اختلاف رائے کا ہو تو ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے‘ خاص طور پر اگر اختلاف کرنے والا صاحبِ رائے ہو اور اگر اختلاف ذاتیات پر مبنی نہ ہو تو معاملہ اور بھی آسان ہوتا ہے‘اسی لئے کہتے ہیں کہ اختلافات زندگی کا حسن ہوتے ہیں‘ لیکن اگر اختلاف میں حدت آجائے تو یہ مخالفت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے اور کسی بھی معاشرے میں مکالمہ کی حیثیت کی نفی ہونا شروع ہوجاتی ہے‘ اور معاشرے کے اندر جتنی مخالفت کی سوچ بڑھتی ہے اتنی ہی سوچنے کی صلاحیت کی مخالفت بھی شروع جاتی ہے ۔ اس طرح کی شروعات ایک اختتام ساتھ لاتی ہیں اور یہ اختتام ہوتا ہے برداشت ‘بقائے باہمی اور قومی دھارے کو قائم کرنے والی سوچ کا۔
شدید اختلاف اورمخالفت ایسی خود رو جنگلی جھاڑیاں اور کانٹے پیدا کرتی ہے جو لامحالہ تلخیوں اور جھگڑوں کو جنم دیتے ہیں۔ اگر آپ کو ابھی تک لکھے گئے الفاظ اور فقرے مشکل معلوم ہوئے ہیں تو ذہن میں رکھیں کہ ہمار ی تقریباً پوری قوم اسی قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔ ان اختلافات کی وجہ بھی کوئی ایک نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے میں اختلافات کی ممکنہ وجوہات مذہبی یا فرقہ وارانہ ‘لسانی‘علاقائی ‘معاشی وسیاسی نظریات پر مبنی ہوتی ہیں ۔جس طرح سرد جنگ میں لمبے عرصے تک ہمارے ہاں سرخ اور سبزکی جنگ جاری رہی۔ سیاسی نظریات میں سیکولر اورلبرل کے طعنہ نما اختلاف نمایاں ہیں اور قدرے تازہ feminismکے نام پر برپا معرکے کو قرار دیا جاسکتا ہے۔اگر کوئی بھی معاشرہ کسی بھی بنیاد پر دو حصوں میں بٹ جائے تو اسے Bipolarسوسائٹی کہا جاتا ہے ‘لیکن اگر تقسیم در تقسیم کی گنتی جاری رہے تو اس کو Multipolarاجتماع کہا جاتا ہے کیونکہ زیادہ بنیادوں پر تقسیم ہونے سے یہ معاشرہ کہلوانے کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔معاشرے میں اس قسم کی سوچ اور طرزِ زندگی کی بنیادی وجوہات معاشی‘نفسیاتی‘ سیاسی‘ معاشرتی جیسا کہ نا انصافی ‘معاشی تنگ دستی ‘ تفریق‘ معاشرتی گھٹن ہوتی ہیں اور یہ اکثر بڑی طاقت کی جانب سے کسی ترقی پذیر ملک میں باقاعدہ پلاننگ اور فنڈنگ سے کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے روس اور امریکہ کی سردجنگ میں ہمارے ملک میں سبز اور سرخ کی تقسیم پیدا ہوئی جس میں امریکہ کی قیادت میں عرب ممالک کی مالی مدد کی بدولت اسے عروج تک پہنچایا گیا ۔واضح رہے کہ سرد جنگ کے دوران کمیونزم کو کفر کے نظام کے طور پر پیش کرنے کے لیے مخصوص جماعتوں کی بھرپور خدمت کر کے ان سے ہر طرح کی خدمات حاصل کی گئیں ‘مگر کمیونسٹ چین کے ساتھ ہمارے دیرینہ اور گہرے تعلقات ہی اور نظریے کے سوال یہاں موجود نہیں ہیں۔اس کے بعد پاکستان میں عورت کی حکمرانی کے جائز اور ناجائزہونے پر بحث کا آغاز ہوا ۔پاکستان میں سرد جنگ کے اثرات براہ راست1979ء میں افغانستان پر روس کے حملے کے بعد آئے جو روس کی ناحق توسیع پسندی کا نتیجہ تھے۔اسی سال ہمارے پڑوسی ملک ایران میں بھی انقلاب آیا اوراس انقلاب اور ایرانی نظریات اور مفادات کی توسیع کی پالیسی نے ایران اور سعودی عرب میں ایک قدرے گرم اور ایک قدرے سرد جنگ کا آغاز کر دیا جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔اگرچہ اب کچھ مثبت اشارے موصول ہونا شروع ہوئے ہیں مگر اس سرد جنگ کے شروع ہوتے ہی پاکستان میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں جو نقصانات ہوئے اس کو دہراتے ہوئے دکھ ہوتا ہے۔جانی و مالی نقصان کے ساتھ اس فرقہ وارانہ تقسیم کی لکیریں پاکستانی سماج میں دراڑوں میں تبدیل ہو گئیں جن کو ختم کرنے میں ابھی مزید تونائی اور وقت درکار ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایران سعودیہ تعلقات کی مکمل بحالی تک انتظار کرنا پڑے گا ۔
اب آتے ہیں انتہائی مقبول تقسیم کی طرف جس کو لبرلز‘سیکولرز اور مذہبی حلقوں کی تقسیم کہا جاتا ہے ۔اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔اس دراڑ یا تقسیم کو آپ انتہائی درجے کی مقامی پیداوار کہہ سکتے ہیں جو الفاظ کے معنی معلوم نہ ہونے یا غلط معنی دینے کا نتیجہ ہے ۔ سب سے پہلے لفظ سیکولر کو لے لیتے ہیں‘اس لفظ کا ترجمہ ہمارے ہاں لادینیت کیا جاتا رہا ہے جو سراسر غلط ہے۔در اصل اس لفظ یا طرزِ حکومت کا تعلق عیسائیوں کے مذہبی رہنمائوں کی سیاست میں بے جا مداخلت بلکہ عملی طور پرآمرانہ حکمرانی سے تھا۔دنیا میں انقلابی جمہوریت کا آغاز 1789ء میں فرانس سے ہوا ۔اس انقلاب کا ایک بنیادی مطالبہ چرچ کامعاشی وسائل پر مفت میں قابض ہونا اور ٹیکس نہ دینے کی حاکمیت کا خاتمہ تھا ۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کی آڑ میں معاشی و سیاسی استحصال کا خاتمہ کرنے کو سیکولر ازم کہا گیا۔ سیکولر کے اصل معنی ایک طرف یہ ہیں کہ حکومت لوگوں پر مذہب کے نام پر کوئی چیز مسلط نہیں کرے گی جبکہ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی فرد کو کسی بھی مذہب کی عبادت سے روکے گی بھی نہیں ۔ آپ امریکہ کی مثال لے لیں اس ملک کی بلکہ دنیا کی سب سے مقبول کرنسی ڈالر کی بیک سائڈ پر واضح لکھا ہوتا ہے In God we Trust ۔اسی طرح جب امریکی صدر حلف لیتا ہے تو اس کا ہاتھ عیسائیت کی مقدس کتاب بائبل پر رکھا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا حالانکہ ہمارے سیاستدانوں کو اپنی مقدس کتاب پر حلف کی زیادہ ضرورت ہے ۔ اس سے آگے بڑھیں تو آپ کو شاید حیرانی ہو گی کہ امریکی صدر کے حلف کا اختتام God Bless Americaکے الفاظ پر ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں لبرل لفظ کے معانی پر ‘اس لفظ کا سادہ اور بنیادی مفہوم ایک دوسرے کے خیالات اور افکار کو Accept and Respect کرنا ‘شخصی آزادی اوربنیادی حقوق کی فراہمی ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ مغرب کے ممالک شخصی آزادی کے اندر کچھ ایسی خرافات بھی لے آئے ہیں جو قانونِ قدرت کے سراسر خلاف ہیں ۔اسی قسم کے ایک حق کا اظہار مس ملالہ نے بھی کیا جس پر ملال لازم ہو جاتا ہے ۔ یہ تصور صرف ہمارے مذہبی عقائد ہی نہیں بلکہ مشرق کے کلچر کی بحیثیت مجموعی بھی نفی کرتا ہے۔ اس بیان پر جہاں معتدل سوچ کے لوگوں نے تنقید کی ہے وہیں بہت سے لبرلز نے بھی کی ہے اور بلا شبہ اس کو روایات اور اصولوں کا تمسخر اڑانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے ۔واپس آتے ہیں لبرل کے معنی پرتو یقینا اندازہ ہوتا ہے کے بنیادی طور پر تو یہ لفظ اور نظریہ انسانی ضرورت محسوس ہوتا ہے یعنی آپ دوسروں کو قبول کریں اور عزت دیں۔ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ لبرل کے مزید درجے ہونے چاہئیں یعنی لبرل یا آزاد ہونے کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے ۔اس کی مثال یوں دے سکتا ہوں کہ پردے کے نام پر عورت کو تعلیم سے اور تعلیم کے نام پر پردے سے محروم نہ کریں۔
آخر میں ایک انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ اپنے معاشرے میں ملاوٹ‘رشوت‘ذخیرہ اندوزی ‘جہیز کی لعنت ‘بیٹی پر بیٹے کو ترجیح ‘جائیداد میں عورتوں کے استحصال‘سرکاری اداروں میں وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھنا ‘ بیوروکریسی کی من مانیاں ‘نظام عدل کی زبوں حالی جیسی بھیانک خرافات کے بتوں کو توڑنے کے لیے بھی کچھ ایسی اصلاحات ضرور کریں کہ لوگوں میں شعوربطرزِ انقلاب نہ سہی بطرزِ ارتقا ہی اجاگر ہو‘کیونکہ لبرل اور سیکولر کے حامیوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ہاں ایک ضروری بات یہ کہ آپ اپنے سکول آف تھاٹ کو حق پر ضرور خیال کریں لیکن کسی کے حق کا فیصلہ کرتے وقت یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے نظریات کا حامی بندہ ہی حق پر ہے ‘بلکہ وہ ہے جو اہلیت اور معیار پر پورا اترتاہے۔