ایشیا سے نفرت روک دو

گزشتہ اتوار کے کالم میں ایک ایسی اہم خبر کا ذکر ہوا تھا جس کا زیادہ چرچا نہیں ہو ا مگر خبر بہت اہم تھی کہ مس سنگاپور کا اعزاز جیتنے والی حسینہ نے عالمی مقابلۂ حسن میں اپنے لباس پر لکھوایا ہوا تھا کہ Stop Asian Hate۔ اس نعرے کا بنیادی مقصدامریکہ میں ایشیائی باشندوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے انہیں روکنے پر زور دینا تھا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں کورونا کی وبا کے دوران ایشیائی باشندوں پر تشدد کے واقعات میں متعدد ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ان پر تشدد واقعات کو روکنے کے سلسلے میں حال ہی میں امریکہ میں قانون سازی بھی ہوئی ہے جس پر امریکی صدر نے 21مئی کو دستخط بھی کر دیے ہیں ۔اس بل کو'' کووڈ 19 ہیٹ کرائمز ایکٹ ‘‘کانام دیا گیا ہے۔بل ایوان نمائندگان سے 62 کے مقابلے میں 364 ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوا تھا جبکہ سینیٹ میں اس کی منظوری کا تناسب 94 کی حمایت کے مقابلے میں ایک ووٹ کی مخالفت پر مبنی رہا۔اس موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ایشیائی امریکیوں سے بد سلوکی غیر امریکی رویہ ہے‘ بل کے تحت ایشیائی امریکیوں کے خلاف بدسلوکی کاسدباب کیاجائے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حوالے سے خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ نفرت اور تعصب کو روکنے کیلئے پرعزم ہیں۔ بقول اُن کے امریکا میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی بل منظور کرنے پر اراکین ِکانگریس کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی قوم نے نفرتوں سے نمٹنے کیلئے آج عملی اقدامات کئے ہیں۔
اب دوبارہ مس سنگا پورکے اُس مطالبہ نما نعرے پر غور کریں تو آپ کو ادراک ہو گا کی اُس نے ایک ایسی عالمی متعصب اور سازشی سوچ کو بے نقاب کیا جو دہائیوں نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہے۔آپ اس کو colonizationسے بھی شروع کر سکتے ہیں‘ بصورت دیگر پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے سے بھی پہچان سکتے ہیں ۔اگر آپ اپنے خطے کی بات کریں تو مغربی طاقتوں نے آزادی کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے کچھ ایسی بھیانک بنیادیں رکھ دیں کہ آج تک تنازعات حل نہیں ہوسکے جبکہ بھارت کے اندر درجن بھر ایسی آزادی کی تحریکوں کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ایشیا کی بد قسمتی اور آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اس سب سے بڑے بر اعظم کے متعلق مغربی طاقتوں کی منفی سوچ کو سمجھنے کے لیے آپ کو عالمی نقشے پر ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان جاری تنازعات کو دیکھنا پڑے گا ۔چلئے دیکھتے اور گنتے ہیں۔
سب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ جہاں فلسطین‘شام‘ یمن‘عراق‘ایران سعودی عرب کی کشمکش اورکویت پر عراق کا قبضہ (جو ثابت ہوا تھا کہ صدام نے امریکہ کے کہنے پر کیا تھا) ۔دوسری جانب افغانستان کی جنگ اور اس پر بیس سالوں سے جاری امریکی قبضہ‘آرمینیا اور آذربائیجان کا تنازع‘ مسئلہ کشمیر اور دیگر علاقائی مسائل پر بھارت کے اپنے پڑوسی ملکوں سے تنازعات ۔ وسط ایشیاکی ریاستوں میں امریکہ کی فوجوں کے قیام کی حالیہ خبریں ۔ ترکی کے متعلق مغربی ممالک کا سخت گیر رویہ(سب سے بڑھ کر تمام کوششوں کے باوجود ترکی کو یورپی یونین کا رکن نہ ماننا)۔شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جاری 75 سالہ تنازع۔ روس کے ملحقہ علاقوں میں گاہے گاہے چھیڑ چھاڑ اورتائیوان کا مسئلہ۔ یہ ہیں دنیا کے بڑے تنازعات جو صرف ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان کا حساب اعدادوشمار سے کرنا چاہیں تو یہ دنیا کے تمام بڑے جھگڑوں کا 80 فیصد سے زیادہ بنتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ یہ ممالک اپنے جھگڑے ختم کر لیں تو آپ کو خیال رکھنا ہو گا کہ دنیا میں معاملات یا دنیا کی ترتیب (world order) ممالک کی اندرونی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہے ۔ دنیا کی ماضی قریب یا حالیہ تاریخ میں دو ایسے ممالک آزاد ہوئے ہیں جہاں فیصلہ ریفرنڈم سے ہوا تھا ‘ایک مشرقی تیمور اور دوسرا جنوبی سوڈان ۔ہردوممالک میں مطالبہ کرنے والے عیسائی مذہب سے تھے اور انہوں نے علیحدگی کا مطالبہ مسلمان حکومتوں سے کیا تھا ‘جو بلا حیل و حجت اور تقریباًفوراً قبول کر لیا گیا ۔ آج کے موضوع کے اعتبار سے اگر سوال کسی مغربی طرفداری رکھنے والے مفکر سے کیا جائے تو وہ ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ انہوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کی تھی‘تو اس کا جواب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ چونکہ بوسنیا یورپ میں ہے تو عالمی طاقتیں کبھی بھی نہیں چاہتی تھیں کہ مغربی دنیا کے اس علاقے میں کسی قسم کی جنگی کیفیت پیدا ہو‘جبکہ دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کے لوگ پون صدی سے ہر طرح کا ظلم وجبر برداشت کرنے کے باوجود تا حال آزادی تو درکنار صرف جان ومال کی کم ترین درجے کی سلامتی کی یقین دہانی بھی حاصل نہیں کر پائے۔مغربی دنیا میں ایک فقرہ بڑے یقین کے ساتھ دہرایا جاتا ہے کہ East is east, and west is west, and never the twain shall meet ۔اسی تناطر میں یہ بات ذہن میں رہے کہ یورپ اور امریکہ میں ایشیائی لوگوں ہی سے امتیاز نہیں برتا جاتا بلکہ کالی رنگت کے لوگوں کے لیے Colouredsکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد امریکہ کی روس کے ساتھ سردجنگ کی وجہ روس کا بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہونا بھی تھا۔ اگرچہ روس کا ایک عزم یہ تھا کہ کمیونزم کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا‘لیکن حالیہ دنیا میں چین ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھر چکا ہے بلکہ اب دنیا کی پہلے نمبر کی عالمی طاقت بننے کے قریب ہے ۔روس کے برعکس چین نہ صرف کمیونزم کو پھیلانے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ چین اپنے ملک کی حد تک بھی اشتراکیت چھوڑ چکا ہے ‘مگر امریکہ ہر ممکن طریقے سے چین کے ساتھ الجھائو کی پالیسی رکھتا ہے جس کی ایک بنیادی وجہ چین کا ایشیائی ملک ہونا ہے۔
پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ چین واضح طور پر ایشیاکے خطے کو معاشی طور پر اٹھانا چاہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہstrategic ہے ‘مطلب یہ کہ کوئی بھی بڑی طاقت اپنے ارد گرد کے ممالک میں افراتفری کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ صورتحال کبھی بھی اُس ملک کی طرف بھی رخ کر سکتی ہے۔اسی طرح کسی بھی بڑی طاقت کو تجارت اوردیگر امور میںعالمی سطح پر اپنے ہمنوا گروپ اور یونین کی ضرورت ہوتی ہے‘یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین کی سرحد 14ممالک سے ملتی ہے اور اگر ان ممالک میں صورت حال بہتر نہیں ہوگی تو چین خود کو محفوظ محسوس نہیںکر سکے گا۔ اسی تناظر میں انڈیا کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات سب سے اہم مگر کشیدہ ہیں‘جبکہ امریکہ اور اسرائیل بھارت کو ایک احمق کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو انڈیا چین کے لیے سب سے اہم ملک ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور تین سے چار برسوں میں پہلے نمبر پر آجائے گا۔عالمی طاقتیں کبھی بھی معاشی طور پر ابھرنے میں بھارت کی مدد نہیں کرتیں اور نہ وہ کریں گے۔اگر مدد کرتی ہیں تو صرف اس حد تک کہ بھارت چین سے الجھا رہے اور کبھی بھی اس کے معاملات چین کے ساتھ نارمل نہ ہوسکیں۔
اب یہ بات ایشیا کے لوگوں کو سوچنا ہوگی کہ صرف مغربی ممالک کی ترقی‘ سربلندی اوربہتری کی مثالیں دینے کی بجائے اور ان ممالک کا رخ کرنے کی بجائے اگر یہ سب کچھ یہاں چاہتے ہیں تو چین سے سیکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔ اب بات واپس مس سنگاپورکے مطالبے اور نعرے‘ Stop Asian Hate کی بات کریں تو مغربی طاقتوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ اگر وہ ایشیا کے ساتھ کشمکش اور تعصب کی بجائے معاملہ صحت مند مقابلے کی حد تک رکھیں تو دنیا میں امن کی فضا قائم ہو سکتی ہے‘بصورت دیگر چین صرف ایک ملک کے طور پر مغربی دنیا یعنی یورپ بشمول امریکہ پربھاری ہے اور مشرق اور مغرب کی تقسیم میں مشرق مغرب پر بھاری ہوسکتا ہے۔مس سنگاپور کے اپنے لباس پر لکھے تین الفاظ بلاشبہ پوری دنیا کے لیے ایک wake-up call ہیں اور اس کال میں بیرونی آلہ کار بننے والے ایشیائی ملکوں کے سربراہان‘لکھنے اور بولنے والوں‘مغربی فنڈنگ پر چلنے والی تنظیموں‘ لسانیت اور فرقہ واریت کو ذریعۂ معاش بنانے والوں کے لیے بھی گہرا پیغام موجود ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں