Twice Give and Take

سماجی معاہدے کی اصطلاح کی حقیقی سمجھ اس کو انگریزی میں بیان کرنے یعنی Social Contract کہنے سے آتی ہے کیونکہ معاہدہ کہنے سے کوئی ڈیل‘ کسی لکھت پڑھت یا تحریر کا خاکہ ذہن میں تشکیل پاتا ہے جبکہ کنٹریکٹ سے جو معنے ابھرتا ہے وہ لین دین کا ہوتا ہے اور یہ حقیقی طور پر ایک لین دین کا معاملہ ہی ہے۔ سماجی یا عمرانی معاہدے سے مراد ایک ایسا کنٹریکٹ ہوتا ہے جس کے تحت کوئی معاشرہ آپس میں تعلق قائم رکھتا ہے یا اپنا نظام چلاتا ہے۔ اس کی بنیادی اساس کو سمجھنے کے لیے سادہ مثالیں آسانی پیدا کرتی ہیں۔ اگر ایک ٹریفک سگنل پر دو مخالف اطراف سے ٹریفک آ رہی ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دونوں اطراف کی ٹریفک ایک ہی وقت میں آرام سے گزر سکے، اس لیے ایک طرف کی ٹریفک کو سرخ سگنل کے ذریعے روکنا پڑتا ہے جبکہ دوسری طرف کی ٹریفک کو گرین سگنل دے کر گزرنے کا کہا جاتا ہے۔ اب ایسی صورت میں جو لوگ سبز بتی کی وجہ سے گزر رہے ہوں گے وہ ''کچھ لو‘‘ والی کیٹیگری میں آتے ہیں اور جو لوگ سرخ بتی کی وجہ سے رکے ہوئے ہوں گے وہ ''کچھ دو‘‘ والوں میں شمار ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے اشارے پر سرخ بتی والوں کو سگنل گرین مل جائے اور ''کچھ دو‘‘ کے بجائے وہ ''کچھ لو‘‘ والوں میں شامل ہو جائیں۔ اس میں کسی حد تک قسمت بھی کارفرما ہو سکتی ہے‘ممکن ہے کہ آپ کو اپنے سفر میں سارے اشارے سبز مل جائیں یا بالکل اس کے الٹ ہو۔ البتہ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر دونوں اطراف کی ٹریفک بیک وقت گزرنا چاہے تو سسٹم مشکلات کا شکار ہو کر رک جائے گا اور ہر دو اطراف سے آنے اور جانے والے بیچ چوراہے میں پھنس کر رہ جائیں گے۔
کچھ لو‘ کچھ دو کا یہ قانون Give and Take کلیہ کہلاتا ہے اور زندگی اسی کلیے کے تحت گزرتی ہے مگر یہ اصول اب متروک ہوتا نظر آتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ متروک ہو چکا ہے۔جدید دور کے تقاضوں، زندگی کی رفتار اور انسانی ترجیحات و مصروفیات نے اس کو وقت کے ساتھ ساتھ نہیں بلکہ وقت سے پہلے ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق‘ اس قانون میں پہلی تبدیلی کچھ اس طرح آئی کہ Give, agian Give then Take؛ یعنی دو دفعہ کسی کو کچھ دو تو ہی کچھ لو کی نوبت آئے گی۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ چونکہ ٹریفک کا بوجھ کافی بڑھ چکا ہے تو لازم نہیں کہ آپ اگر ایک ٹریفک سگنل پر رک جائیں تو اشارہ کھلنے پر آپ گزر جائیں گے، ممکن ہے کہ وہ دوبارہ بند ہو جائے اور آپ کی باری ہی نہ آئے‘ اس طرح آپ کو دُگنا انتظار کرنا پڑے گا، یعنی آپ کو دوسروں کو گزرنے کا وقت دو دفعہ دینا پڑے گا‘ پھر ہی آپ کچھ لو کہ تحت وہاں سے گزر سکیں گے۔
اب اس مثال کی روشنی میں آپ اپنی زندگی میں بھی غور کریں‘ آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں بھی صورتحال اسی طرح کی ہے بلکہ اس سے بھی آگے گزر چکی ہے۔ آج سے دس سال پہلے آپ کی زندگی کا انحصار جن عوامل پر ہوتا تھا‘ وہ کافی کم ہوتے تھے‘ مثال کے طور پر آپ کی زندگی کا انحصار انٹرنیٹ پر بہت کم تھا، سمارٹ فون‘ جس کے بغیر آج ایک گھنٹہ بھی گزرنا محال ہوتا ہے‘ پہلے آپ کی زندگی میں شامل نہیں تھا۔ آپ کو خالص یا کم ملاوٹ والی خوراک کے حصول میں زیادہ دقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔ اُس وقت دودھ خریدتے وقت زیادہ سے زیادہ یہی خدشہ لاحق ہوتا تھا کہ اس میں پانی ''ضرورت سے زیادہ‘‘ ملایا گیا ہو گا مگر اب تو یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ جو سفید محلول خریدا جا رہا ہے وہ واقعتاً پانی ملا دودھ یا دودھ ملا پانی ہے یا مختلف کیمیکلز کا مجموعہ‘ جسے دودھ کی شکل دی گئی ہے۔ بازار میں ایسا محلول بھی دودھ کے نام پر فروخت ہوتا ہے جس میں دودھ کا ایک قطرہ بھی شامل نہیں ہوتا۔ چلیں دودھ تو قیمتاً خریدنا پڑتا ہے‘ پانی کی مثال لے لیتے ہیں۔ زندگی کے پہیے کو دس کے بجائے بیس برس پیچھے لے چلتے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جب شہروں میں نل کو منہ لگا کر بھی پانی پی لیا جاتا تھا اور دیہات میں یہ تصور عام تھا کہ بہتا ہوا پانی صاف ہوتا ہے، لہٰذا لوگ چلتی نہر سے پانی نکال کر گھڑے بھر لیتے تھے اور وہی پانی پیتے تھے۔ آج کل شہروں میں یہ صورتِ حال ہو چکی ہے کہ اول تو پانی میسر ہی نہیں ہو پاتا‘ یعنی زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے گرتے گرتے اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ زیرِ زمین پانی بھی ختم ہو چلا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پانی صرف قیمتاً ملتا ہے۔ فیصل آباد جیسا شہر بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے جہاں اب پانی ٹینکرز سے خریدا جاتا ہے۔ دیگر شہروں‘ جیسے لاہور وغیرہ‘ میں پانی تو میسر ہے مگر صحت بخش نہیں ہے یعنی پانی کا معیار پینے کے قابل نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ جو پانی پیسے دے کر خریدتے ہیں‘ اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ صاف ہے یا نہیں بلکہ زیادہ امکان‘ جیسا کہ اکثر خبریں چلتی رہتی ہیں‘ یہی ہے کہ دکانوں پر فروخت ہونے والا پانی پینے کے حوالے سے معیاری نہیں ہو گا۔
جب ہم تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں تو زندگی کی شاہراہ پر ایک بھیانک ٹریفک سگنل ملتا ہے جس پر نہ صرف یہ کہ اشارہ کافی عرصے سے بند ہے بلکہ ٹریفک بھی اس بری طرح سے پھنس چکی ہے کہ نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی اور یہ سگنل ہے سانس لینے کے لیے دستیاب صاف ہوا کا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پہلے تو ہوا صرف انڈسٹریل ایریاز یا بڑی شاہراہوں پر آلودہ ہوا کرتی تھی مگر اب تو سارے کے سارے شہر آلودگی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق‘ کسی بھی بڑے شہر، جیسے لاہور، میں گھروں سے باہر کام کاج کرنے والے لوگ شام تک دو پیکٹ سگریٹ کے برابر آلودہ ہوا اپنے اندر لے جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ 2015ء میں جب امریکی صدر نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو ان کی ٹیم میں شامل لوگوں نے انہیں بتایا تھا کہ جنابِ صدر! آپ کی زندگی کے کچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے قدرے تعجب سے وضاحت طلب کی تو بتایا گیا کہ آپ نے دنیا کے سب سے آلودہ شہر میں کچھ گھنٹے گزارے ہیں جو اپنی زندگی کا وقت کم کرنے کے مترادف ہے۔
انسانی زندگی کی ایک اور مشکل سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مشکل کا تعلق معیشت یا قدرتی ماحول سے نہیں بلکہ خالصتاً روحانیات اور نفسیات سے ہے۔ لوگ اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنے قریبی رشتوں کو بھی وقت نہیں دے پا رہے۔ سادہ لفظوں میں‘ دوستی جیسا رشتہ بھی مفادات کی نذر ہو گیا ہے یعنی اب لوگ صرف غرض سے ملتے ہیں۔ دن کا کچھ حصہ اگر غرض و غایت کے تحت گزر جائے تو گزارہ ہو سکتا ہے لیکن اگر انسان غرض و اغراض کی دلدل میں دھنس کر رہ جائے تو مشکلات میں پھنس کر رہ جانا‘ جلد یا بدیر‘ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرزِ زندگی کی وجہ سے انسان کے اندر کا سکون ختم ہوتا جارہا ہے۔ روحانیت کو آپ پیٹ اور جسم کی بھوک کے بعد تیسری ضروری بھوک کا نام دے سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس صورتحال کو روحانی یا نفسیاتی بحران کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس ہیجان نما بحران کی وجہ سے لوگوں کے رویوں میں تلخی کا عنصر بڑھتا جاتا اور برداشت ختم ہوتی جا تی ہے۔ ایک خود ساختہ احساسِ کمتری جنم لے کر‘ اب جوان بھی ہو چکا ہے۔ آپ ذاتی طور پر تجربہ کر کے دیکھ لیں، کسی بھی فرد کو صرف وقت دیں اور اس کو تھوڑا سا بولنے ‘ کچھ کہنے کا موقع دیں تو وہ پھٹ پڑے گا۔ غور کریں گے تو اندازہ ہو گا کہ کچھ دیر بولنے کے بعد اس کو بہت حد تک سکون آ جائے گا اور اس کی آواز اور لفظوں میں ٹھہرائو آ جائے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی مالی مشکلات کا شکار ہے تو آپ اس کی مدد کر دیں گے اور اپنی حیثیت کے مطابق ایک سے زیادہ لوگوں کی مدد بھی کر دیں گے لیکن جہاں تک تعلق ہے وقت دینے کا تو ایک وقت میں آپ ایک ہی بندے کو وقت دے سکتے اور توجہ سے اس کی بات سن سکتے ہیں اور لازم ہے کہ وہ بھی آپ کی طرف متوجہ ہو‘ لیکن اب کسی کے پاس اتنا وقت بچا ہی نہیں، اس لئے آپ کسی کو دو یا تین دفعہ سنیں گے تو شاید وہ آپ کو ایک دفعہ سنے گا۔ اسی لیے اس کو Give and Give then Take (might) کا نام دیا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں