شوٹنگ کا لفظ گولی چلانے کے علاوہ فلموں، ڈراموں حتیٰ کے تصویر کھینچنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ گولی کے استعمال یعنی گولی مارنے کو Hard Power کہا جاتا ہے، جبکہ فلم، تصویر یا دستاویزی فلم کے ذریعے کس شخص، قوم یا ریاست کے حق میں پیش کیا گیا مواد Soft Power کہلاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اندرا گاندھی کی بہو اور راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کلچر اور ثقافت کی جنگ میں انڈیا نے پاکستان کو شکست دے دی ہے جس پر پاکستان کے ایک جریدے نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ جس کلچر کی یلغار کو آپ بھارتی فتح کہہ رہی ہیں وہ در اصل مغرب کے کلچر کی یلغار ہے جس کو بھارت اپنے پڑوسی ممالک میں پہنچانے کا ذریعہ بنا ہے اور اس چکر میں اس نے اپنے ملک میں بھی اس یلغار کو کامیابی سے پھیلایا ہے اور بھارت نے اپنے مشرقی کلچر کو بھی شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے۔ بھارت میں چونکہ دنیا کی سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں اور بھارت نے نہ چاہتے اور بسا اوقات نہ جانتے ہوئے بھی اپنی فلموں میں نیم عریاں اور فحش مواد کا تڑکا لگایا ہے تو اس سے نہ صرف بھارتی معاشرہ متاثر ہوا بلکہ پاکستانی معاشرہ بھی متاثر ہوا؛ تاہم بھارتی معاشرے پر اس کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ضیا دور کی ''اخلاقی‘‘ پابندیوں اور افغان جنگ کے حوالے سے عائد سختیوں کی وجہ سے پاکستان کی فلم انڈسٹری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی لہٰذا بھارتی فلموں نے اس خلا کو بھرپور طریقے سے نہ صرف پُر کیا بلکہ اس پر اجارہ داری بھی قائم کر لی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے‘ وہ یہ کہ برصغیر میں شرم و حیا، والدین کا احترام، شادی بیاہ طے کرنے میں بڑوں کا فیصلہ، خاندانی نظام کا مربوط ہونا صرف مسلمانوں کا مذہبی کلچر نہیں بلکہ سکھ، ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان اقدار کے تحت زندگی گزارتے تھے۔ اسی کو مشرقی کلچر کا نام دیا جاتا ہے لہٰذا بھارت نے اپنی فلموں سے صرف پاکستان کے کلچر کو نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی برصغیر کے کلچر کو متاثر کیا۔ یہاں ایک اہم اور دلچسپ تاریخی حقیقت بیان کرتا چلوں کہ ضیاء الحق کے ایک قریبی مشیر نے اپنی ریٹائرڈ زندگی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ضیا دور میں پی ٹی وی پر خصوصی محنت سے ایسے ڈرامے بنائے جاتے تھے جو اتنے مشہور ہوتے تھے کہ ڈرامہ نشر ہونے کے وقت کاروباری مراکز بند ہو جایا کرتے تھے اور جان بوجھ کر کرکٹ کی لمبی سیریز کا انعقاد کروایا جاتا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ بٹی رہے یا انہی چیزوں پر مرکوز رہے۔ اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی آپ کی یادوں میں تازہ کرتا چلوں کہ 1992ء کے ورلڈکپ میں پاکستان میں پہلے صرف پاکستان کے میچز دکھائے جا رہے تھے لیکن جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحریک کا اعلان ہوا تو حکومت کی ہدایت پر ورلڈ کپ کے تمام میچز سرکاری ٹی وی پر دکھانا شروع کر دیے گئے تاکہ عوام حکومت مخالف تحریک میں دلچسپی نہ لیں اور یہ تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا۔
یہ میڈیا ہی ہے جو Perception قائم کرتا ہے۔ اس لفظ کو اردو میں تاثر یا وجۂ پہچان کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا پرسیپشن کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین کے ٹوٹنے کے فوری بعد مسلم ورلڈ پر مسلط ہو نے والی5GW یعنی ففتھ جنریشن وار فیئر ہے۔ اس جنگ سے دنیا کے 90 فیصد سے زائد مسلمان بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر ہوئے۔ مسلم ممالک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، سول وار اور خود ساختہ پُرتشدد تحریکوں کے ذریعے ہلاکت کا محشر بپا کیا گیا لیکن پرسیپشن قائم کرنے والے مغربی ممالک کا کمال دیکھیں کہ پوری دنیا میں دہشت گرد کے مترادف کے طور جو خیال یا لفظ استعمال ہوتا ہے وہ بھی بے چارے مسلمان ہی ہیں۔ سادہ مگر تلخ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار بھی مسلمان اور بدنام بھی مسلمان!
اب تصویر کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں۔ سب سی بڑی عسکری طاقت‘ امریکا میں 2021ء میں اوسطاً ہر ہفتے میں عوامی جگہوں پر شوٹنگ کے دس واقعات پیش آ چکے ہیں۔ واضح رہے اس میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جن میں لوگ فائرنگ سے قتل ہوئے‘ ہراساں ہوئے یا معمولی زخمی ہوئے۔ ان واقعات کا ایک بڑا ٹارگٹ ایشیائی بالخصوص چین کے باشندے تھے۔ ان واقعات کا تسلسل روکنے کے لیے ایک عوامی مہم بھی چلی اور پھر امریکا کو قانون سازی بھی کرنا پڑی۔ تصور کیجیے کہ اگر اس سے آد ھے واقعات بھی کسی ترقی پذیر ملک میں پیش آئے ہوتے‘ بالخصوص کسی مسلم ملک میں تو دنیا میں کتنا بڑا طوفان برپا ہو جاتا اور شاید اب تک اس ملک پر عسکری و معاشی پابندیاں بھی لگ چکی ہوتیں لیکن یہاں تو ان واقعات کا ذکر بھی بین السطور ہی ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں اگر آپ نیوزی لینڈ میں ہونے والے سانحہ کی میڈیا کوریج کو یاد کریں تو امریکی میڈیا کے بڑے اداروں نے قاتل کو دہشت گر د کا نام دینے میں دو دن لیے تھے، یعنی پہلے دو دن امریکی میڈیا اسے صرف قاتل کے نام سے پکارتا رہا۔ میڈیا سے آپ کتنا بڑا کام لے سکتے ہیں‘ اس کیلئے ارطغرل ڈرامے کی مثال ہی کافی ہے۔ انتہائی قلیل وسائل سے بنائے گئے اس ڈرامے نے مسلم دنیا کی تاریخ کی جدید اور پانچ براعظموں پر پھیلی عالمی سلطنت کے قیام کی کہانی کو اس انداز سے پیش کیا کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کا بندہ اس کو آسانی سے فخریہ انداز میں سمجھ رہا ہے۔
اب ایک اور طرف کیمرہ گھماتے ہیں تو نظر پڑتی ہے دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین پر! چین کی FUDAN یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اپنے انٹرویو میں ''میڈیا کی جنگ‘‘ پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی ملاقات جاپانی نژاد امریکی پروفیسر فرانسس فوکویاما سے ہوئی تھی جس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد The End of History and the Last Man نامی کتاب لکھی تھی۔ یاد رہے کہ فوکویاما نے اس کتاب میں اپنے طور پر ثابت کیا تھا کہ دنیا میں جو جنگ اور مقابلے ہو سکتے تھے‘ ہو چکے ہیں۔ اب تاریخ امریکا اور مغربی دنیا کی برتری اور حاکمیت پر ختم ہو چکی ہے۔ دونوں پروفیسرز کی ملاقات 2011ء میں ہوئی تھی جس میں فرانسس فوکو یاما نے چین کے پروفیسر کو کہا کہ عرب سپرنگ کی طرز پر چین میں بھی ایک افراتفری اور ہلچل کی لہر اٹھ سکتی ہے۔ چینی پروفیسر کہتے ہیں کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے چین سے متعلق قائم کیے گئے اندازے یہ تھے کہ وہ اس ملک کی ترقی کا ہرگز قائل نہ تھا اور اب جبکہ چین کی عالمی طاقت کی حیثیت مسلم ہو چکی ہے‘ میں اس ادارے کو سی مائنس گریڈ دے سکتا ہوں۔ مغرب کے بددیانتی پر مبنی بیانیے کی تصدیق آپ بخوبی سوشل میڈیا پر موجود چین مخالف مواد سے کر سکتے ہیں، جس میں چین کو دنیا کو دوسری بڑی طاقت ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مغرب چین کے زوال سے متعلق بھی لایعنی پیش گوئیاں کرتا رہتا ہے۔
کچھ روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کم دورانیے کی فلموں اور ڈاکیومنٹریز کے مقابلے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں انہوں نے ایسے ہی خیالات کا اعادہ کیا۔ راقم نے گزشتہ ہفتے ایک کالم میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے سے متعلق ایک فلم بنانے کی ناگزیریت پر زور دیا تھا کیونکہ یہ عسکری موضوعات پر بننے والی فلموں میں ایک نمایاں فلم ہو گی۔ اس کی بنیادی وجہ ایک ملک کی آرمی کے ایک بڑے حاضر سروس آفیسر کا دوسرے ملک میں پکڑا جانا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن کے طیارہ گرنے کے موقع پر ایک عالمی ادارہ ایک شارٹ وڈیو بنا چکا ہے جس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی تھی۔ تاحال پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقریباً جیت لیا ہے۔ گویا اس نے دہشت گردوں کا صفایا شوٹنگ سے کیا، لیکن دنیا کو بتانے، دکھانے اور احساس دلانے کے لیے ایک فلم کی شوٹنگ بھی ضروری ہے۔