ادب، آفاق اور درخت

ادب کی دنیا میں ایک مصدقہ اور مستند حقیقت کچھ اس طرح تسلیم کی جاتی اور بیان کی جاتی ہے کہ بعض اوقات صرف ایک شعر ایسی بات بلکہ دیتا بلکہ ایسا فلسفہ بیان کر دیتا ہے جو شاید ایک پوری کتاب بھی بیان نہ کر پاتی ہو۔ تھوڑا غور کریں تو مزید انکشاف یہ ہوتا ہے کہ شعر میں کہی جانے والی بات کو کتاب پر فوقیت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ شعر مختصر ترین وقت میں دلچسپ اور خوبصورت الفاظ میں جو فلسفہ سمجھا اور سکھا جاتا ہے اس کو بار ہا پڑھا، دہرایا بلکہ گایا بھی جا سکتا ہے۔ میری دانست میں نثر ی تحریروں کے بجائے شاعرانہ کلام انقلابات کو جنم دینے کا زیادہ باعث بنتا ہے۔
مجلس ترقیٔ ادب ایک ایسا بڑا اور منظم ادارہ ہے جو سرکاری سرپرستی میں چل رہا ہے‘ حال ہی میں ایک معروف صاحبِ دیوان شاعر کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تو ایک نئی پُرجوش لہر پیدا ہوئی۔ جناب منصور آفاق کا نام اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آج کی یہ تحریر ان کے مداح لکھاریوں اور ادیبوں کے پرمغز افکار کا نچوڑ ہے۔ بات شاعری کی ہو رہی تھی‘ مجلس ترقیٔ ادب کے گروپ کے ممبران نے ترقیاتی ادب کے تحت آج کی دنیا کے سب سے اہم مسئلے یعنی قدرتی ماحول کی بقا کی علامت درختوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے جو کچھ کہا ہے اس میں ایک شعر اس طرح سے ہے کہ ؎
بس اسی بات پہ جھگڑا ہے دنیا سے
پیڑ کے سایے کو پھل کیوں نہیں سمجھا جاتا
اس شعر کے مفہوم کے سمندر میں جائیں تو زمان و مکاں کے لحاظ سے بہت زیادہ گہرائی ملتی ہے۔ شاعر نے کتنا سنگین مگر حسین اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ درخت کے سایے کو پھل کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ اسی حوالے سے مجھے ایک اور خیال بھی آتا ہے کہ درخت کے سایے کو صرف چھائوں کہنا چاہیے کیونکہ ہر سایہ ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اگر آپ دیوار کے سائے میں پناہ یعنی ٹھنڈک ڈھونڈیں تو آپ کو دھوپ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر فرق محسوس ہو گا۔ یہ صرف درخت ہی ہیں جن کا سایہ نہیں بلکہ چھائوں ہوتی ہے۔ سائنس ثابت کرتی ہے کہ کھلی دھوپ کے مقابلے میں درخت کی چھائوں میں درجہ حرارت کا فرق 33 فیصد سے زائد ہوتا ہے، یعنی اگر دھوپ میں باقی جگہ کا درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گا تو درخت کی چھائوں میں درجہ حرارت 32 ڈگری سے زیادہ نہیں ہو گا۔ یہ واضح فرق بیان کرتا ہے کہ درخت کا صرف سایہ نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ کو چھائوں فراہم کرتا ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہو تی کیونکہ ہم جو سانس لیتے ہیں‘ وہ آکسیجن بھی یہ درخت ہی پیدا کرتے ہیں۔ میں اس شعر میں پھل کے ذکر کو آکسیجن کی طرف بھی موڑنا چاہتا ہوں کہ درخت اگر کوئی پھل نہیں فراہم کرتا تو بھی وہ چھائوں اور آکسیجن فراہم کر رہا ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے مفکروں، لیڈروں اور دانشوروں کو آج تک انسان کے لیے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے سنا ہے مگر آج کے دور میں پانی اور صاف ہوا کی ضرورت فوقیت لے چکی ہے۔ اس بات کو کچھ اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان خوراک کے بغیر ایک ہفتہ اور پانی کے بغیر تین دن تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر سانس لینے کے لئے ہوا دستیاب نہ ہو تو زندگی چند منٹوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ اب ادبی نہیں بلکہ حقیقی تنقید کی جائے تو بات اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ اگر پھل کے درجے کی بات کی جائے تو دیکھنا پڑے گا عام زندگی میں‘ بقول مجلس ترقی ادب کے ایک ادیب کے جس نے ایک انعام یافتہ فقرے میں عوام الناس کو ''عام الناس‘‘ لکھا ہے‘ عام الناس کو تو محض دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے تو وہ پھل کہاں سے کھائیں گے جبکہ دوسری طرف درخت تو ہر کسی کو کسی کا رنگ، مذہب، نسل، ذات، پات یا کوئی اور درجہ پوچھے بغیر چھائوں اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے اب بحث اس بات سے ہو گی کہ درخت کی چھائوں اور آکسیجن کو کیا نام دیا جائے؟ یعنی درخت تو حیات بخش یا جان فزا ہیں۔
ماضی قدیم میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے کہ یونان میں ان کے عقیدے کے مطابق بہت سارے دیوتا اور دیویاں تھے۔ ہوائوں کے دیوتا Aeolus کو Aeolian یا Eolian کہا جاتا تھا مگر یہ وہ ہوائیں تھیں جو زور سے چلتی ہیں،یعنی Winds۔ ان میںAir جو ساکن حالت میں بھی پائی جاتی ہے‘ کا ذکر نہیں ہو رہا۔ اہلِ یونان کا دور تین ہزار سال پرانا ہے جب پانی یا ہوا کے نہ ہونے کا تصور تو درکنار‘ ان کے آلودہ ہونے تک کا بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا جبکہ پوری دنیا کی آبادی محض چند کروڑ تھی اور قدرتی ماحول مکمل صحت مند یعنی صاف ستھرا تھا۔ شاید اسی لئے اہلِ یونان کے ہاں کسی کو درختوں کا دیوی دیوتا نہیں مانا گیا‘ البتہ یہ تصور ان کے ہاں ملتا ہے کہ انسانی روحیں درختوں پر قیام کرتی ہیں‘ کسی حد تک یہ تصور ہمارے آج کے برصغیر معاشرے میں بھی ملتا ہے۔
واپس آتے ہیں زمانۂ حال کی طرف کہ جہاں گھر کے سربراہ کو اکثر درخت سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ گھر کا سربراہ تیز اور جھلسا دینے والی دھوپ‘ گرمی‘ سردی‘ طوفان اور آندھی خود برداشت کر کے چھائوں اور پھل اپنے اہلِ خانہ کو فراہم کرتا ہے۔ عمومی طور پر سربراہ کے ذمے زندگی کا سب سے مشکل شعبہ معیشت یعنی رزق کمانا ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے کافی کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ البتہ ایک شاعر نے کتنا نادر قسم کا شعر کہا ہے کہ؎
دعائے خیر مانگی تم نے یا صدقہ دیا ہے؟
کبھی پیڑوں کو گھر کے فرد کا درجہ دیا ہے؟
اب بظاہر اس شعر میں بھی بہت بڑا فلسفہ بیان ہوا ہے مگر اس نادر شعر پر بھی کچھ مزید بھی کہا جا سکتا ہے۔ بات کچھ اس طرح سے ہے کہ عمومی طور پرگائوں کے گھروں کے صحن میں‘ جہاں محفل سجائی جاتی ہے اور جسے ڈیرہ کہتے ہیں‘ ایک درخت ضرور لگا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اسی درخت کے سہارے گرمی کی تپش کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بات صرف تپش کاٹنے کی نہیں‘ لوگ سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی اسی درخت کی ٹہنیوں اور گرے ہوئے پتوں کو جلا کر گزارہ کرتے ہیں۔ گویا درخت صرف گرمی کی آگ ہی کو بجھانے میں مدد نہیں دیتا بلکہ سردی کی شدت سے بھی بچاتا ہے حتیٰ کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے جو روٹی پکائی جاتی ہے‘ اس کا چولہا جلانے کیلئے درخت کی باقیات ہی کام آتی ہیں لیکن اپنا چولہا گرم رکھنے کے لیے درخت کو ہی کاٹ دینا کہیں سے بھی عقل مندی نہیں ہے کہ ہمارا بھی پھر وہی حال ہو کہ ؎
تمام پیڑ جلا کے خود اپنے ہاتھوں سے
عجیب شخص ہے سایہ تلاش کرتا ہے
اسی طرح کا ایک اور شعر بھی یاد آ رہا ہے کہ
جب راستے میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
آج کا انسان جس تیزی سے درختوں کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کر رہا ہے‘ اگر اس کا تدارک اور روک تھام نہ ہوا تو بہت جلد مذکورہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ درختوں سے متعلق مذکورہ اشعار بلکہ فلسفے کا مزید گہرائی میں جا کر جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ پیڑوں یا درختوں کی قدر و منزلت اس سے کہیں زیادہ بلند ہے اور اب یہ بات ثابت ہو چلی ہے کہ درخت کی چھائوں کو سایہ نہیں کہنا چاہیے اور یہ بھی کہ صاف ہوا‘ پھل اور چھائوں فراہم کرنے کا اس کا عمل اگر قدیم زمانے کے لوگوں پر عیاں ہوتا تو یقینا ذریعہ و بقائے حیات کی وجہ سے درختوں کو بھی ضرور دیوتا کا درجہ دیا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں