں کو ختم کریں۔ بدلے کی آگ میں جلنے کے بجائے اپنی زندگی میں مسابقت کی سوچوں کو بڑھائیں کیونکہ بدلے کی لڑائی میں آپ صرف دوسروں کا نقصان کرکے اسے شکست دے سکتے ہیں مگر مسابقت کی سوچ کو اپناتے ہوئے آپ اتنے مضبوط اور ترقی یافتہ ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کو فتح کر لیتے ہیں۔ مزید کہا جاتا ہے کہ اگر آپ آسانیاں چاہتے ہیں تو کسی کی مالی حیثیت اور منصب سے متاثر نہ ہوں۔ اگر آپ مزید آسانیاں چاہتے ہیں تو دوسروں کو متاثرکرنے کی کوشش نہ کریں اور اگر آپ صاحبِ حیثیت ہیں تو یاد رکھیں کہ دماغ کو اطمینان، دولت جمع کرنے کے بجائے تقسیم کرنے سے ملتا ہے لہٰذا گر متاثر ہونا ہے تو عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات سے ہوں۔
آج کل لوگوں میں وبا سے بیماری کے ساتھ جو دوسری بڑی مشکل پیدا ہو رہی ہے وہ ذہنی اضطراب اور ہیجان ہے۔ اس کی بڑی وجہ لوگوں کا یہ موقف ہے کہ ان کو کاروبار وغیرہ میں خسارہ یعنی مالی نقصان ہو رہا ہے، حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کاروباری فائدے سے زیادہ اہم چیز ان کی زندگی ہے۔ اگر جان بچی رہے گی تو مال دوبارہ بھی کمایا جا سکتا ہے، اس لئے زیادہ غمناک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی زندگی خوشی اور غم کا مجموعہ ہے جو دو انتہائیں ہیں اور انتہا جو بھی ہو‘ عارضی ہوتی ہے جبکہ اطمینان ایک مستقل رویہ ہے اور اطمینان‘ خوشی اور غم میں میزان یعنی توازن کا نام ہے۔ اس لئے بہت زیادہ اور تیز سوچنے کے بجائے ذہن یا دماغ کو بھی تھوڑی راحت دیں۔
مذکورہ نسخے کا دوسرا حصہ پائوں گرم رکھنا ہے، اس سے مراد ہے کہ آپ جسمانی بھاگ دوڑ کریں یہاں تک کہ آپ کو خوب پسینہ آئے۔ پسینہ بہنے سے جسم کی فالتو رطوبتیں خارج ہوتی ہیں۔ بھاگ دوڑ سے خون کی گردش تیز ہوتی ہے‘ ہڈیا ں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ آج کی جدید سائنس اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر آپ دفتر وغیرہ میں بیٹھ کر کا م کاج کرتے ہیں تو آپ کو روزانہ کم از کم 20 منٹ کی ورزش بہر طور کرنی چاہئے، بصورت دیگر آپ کے جسم کو بہت سارے عارضے لاحق ہونے کا خدشہ رہے گا جیسے موٹاپا، شوگر اور بلڈ پریشر وغیرہ۔ آپ شوگر کی ہی مثال لے لیں کہ بھاگ دوڑ، کام کا ج کرنے والے لوگوں کو یہ عارضہ 60 سے 70 فیصد کم لاحق ہوتا ہے، مزدوری کرنے والے اور کھیتی باڑی کرنے والے افراد میں اس بیماری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہاں پر یہ حوالہ دینا بھی بہت ضروری ہے کہ جب برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کیا تو وہ یہ جان کر پریشان حد تک حیران ہوا کہ برصغیر میں سو سال سے زیادہ عمرکے لوگ بھرپور زندگی بسر کر رہے تھے۔ برطانیہ کی اس حیرانی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھا اور میڈیکل سائنس میں دنیا بھر میں سب سے آگے۔ انہوں نے برصغیر پر جو لمبی عمر کے راز پر تحقیق کی تو یہ نتیجہ سامنے آ یا کہ برصغیر کے لوگ جسمانی مشقت یعنی کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کی خوراک انتہائی سادہ مگر خالص ہے۔ آپ آج بھی اپنا موازنہ اپنے بزرگوں سے کر کے دیکھ لیں۔ ان میں ہڈیوں یا جوڑوں وغیرہ کے مسائل عمر کے ایک مخصوص حصے میں جا کر شروع ہوتے ہیں جبکہ ہمارے دور کے اکثر و بیشتر افراد ان کی نسبت آدھی عمر میں ہی ان مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اب آتے ہیں اس نسخے کے تیسرے اور آخری پہلوکی طرف جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ اپنا معدہ خالی رکھیں، یعنی کبھی بسیار خوری کا شکار نہ ہوں حتیٰ کہ پیٹ بھر کر بھی نہ کھائیں اور جب بھی کھائیں تھوڑی بھوک رکھ کر کھائیں۔ یہی درس ہمیں ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔
لہٰذا نچوڑ یہ ہے کہ اپنا دماغ ٹھنڈا یعنی اپنی سوچوں کو محدود اور مثبت رکھیں۔ جسمانی مشقت اور بھاگ دوڑ کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں اور کھانا ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں اور صرف سادہ غذا کھائیں۔ اس علاج کو علاج بالوجہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ ان چیزوں پر عمل نہیں کریں گے تو ادویات آپ کی غذا کا حصہ بن جائیں گی اور ادویا ت کے علاج سے طریقہ علاج کو علاج بالضد کہا جاتا ہے، یعنی جسم میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے، ادویات سے اس سے ضد کا کام لیا جاتا ہے اور ضد کسی بھی صورت اچھی بات نہیں ہوتی۔ تندرستی کا راز اس میں ہے کہ اصل خرابی، بیماری کی اصل جڑ کو ختم کیا جائے اور یہ ادویات سے نہیں محض غذا اور لائف سٹائل میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔