صرف افغان نہیں پاکستان بھی فاتح

جب پاکستان نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو جو سب سے اہم تبصرہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ بیسویں صدی میں پوری مسلم دنیا کے ممالک میں اگر کوئی قابلِ ذکر واقعہ (major happening) رونما ہوا ہے‘ جس کو تاریخ میں رقم کرنے کے قابل سمجھا جائے گا تو وہ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے ہیں۔ اسی طرح اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز پر عالمی سطح کا جو پہلا تاریخ رقم کرنے والا واقعہ رونما ہوا ہے وہ افغانستان کے پچاس ہزار سے ایک لاکھ کی تعداد کے لگ بھگ سویلین آزادی پسند جنگجوئوں‘ (طالبان) کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت کی مکمل اور واضح شکست ہے۔ اس موقع پر اکثر و بیشتر لکھنے اور بولنے والے مغرب کی مالی منفعت اور دیگر مفادات کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے تقریباً گونگے اور اندرونِ خانہ غم زدہ ہیں۔ اگر آپ میڈیا پر چلنے والے مواد کا جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ایسی لابی کے بہت سے لوگ امریکا کی شکست کو مکمل نظر انداز کر رہے ہیں، حالانکہ دسمبر کے مہینے میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے یہی لوگ پاکستان کے اداروں پر لغت سے باہر کے الفاظ کے ساتھ حملوں کی بوچھاڑ کرتے نظر آئیں گے، حالانکہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج بیک وقت اپنے سے دو گنا سے زیادہ بڑی انڈین آرمی کے ساتھ ساتھ دو عالمی طاقتوں‘ روس اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف بھی نبرد آزما تھی اور اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ درجنوں کتابیں‘ خود کے جی بی اور سی آئی اے کے سابق اہلکاروں کے انکشافات نما اعترافات پر مبنی‘ شائع ہو چکی ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکی جنگ اور اس کی الائشوں کا مقابلہ افغانستان کے بعد پاکستان نے بھی کیا ۔ان بیس برسوں میں پاکستان نے ففتھ جنریشن وار فیئر کے تحت ایک جنگ کا سامنا کیا۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں بھارت واضح طور پر امریکا کا اتحادی بنا رہا اور پاکستان دشمنی میں بہت سارے گروہ تشکیل دے کر افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو نشانہ بناتا رہا۔ اس کا سب سے بڑا مظہر بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا وہ انٹرویو ہے جس میں وہ خود اقرار کرتا ہے کہ وہ کئی گروہوں کو بھاری رقوم کے عوض پاکستان کے خلاف دہشت گردی پر مبنی جنگی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے طالبان کا نام دے کر پاکستان کے اندر دہشت گردوں (ٹی ٹی پی) کی ایک فوج بھرتی کی گئی تھی، ان کو ایف ایم ریڈیو کے سیٹ اپ فراہم کیے جاتے تھے، ان لوگوں کے انٹرویوز بین الاقوامی میڈیا پر نشر کروائے جاتے تھے، سوشل میڈیا پر ان کی تشہیرکیلئے ہزاروں فیک اکائونٹس بنائے جاتے تھے، پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں ایسے سیاستدان نما افراد کو تیار اور مضبوط کیا جاتا تھا جنہیں پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ سرحد کے دونوں اطراف سے پاک آرمی کی چیک پوسٹوں پر حملے بھی کیے جاتے تھے، اس سلسلے میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ بھارت پاکستان دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔ اس ضمن میں یاد رہے کہ موجودہ کٹھ پتلی افغان حکومت کا واحد آسرا افغان فورسز کی مکمل ٹریننگ بھارت کی ملٹری اکیڈمیوں میں ہوتی رہی ہے۔ یہ فوج امریکی انخلا کے ساتھ ہی یا تو طالبان کے سامنے سرنڈر کر رہی ہے یا ہمسایہ ممالک میں پناہ حاصل کر رہی ہے۔ بھارت اب بدحواسی کا شکار ہو کر ایک طرف اپنی تربیت یافتہ افغان فوج کو اسلحے کے انبار دے رہا ہے تو دوسری طرف وہ طالبان سے مراسم قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ افغان جنگ میں صرف امریکا کو شکست نہیں ہوئی بلکہ بھارت بھی اس ذلت میں برابر کا حصہ دار ہے۔ اس کی بیس برسوں کی ساری سرمایہ کاری خاک میں مل گئی ہے، برملا تو یہ نہیں کہا جا سکتا مگر روس اور چین اس جنگ میں جو طالبان کی مدد کرتے رہے ہیں‘ اس کا راستہ پاکستان کے علاوہ کوئی نہیں تھا کیونکہ اس ساری جنگ کے دوران افغانستان کیلئے اگر کوئی سرحد مکمل طور پر کھلی رہی تو وہ پاکستان کے ساتھ منسلک افغان سرحد تھی۔ سب سے بڑھ کر‘ اس جنگ کا مرکز افغانستان کے بعد پاکستان ہی تھا جہاں سکیورٹی اداروں اور عام عوام نے ستر ہزار سے زائد افراد کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس جنگ کے دوران جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، میجر جنرل رینک کے تین افسران شہید ہوئے، لاہور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ ہوا، کراچی میں نیول بیس پر حملہ ہوا۔ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ ٹی ٹی پی والے اسلام آبادسے چند کلومیٹر دور تک قابض ہو چکے ہیں، سرکاری دفاتر پر جان لیوا حملے ہوئے، تعلیمی اداروں، تمام مذاہب کی عبادت گاہوں، کاروباری مراکز، عوامی جگہوں اور بازاروں سمیت ہر جگہ پر بم دھماکے ہوئے۔ اس سلسلے کی انتہا آرمی پبلک سکول کے بچوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنانا تھا جس کے بعد کئی روز تک پاکستان غم اور صدمے کی کیفیت میں مبتلا رہا۔
کراچی میں جب پاکستان نیوی کے مرکز پر حملے کے نتیجے میں ایک بڑا اور اہم جنگی جہاز تباہ ہوا تھا تو کئی دفاعی امور کے ماہرین بھی مایوسی کا شکار ہو کر ڈھکے چھپے لفظوں میں کسی بڑے قومی نقصان کا عندیہ دے رہے تھے۔ بہت باہمت لوگ بھی اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ شاید اب ملک چھوڑنا پڑ جائے، ہر طرف بے یقینی کے سائے پھیلے تھے۔ پاک فوج کے ساتھ ساتھ پولیس نے بھی اپنے مراکز پر کافی حملوں کا سامنا کیا اور بے شمار جانوں کے نذرانے دیے، پولیس کے لوگوں کی قربانیوں کا ذکر بھی ہر طرح سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد عام شہریوں کا عزم اور حوصلہ ہے جو ہر صورت برقرار رہا۔ حملے کے بعد بھی عام لوگ بغیر کسی خوف کے زندگی رواں دواں رکھتے تھے۔ واہگہ بارڈر پر جھنڈا لہرانے کی تقریب میں جب بم دھماکا ہوا تو اگلے دن بھارت نے تو اس تقریب میں عام افراد کی شرکت پر پابندی لگا دی مگر پوری دنیا کو اس وقت ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا جب پاکستان کی سائیڈ پر پہلے سے زیادہ لوگ پہنچ گئے اور تقریب پہلے سے بھی زیادہ زور وشور سے منعقد ہوئی۔ یہ بلاشبہ پاکستانی عوام کا بلند حوصلہ تھا جو وہ اس تقریب میں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنی شرکت سے سکیورٹی اداروں کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ عوام کے حوالے سے بات کی جائے تو شاید وہ بھی افغان قوم کی طرح دہشت گردی کے عادی (Immune) ہو چکے تھے مگر حوصلہ نہیں ہارے تھے۔ ان تمام شواہد اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بلا شک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانوں کے بعد بلکہ ان کے ساتھ‘ جس ملک نے اس جنگ کا دلیرانہ سامنا کیا ہے وہ پاکستان ہے بلکہ پاکستان نے امریکیوں کے ساتھ بھارتی یلغار کا سامنا بھی کیا جو اس پرائی جنگ میں صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کودا تھا۔
رہی بات امریکا کی تو اس نے اپنی تاریخ کی یہ دوسری بڑی شکست کھائی ہے۔ پہلے ویتنام میں بھی بیس سال لڑنے کے بعد وہ شکست کے زخم چاٹتا ہوا لوٹ گیا تھا۔ اس جنگ میں ویتنام کو روس اور چین کی ہر طرح کی مدد حاصل تھی، افغانوں نے روس کو شکست دی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت کئی مسلم ممالک‘ یہاں تک کہ اسرائیل بھی اس جنگ میں افغانوں کی مدد کر رہا تھا مگر حالیہ امریکی یلغار میں طالبان کے ساتھ کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا تھا۔ جب اس جنگ میں شریک لوگ (بالخصوص امریکی) اس جنگ کے حوالے سے کتابیں لکھیں گے تو ہی یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ کیا وجہ تھی کہ امریکا بیس سال کی جدوجہد، کھربوں ڈالر کے بجٹ اور ایک ایک انچ پر بمباری کرنے کے بعد بھی افغانستان کے خشک پتھریلے پہاڑوں کو فتح نہیں کر سکا۔ فی الوقت یہی کہنا کافی ہے کہ اس صدی میں مسلم ممالک میں اگر کوئی عالمی نوعیت کا واقعہ برپا ہوا تو افغانوں اور پاکستانیوں کے ہاتھوں امریکا اور بھارت کی شکست ہے۔ امریکا تو ایک طاقتور اور ہزاروں میل دور کا ملک ہے‘ وہ تو اس خطے سے چلا گیا ہے لیکن بھارت اس کے مقابلے میں کافی کمزور ہے اور اسے رہنا بھی یہیں ہے‘ دیکھیں اس کا خمیازہ وہ کس حد تک بھگتتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں