دنیا سماجی ‘سیاسی ‘معاشی اورنظریاتی کشمکش سے آگے بڑھ کر (وائرس سے ہٹ کر) ایک ایسی حقیقت سے نبرد آزما ہے جس کو بجا طور پر آخری جنگ کہا جا رہا ہے‘ کیونکہ یہ انسانی بقا کا مسئلہ ہے ۔اس جنگ کو قدرتی ماحول کی لڑائی کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی موسمی صورت حال تبدیل نہیں بلکہ تباہ ہو رہی ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں تباہ ہو چکی ہے۔موسم کی تباہ کن تبدیلی سے ہٹ کر پینے کے پانی کی قلت‘ سانس لینے کیلئے قدرتی ہوا کی قلت آلودگی کی شکل میں زمینوں کی قدرتی زرخیزی ختم ہونا اور سب سے بڑھ کر سورج کی روشنی یا دھوپ بھی محفوظ نہیں رہی ۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ انسانی آبادی کا انتہائی بے ہنگم طریقے سے بڑھنا ہے۔11 جولائی کا دن ہر سال اسی سلسلے میں دنیا کے لوگوں‘بالخصوص پاکستان سمیت اکثر اسلامی ممالک میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔ سالانہ کل آبادی کے حوالے سے انڈیا اور چین کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں سالانہ پچاس لاکھ آبادی کا اضافہ ہوتا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کل آبادی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ 1947میں موجودہ پاکستان دنیا میں کل آبادی کے اعتبار سے 14 ویں نمبر پر تھا ۔اگرچہ 1960ء کی دہائی میں ہی پاکستان میں پاپولیشن کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ادراک ہو گیا تھا اور اس کا شعبہ بھی قائم کر دیا گیا تھا مگر ضیا دور میں اس کو بند کر دیا گیا ۔ اسلام اور جہاد کا اس قدر شدید جذبہ تھا کہ سٹکر لگائے جاتے تھے جن پر لکھا ہوتا تھا '' بڑا خاندان جہاد آسان‘‘۔ اس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی مثال لے لیں‘ علیحدگی کے وقت اس کی آبادی موجودہ پاکستان سے کم از کم پچاس لاکھ زیادہ تھی مگر ان کے کسی عوامی لیڈر یا ڈکٹیٹر نے کوئی ایسی غلطی نہیں کی ‘یہی وجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کی آبادی 17کروڑ ہے ۔گویا ہم سے کم از کم پانچ کروڑ کم آبادی ہے۔ اب ذکر اس ملک کا جس کے بغیر کوئی ذکر مکمل نہیں ہوتا یعنی چین ‘ جس کو آزادی کے بعد آبادی پر قابو پانے کیلئے منصوبہ بندی کے طریقے متعارف کروانے کیلئے جب مغربی ممالک نے آفر کی تو اس کی لیڈرشپ نے اس کو کمیونزم کے خلاف ایک سازش سمجھا ‘مگر تاریخ کے اوراق نے عجیب فیصلہ لکھا جب 1979ء میں چین نے آبادی کم کرنے کیلئے دنیا کی سب سے سخت پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت'' ایک جوڑا صرف ایک بچہ ‘‘تک محدود کر دیا گیا ۔ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں باقاعدہ سزا دی جاتی تھی۔اس پالیسی یا قانون میں 2016 ء میں نرمی کرتے ہوئے دو بچوں کی اجازت دی گئی۔چین نے جو اعداد و شمار 2016 ء میں جاری کئے تھے ان کے مطابق اگر وہ ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی نہ اپناتے تو چین کی آبادی میں45 کروڑ کا مزید اضافہ ہو چکا ہوتا اور اس وقت چین کی آبادی دو ارب ہونے والی ہوتی۔اب باری انڈیا کی جس کی آبادی میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے‘اسی لئے انڈیا چار سے پانچ سال میں چین سے پہلا نمبر لے لے گا۔یہی وجہ ہے کہ پانی ‘ہوا اور دیگر ماحولیاتی دشواریوں میں انڈیا اور پاکستان کا شمار دنیا کے شدید خطرات والے علاقے میں ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ان دونوں ملکوں میں دنیا کا ایک انوکھا موسم ایجاد ہو چکا ہے ‘ ایجاد کی بجائے تخریب کا لفظ زیادہ موزوں لگتا ہے‘اس موسم کا نام'' سموگ‘‘ ہے یہ وہ زہریلی دھند ہے جو اکتوبر کے آخر میں خوفناک بادلوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔اس زہریلی دھندکے خاتمے کیلئے دونوں ممالک یا تو بارش کے مرہون منت ہیں یا سردی کے آنے کے۔دنیا میں پانی کی فروخت پر اسے قیامت کی نشانیوں سے تشبیہ دی گئی‘ لیکن ان دونوں ملکوں میں وہ وقت بھی آیا چاہتا ہے جب تازہ ہوا میں سانس لینے کیلئے آکسیجن کے سلنڈر بھی فروخت ہوا کریں گے۔یہ سلنڈر کورونا وائرس کے مرض سے نمٹنے کے علاوہ ہوں گے۔منظر صاف ہے ‘ اگرچہ بھیانک ہے‘مستقبل قریب میں امیر لوگ اپنے گھروں اور دفاتر میں آکسیجن کے سلنڈر یا آکسیجن بنانے والی مشین رکھ لیا کریں گے۔اس بحران کا شکار بالخصوص شہری علاقے ہوں گے۔یہ کوئی بد دعا نہیں‘بدیہی حقیقت ہے جس کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں سموگ کا ذکر ہوا تو وضاحت کرتا چلوں کہ ہر سال اس کی شدت اور دورانیے میں اضافہ ہورہا ہے۔
اب وضاحت اس بات کی کہ ان سب مسائل کا زیادہ آبادی سے کس طرح تعلق ہے۔ذرا تصور کریں کہ جس ملک (پاکستان) میں سالانہ پچاس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوتا ہو وہاں سالانہ پانچ لاکھ گھروں کی تعمیر تو لازم ہو گی‘اب آپ ایک گھر کا اوسط رقبہ پانچ مرلے ہی لگا لیں تو حساب لگائیں کہ سالانہ کتنی زمین ان گھروں کی وجہ سے کنکریٹ کے علاقے میں بد ل جاتی ہے‘جبکہ گھر بننے سے پہلے ان علاقوں میں کاشت کاری ہوتی تھی اور زیر کاشت علاقے میں درخت اور ہریالی ہوتی ہے۔یہ سبز علاقے جہاں ایک طرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں تو دوسری طرف نقصان دہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈکو اپنی خوراک کے طور پر کھا جاتے ہیں‘لیکن زیر کاشت یا سرسبز علاقہ کم ہونے سے آلودگی بڑھنے کا تعلق تو سمجھ میں آہی گیا ہوگا‘اسی طرح جتنی آبادی زیادہ ہو گی اتنی ہی ٹریفک بھی زیادہ ہوگی ‘پانی کا استعمال بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا ‘زمینوں میں کھاد کا استعمال بھی بڑھے گا ‘مزید یہ کہ یہ کھادیں زمینی پانی کے اندر نقصان دہ مادے بھی پیدا کرتی ہیں جن سے لامحالہ قدرتی ماحول تشویشناک صورت اختیار کرتا جائے گا۔ اب تو آبادی کے بڑھنے سے قدرتی ماحول کی تباہی کا تعلق بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔
چلیں ایک اور طریقے سے بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔دنیا کی آبادی1940ء سے 1975ء کے درمیان دو ارب سے چار ارب کی طرف بڑھ رہی تھی۔یہی وہ دور تھا جب دنیا میں مصنوعی کھادوں کا استعمال بڑھا ‘خالص یعنی دیسی گھی کی جگہ بناسپی اور برائلر مرغی کی ایجاد اور استعمال شروع ہوا۔اس کا صاف مطلب ہے کہ کرہ ارض اپنی اصلی یعنی قدرتی صلاحیت کھو جانے کی وجہ سے انسانی آبادی کابوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا ۔زمین کی اس صلا حیت کوCarrying capacity of Earthکہا جاتا ہے ۔جہاں تک بات تھی خوراک کی کمی پوری کرنے کی تو اسے تو حضرت انسان نے قدرے مصنوعی طریقوں سے پورا کرلیا مگر اب باری ہے ہوا اور پانی کی جس کو مصنوعی طریقوں سے پورا کرنے میں انسان بے بس ہے۔ قدرتی ماحول کی کوالٹی اور مقدار کسی بھی ملک کے مضبوط اور محفوظ ہونے کا ایک نیا اور ناگزیر معیار (variable and standard)بن چکا ہے ‘ یعنی کسی ملک کی عسکری اور معاشی قوت کے ساتھ اس ملک کی ہواکا معیار‘پانی کے وسائل کا معیار اور مقدار اور اس ملک میں پائے جانے والے جنگلات کا رقبہ بھی اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ کسی ملک کی سالانہ فی کس ترقی کو ڈالروں میں دیکھنے کے ساتھ اب یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ فی کس یعنی ہر فرد کے حصے میں کتنے درخت آتے ہیں اور قدرت کے یہ معیار ہی مستقبل میں انسانی آبادی کی ہجرت کا تعین کریں گے۔ اس ضمن میں پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر‘شجر کاری کی مہم‘ماحول محفوظ کرنے کے قوانین کا سختی سے نفاذ(جو فی الحال نہ ہونے کے برابر ہے) کے ساتھ آبادی میں اضافے کو قابو کرنا ناگزیرہے‘لیکن اس سلسلے میں تا حال پالیسیاں اور ترجیحات ناکافی ہیں ۔ آج اس اہم ترین عالمی دن کے موقع پر ہمارے لیڈروں کے بیانات اور اس موضوع کی کوریج سے آپ کو بہتر اندازہ ہو جائے گا کہ ہم اس مسئلے پر کتنے سنجیدہ ہیں ۔ا سی لئے پاکستان سمیت تیزی سے بڑھتی آبادی والے تمام ممالک کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کسی ماہر نے کہا تھا کہ'' قدرے اچھی خبر یہ ہے کہ حالات ابھی بدترین نہیں ہوئے مگر بری خبر یہ ہے کہ فی ا لحال ان کے بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں‘‘۔