گزشتہ دو کالموں میں دو ایسی مسند تحقیقات کا ذکر ہوا جن میں صحت سے متعلق اور ادویات کے بغیر علاج اور بیماریوں سے دور رہنے کے راز بتائے گئے تھے۔ راقم نے اس حوالے سے تین سال پہلے لکھے گئے اپنے کچھ کالموں کو جدید تناظر، یعنی وبا کے تناظر میں دوبارہ لکھا تاکہ قارئین صرف مال و دولت کے بجائے اپنی صحت کی دیکھ بھال بہتر انداز سے کرنے کی طرف بھی مائل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں The China Study نام کی کتاب کا ذکر بھی ہوا جس میں چین میں ہونے والی عالمی سطح کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ غذا کو جتنا قدرتی حالت میں کھایا جائے‘ یہ اتنا ہی جسم کو مضبوط اور بیماریوں سے محفوظ بناتی ہے۔چونکہ اس تحقیق کا تعلق دنیا کی دوسری بڑی طاقت‘ جو آنے والے چند سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گی‘ یعنی چین سے ہے‘ اس لیے اس کی ترقی کے راز کے سلسلے میں یہ ذکر بھی ہوا کہ ہمارے ملک کی طرح وہاں بھی ملکی سطح کی بیماریوں کی دیوی یعنی کرپشن قومی مزاج کا حصہ تھی۔ اس کے لئے بڑی یا قومی سطح کے کرپشن کے کیسز میں موت کی سزا دینے کے بعد سے اس موذی مرض میں افاقہ ہوا ہے۔
اگر Pakistan Study کے نام سے اپنے ملک میں کرپشن نام کی بیماری کا سروے یا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ لفظ کرپشن یا کرپشن ڈکشنری سے متعلق جو Glossary یعنی کرپشن کی اقسام پوری دنیا میں موجود ہیں‘ وہ تمام کی تمام ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں۔ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں نچلے ملازموں سے لے کر اعلیٰ حکام تک‘ مالی کرپشن اقربا پروری اور دیگر تمام اشکال اور تمام سطحات پر موجود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں سے لے کر اہم ترین محکموں میں‘ افراد کی بھرتی میں استعداد اور میرٹ سے زیادہ ان کے نظریات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ یہ امیدوار کا تعلق کس سکول آف تھاٹ سے ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، اب تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے خالص چیز میں ملاوٹ کی جگہ مصنوعی اشیا نے لے لی ہے جیسے پیکٹوں میں بکنے والا دودھ‘ جو چکنائی اور دودھ کا مصنوعی ذائقہ ڈال کر تیار ہو رہا ہے۔ چونکہ ملک کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے (اور سالانہ پچاس لاکھ کی اوسط سے اب بھی اضافہ ہو رہا ہے) کہ لوگوں کو خالص دودھ میسر نہیں ہے‘ اس لئے وہ اس مصنوعی دودھ پینے پر مجبور ہیں۔ کچھ اسی طرح کی حالت جوسز اور دیگر میٹھے مشروبات کی بھی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ پینے کا صاف پانی‘ جو بوتلوں میں بک رہا ہے‘ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق‘ وہ بھی مکمل محفوظ نہیں ہے۔
حکومت کے موجودہ سربراہ کو کرکٹ کا عالمی کھلاڑی ہونے کے ناتے کپتان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جس وقت وہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے‘ پاکستان کی ٹیم کا دنیا میں مقام زیادہ بلند نہ تھا مگر انہوں نے کامیابیوں کے بلند ترین جھنڈے گاڑے جس میں سب سے بڑا کام پاکستان کو دنیائے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنانا تھا۔ اس وقت کپتان کی گرفت اور اختیارات کا یہ عالم تھا کہ ٹیم کی سلیکشن بھی انہی کی مرضی کی ہوتی تھی‘ یعنی سلیکشن بورڈ رسمی ہوتا تھا۔ ٹیم کے کھلاڑی کپتان کی عزت کرنے کے ساتھ ان سے ڈرتے بھی بہت تھے‘ یہاں تک کہ خوراک، لباس، جسمانی آئوٹ لُک اور فتح کا جشن منانے کے طریقے میں بھی کپتان کی حکم نما رہنمائی چلتی تھی۔ رمیز راجہ اکثر کمنٹری کرتے ہوئے ان پرانی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں کرکٹ اور سیاست کا بہت گہرا تعلق ہے۔ سیاسی تنائو اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت نے عرصہ دراز سے پاکستان کے ساتھ کوئی کرکٹ سیریز نہیں کھیلی۔ بھارت اپنے ملک میں ہونے والی کرکٹ لیگ‘ آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو نہیں مدعو کرتا۔ اب یہ تعصبانہ سلسلہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرف بھی بڑھا دیا گیا ہے ۔2021ء میں ہونے والی سیریز میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کا صرف ایک‘ ایک کھلاڑی شامل تھا۔ اسی طرح بھارتی کھلاڑی بنگلہ دیش میں ہونے والے بی پی ایل اور سری لنکا میں ہونے والے لیگ میچز میں شرکت نہیں کرتے۔ ایک بڑی مارکیٹ اور بڑا ملک ہونے کے سبب کئی سالوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ جب بھی بھارت میں آئی پی ایل ٹورنامنٹ کھیلا جا رہا ہوتا تھا تو دنیا میں کوئی بھی بڑی کرکٹ سیریز نہیں کروائی جاتی تھی۔ اس سال یہ اجارہ داری سری لنکا نے بنگلہ دیش کے ساتھ میچ کھیل کر جبکہ پاکستان نے پہلے جنوبی افریقہ اور بعد میں زمبابوے کے ساتھ سیریز کھیل کر کافی حد تک ختم کر دی ہے۔ یہ بات یہاں واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کے کئی بڑے اور معتبر نام پاکستان کے ساتھ کھیلی جانے والی سیریز ادھوری چھوڑ کر بھارت میں آئی پی ایل کھیلنے چلے گئے تھے۔ اسی ضمن میں ایک انتہائی اہم بات 2011ء کا ورلڈ کپ ہے جو بھارت نے جیتا تھا۔ اس ورلڈکپ میں فائنل سے قبل ہی یہ شور برپا ہو گیا تھا کہ یہ ورلڈکپ فکس ہے۔ اس خیال کو تقویت گزشتہ سال سری لنکا کے وزیر کھیل کے ایک بیان سے ملی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں ایک بیان دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بلاوجہ سست بیٹنگ کرنے پر سری لنکا کے کچھ بیٹسمینوں سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اسی حوالے سے کچھ ماہرین بڑی باریک بینی سے غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئی پی ایل میں سری لنکا کے کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے کے باوجود 2011ء میں انڈیا کے ساتھ ''دوستانہ‘‘ کھیل کھیلنے والے بیٹسمینوں کو کوچ کے طور پر ضرور بلایا جاتا ہے بلکہ اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے کیونکہ اس سیریز میں بطور کوچ آنے کا بھی بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ کرکٹ اور سیاست کے حوالے سے سب سے پہلا اور معروف حوالہ ابھی تک کیوں نہیں دیا گیا۔ یہ حوالہ ہے ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کا‘ جس کے تحت موصوف صدر نے بن بلائے فروری 1987ء میں بھارت کا اس وقت دورہ کیا جب پاکستانی ٹیم وہاں ٹیسٹ سیریز کھیل رہی تھی جبکہ دوسری طرف سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس لئے اس دورے کے ذریعے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو خبردار کیا گیا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان‘ جو ایٹم بم بنا چکا ہے‘ اس کا ٹیسٹ انڈیا پر بم چلا کر ہی کرے گا۔ یہاں یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ مذکورہ ٹیم کی سربراہی ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان کر رہے تھے۔ ضیاء دور کے ایک اہم حکومتی عہدیدار نے‘ ضیاء دور ختم ہونے کے بعد انکشاف کیا تھا کہ عوام کا دھیان مارشل لا سے ہٹانے کے لئے‘ کرکٹ ٹیم کو لمبی لمبی سیریز میں مصروف رکھے جانے کی پالیسی اپنائی جاتی تھی۔
اب واپس آتے ہیں ملک کے کپتان وزیراعظم کی طرف، جن کی الیکشن مہم سے لے کر آج تک کے بیانات میں کرپشن کا خاتمہ کرنے کا عزم سب سے نمایاں نکتہ ہے، مگر ایک بات ذہن میں ضرور آتی ہے کہ کرکٹ میں ایک بارہواں کھلاڑی بھی ہوتا ہے جو صرف کچھ دیر کیلئے یا اگر کوئی کھلاڑی زخمی ہو جائے تو پورے میچ میں صرف فیلڈنگ کرنے ہی آتا ہے۔ اس کھلاڑی کا کردار زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی چوکا روک لے گا یا کوئی اچھا کیچ کر لے گا؛ چونکہ وہ صرف فیلڈنگ کرتا ہے لہٰذا وہ کوئی میچ وننگ کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔ اگر کوئی چھکے والی شاٹ اس کی طرف آ جائے تو وہ اس کو روک بھی نہیں سکتا بلکہ گیند کو بائونڈری سے باہر جاتے ہوئے ہی دیکھ سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی طرح کرپشن کے سنگل، ڈبل یا چوکے بہت کم، جبکہ زیادہ تر چھکے ہی لگ رہے ہیں اور حکومت بارہویں کھلاڑی کی طرح گیند کو بائونڈری سے پار جاتا دیکھ رہی ہے اور کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔