صرف دیکھیں نہیں‘ سیکھیں!

عجب اتفاق ہے کہ جولائی کا مہینہ دو عالمی طاقتوں کی وجہ سے خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ 4 جولائی کا دن تو امریکا کی آزادی کے حوالے سے منایا ہی جاتا ہے مگر اب یکم جولائی کا دن بھی پوری دنیا کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ آپ نے خبروں میں جان لیا ہو گا کہ گزشتہ دنوں چین کے صدر نے بہت اہم، گہری اور بامقصد نوعیت کی ایک تقریر کی۔ یکم جولائی کا دن دراصل چین میں کمیونسٹ پارٹی کے سنگِ بنیادکا دن ہے اور چونکہ اس پارٹی کا سنگ بنیاد چین میں 1921ء میں رکھا گیا تھا اور رواں سال اس کے سو سال مکمل ہو گئے ہیں‘ اس لیے امسال اس کی سوویں سالگرہ پورے اہتمام سے منائی گئی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے 1949ء چین میں ایک انقلاب کے بعد بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی تھی۔ اس انقلاب کے پیچھے فکر و ذہن، نظریات اور نعرے کارل مارکس، لینن اور سٹالن کے وضع کردہ تھے۔ لینن اور سٹالن وہ دو شخصیات ہیں جنہوں نے زارِروس جیسی سلطنت میں 1917ء میں دنیا کا سب سے پہلا کمیونسٹ انقلاب برپا کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت کی تین بڑ ی عا لمی طاقتوں‘ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اس انقلاب کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سرد جنگ کا آغاز 1917ء میں ہی ہو گیا تھا؛ اگرچہ باضابطہ طور پر سرد جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی تھی اور سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ منتج ہوئی تھی؛ تاہم اب چین کے عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد امریکا اور چین آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ اسے سرد جنگ کا احیا یعنی Revival of Cold War کہا جا رہا ہے۔
چین نے اپنے ملک کی بانی سیاسی جماعت کی سالگرہ مناتے ہوئے تقریبات کا سلسلہ کئی ماہ پہلے شروع کر دیا تھا۔ عین سالگرہ کے دن وزیراعظم عمران خان کا چین سے تعلقات کے حوالے سے دیا گیا بیان نمایاں حیثیت اس لیے اختیار کر گیا کہ انہوں نے چین کے نظام کو مغربی، سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام سے بہتر قرار دیا تھا۔ پارٹی سالگرہ کے موقع پر چین کے صدر کی تقریر کا جو حصہ سب سے نمایاں طور پاکستانی میڈیا نے پیش کیا وہ صدر شی جن پنگ کی وہ تنبیہ ہے جس میں انہوں نے مغربی طاقتوں کو واضح طور پر خبردار کیا کہ جس نے چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے یا اس پر دھونس جمانے کی کوشش کی اس کا 'سر‘ آہنی دیوار سے ٹکرا کر پھوڑ دیا جائے گا۔ کچھ خبر نگاروں نے لفظ دیوار کو ''دیوارِ چین‘‘ رپورٹ کیا جو خلافِ واقع ہے کیونکہ چینی صدر نے اپنی قوم کی تعداد اور استعدا کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ارب چالیس کروڑ کی باصلاحیت قوم کو آہنی دیوار کہا تھا۔ اس تقریر کے نمایاں پہلو میں سب سے پہلے چینی صدر کا اپنے ملک کے سوشلسٹ نظام کو بارہا فخریہ انداز میں میں بیان کرنا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کمیونزم کے بانی کارل مارکس کا ذکر کیااور کہا کہ موجودہ دنیا کے پانچ کمیونسٹ ملکوں میں چین سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ چین کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی اور معاشی ترقی کے ساتھ سماجی اور قدرتی ماحول کی ترقی کا بھی ذکر کیا گیا۔ معاشی ترقی کے حوالے سے واضح رہے کہ چین 2026ء تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بننے جا رہا ہے۔ مطلب GDP یعنی ملک کی کل معاشی پیداوار کے اعتبار سے چین امریکا سے آگے نکل جائے گا۔ اس تقریر میں چینی صدر نے ایک جملے کو بامعنی انداز میں بار بار دہرایا اور وہ جملہ ''چینی طرز کا سوشلزم‘‘ تھا۔ اس کی تشریح کچھ اس طرح سے ہے کہ چین نے اپنے ملک میں معاشی طور پر بہت ساری ایسی نرمیاں کی ہوئی ہیں جو ایک کیپٹلسٹ طرز کے معاشی نظام میں ہوتی ہیں لیکن اس ملک نے کمیونزم یا اس کی نرم شکل سوشلزم کی سب سی بنیادی بات‘ جو ایک عقیدے کی سی حیثیت رکھتی ہے‘ کو کبھی مرکزِ نگاہ سے اوجھل نہیں ہونے دیا اور وہ ہے معاشی برابری کا حصول یا کم از کم غربت کا خاتمہ۔ چین نے اس نکتے کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا اور آج وہ فخریہ طور پر دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنے ملک سے غربت کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ چین مڈل کلاس کا دنیا بھر میں سب سے بڑا حامی ملک بھی بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف ایک ملک کی حیثیت سے سب سے بڑی مڈل کلاس کا حامل ہے بلکہ اگر یورپ اور امریکا کی کل مڈل کلاس کو جمع کیا جائے تو بھی چین ایک بڑا ملک ہو گا۔ اسی طرح خوش حال اور باہنر آبادی کا پیمانہ مقرر کریں تو چین ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم کا درجہ رکھتا ہے۔ 96 لاکھ مربع کلومیٹر کے ساتھ چین روس اور کینیڈا کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ملک بھی ہے۔
چینی صدر نے کہا کہ ان کے ملک نے تین پہاڑ نما مشکلات کا سامنا کیا، یہ پہاڑ استعماریت، جاگیردارانہ نظام اور سب سے بڑھ کر بیورو کریٹک کیپٹل ازم تھے۔ بیورو کریسی والی بات کو اس پس منظر میں دیکھیں کہ چین نے آج تک اگر پاکستان سے کوئی گلہ یا شکوہ کیا ہے تو وہ نواز شریف دور میں پاکستانی بیورو کریسی کی جانب سے ترقیاتی کاموں میں سست روی اور روڑے اٹکانے کا کیا تھا۔ مشکلات کا یہ پہاڑی سلسلہ‘ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق‘ وزیراعظم عمران خان کو بھی درپیش ہے۔ اسی لیے غیر سرکاری طور پر موصول ہونے والی یہ خبر مصدقہ معلوم ہوتی ہے کہ سی پیک منصوبے پر کام اس وقت شروع ہوا تھا جب اس کی ضمانت حکومت نے نہیں‘ ریاستی اداروں نے دی تھی۔
ذکر ہوا تھا چینی کمیونسٹ پارٹی کے سوویں یومِ تاسیس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے بیان کا‘ جس میں انہوں نے چین کے نظام کو مغربی جمہوریت سے بہتر قرار دیا تھا۔ اسی روز پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بھی ایک بیان سامنے آیا جس میں کرپشن، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے چین کو رول ماڈل قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں چونکہ ابھی تک ایک ہی نسخہ تریاق کے طور پر جانا جاتا ہے‘ جو کچھ اس طرح سے ہے کہ ترقی کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے لیکن روس کے بعد چین نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ترقی کے لیے تعلیم، تحقیق اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا خاتمہ ضروری ہیں۔ یہاں بھارت کی مثال دینا بہت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں تمام خرابیوں کی وجہ جمہوریت کے نہ چلنے اور اس کے بار بار ڈی ریل ہونے کوگردانا جاتا ہے مگر بھارت میں جمہوریت کی گاڑی کبھی پٹری سے نہیں اتری مگر پھر بھی وہ اپنے وسائل کے برعکس مشکلات میں گھرا ایک پسماندہ ملک ہے کیونکہ وہاں جمہوریت کے نام پر کرپشن کی دیوی کا راج اور رقص جاری ہے۔ واضح رہے کہ چین میں کرپشن کے عفریت سے نجات کے لیے بڑے کیسز میں سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں‘ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں کرپشن کے ذمہ داران کو ''جائے کرپشن‘‘ پر ہی دفنانے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ اب ایک ہی روز‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا اپنے بیانات میں ایک ہی صفحے بلکہ ''ایک ہی فقرے پر ہونا‘‘ یہ عندیہ دیتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے عفریت سے نجات نہ سہی‘ کم از کم اس کے حجم میں کمی لانے کے حوالے سے واضح ترجیح رکھتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں فکس میچ یا سپاٹ فکسنگ کی وجہ سے کامیابی نہیں حاصل کر پا رہے۔
واپس آتے ہیں چین کی آزادی اور ترقی کی بنیاد رکھنے والی سیاسی جماعت کی سالگرہ کی طرف کہ اس موقع پر مصر کے سفیر نے ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق جرمن چانسلر بسمارک (Otto von Bismarck) کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ جو صرف اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں‘ وہ بیوقوف ہوتے ہیں اسی لئے میں دوسروں (ایسے بے وقوفوں) کے تجربے سے سیکھتا ہوں۔ اس بات کے یہاں تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ وطن عزیزکی بقا کے لیے کرپشن سے نجات ناگزیر ہے‘ اس کے لیے ہمیں نئی غلطیاں کرنے کے بجائے چین کی طرف دیکھنے بلکہ اس کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں