لاہور کا سیاہ خون

''لاہور شہر کی زندگی پانچ سے دس سال رہ گئی ہے‘‘یہ بات راقم نے گزشتہ دنوں ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تو اینکر صاحب حیران ہوئے اور پروگرام دیکھنے والے بھی اس کو ماننے اور سمجھنے سے قاصر تھے۔مگر یہ پیش گوئی کس عامل یا نجومی کی نہیں ہے بلکہ ماحولیات اور جغرافیہ کے ماہرین کا یہ ماننا ہے‘ جو اس بات کو ایک وارننگ کے طور پر کہہ رہے ہیں ۔اگرچہ یہ بات سننے والے کو مغموم کردیتی ہے مگریہ مسلط حقیقت ہے ۔
شہر وں کو اپنی بناوٹ کے اعتبار سے شہد کی مکھیوں کے چھتے سے تشبیہ دی جاتی ہے جہاں کم ترین جگہ پر Maximum لوگ آباد ہوتے ہیں‘جس کو فی مربع کلومیٹر کے حساب سے ماپا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات شہروں کی Vertical Growth ہوتی ہے جس کو آپ کئی منزلہ عمارتوں کو ذہن میں لا کر سمجھ سکتے ہیں ۔اس میں کمرشل عمارتوں کے علاوہ رہائشی فلیٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔اس کے بعد صنعتی سرگرمیاں اور ذرائع آمدورفت کسی شہر کی زندگی کا تعین کرتے ہیں۔اس کی وضاحت بڑی سادہ ہے کہ اگر فیکٹریاں ایندھن کے طور پر کوئلہ‘لکڑیاں اور خاص طور پر ربڑ کے پرانے ٹائر استعمال کریں توصورت حال غیر معمولی رفتار سے خراب ہوتی ہے۔ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں دھواں پیدا کرکے اس بدحالی میں واضح اضافہ کردیتی ہیں بلکہ لاہور شہر میں ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں ہی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
اب بات کو ایک اور طریقے سے سمجھتے ہیں۔ تمام انسان سانس لینے کے لیے آکسیجن اندر کھینچتے ہیں اور قدرتی ماحول میں اس گیس کی پیداوار صرف درخت کرتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سانس باہر لاتے وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور یہی گیس ایندھن جلانے کے تمام عوامل میں بھی پیدا ہوتی ہے اور اس زہریلی گیس کو درخت سانس لینے اور اپنی خوراک بنانے کے عمل میں کھا جاتے ہیں۔پوری دنیا میں جہاں جہاں انسانی آبادی اور درختوں کی تعداد میں توازن ہوتا ہے وہاں ہوا سانس لینے کے لیے صحت مند رہتی ہے اور جیسے جیسے یہ توازن بگڑتا ہے وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں رہتی اور شہروں میں جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے تو رہائشی کالونیاں بھی بڑھتی ہیں جس کی وجہ سے درخت اور دیگر نباتات کٹ جاتے ہیں اس لئے شہروں کی فضا میں صحت مند ہوا کی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مشکل کا روپ دھارلیتی ہے جب سڑکوں کے کنارے اور گلیوں میں درخت نہ لگائے جائیں‘مزید یہ کی رہائشی علاقوں میں گرائونڈ اور پارک بہت چھوٹے بنائے جاتے ہیں اور جو بنائے بھی جاتے ہیں وہاں جتنے درخت لگانے چاہیں وہ نہیں لگائے جاتے۔لاہور شہر میں گھروں کا اوسط سائزپانچ مرلہ ہے جس میں درخت لگانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘نتیجہ فضا کی آلودگی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اگلاپہلو پانی کا ہوتا ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ جو پانی ہم زمین سے نکال کر استعمال کرتے ہیں وہ بارش کے ذریعے ہی زمین میں جذب ہوتا ہے لیکن اگر زمین پر صرف سیمنٹ کی پکی عمارتیں ہوں گی تو وہ پانی زمیں میں جذب نہیں ہو سکے گا جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے گرتی جاتی ہے اور ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ زیر زمین پانی یکسر ختم ہو جاتا ہے ۔اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہوتی ہے کی شہروں میں فیکٹریوں کا آلودہ پانی قریبی ندی نالوں اور نہروں میں پھینک دیا جاتا ہے جو دستیاب پانی کو بھی آلودہ کرکے پینے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔اسی طرح شہروں کے اوپرفضا میں موجود آلودگی بارش کے ساتھ زمین پر واپس آجاتی ہے۔ ایسی بارش کو'' تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جب ایسی بارشوں کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے تو آلودہ ہوتا ہے اور پہلے سے موجود پانی کو بھی آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ صرف لاہور شہر کی بات کرتے ہیں ۔یہ کبھی باغوں کا شہر کہلاتاتھا مگر اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست آتا ہے۔مگریہ پاکستان کا دوسرا Megapolitanشہر بن چکاہے۔آبادی کے بے ہنگم اضافے کی وجہ سے بے پناہ رہائشی ٹائونز بنے ہیں اور مزید بن رہے ہیں ۔بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ رہائشی ضروریات بڑھ رہی ہیں مگر اب مسئلہ صرف کالونیاں بنانے کا نہیں بلکہ ان کے بناتے وقت ماحولیات کے قوانین کی پابندی اور احتیاط نہ کرنے کا بھی ہے۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کالونیوں میں پارکوں اور گرین بیلٹس کم رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح گلیوں کی وسعت بھی کم رکھی جاتی ہے جبکہ ماحولیات کی بقا کا تقاضا ہے کہ گلیاں اتنی کھلی رکھیں جائیں کہ ان میں درخت آسانی سے لگ سکیں اور لگائے بھی جائیں۔اسی طرح چھوٹے سائز کی گلیوں میں سے ہوا کی گردش بھی پوری طرح نہیں ہو پاتی جس سے ہواکی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔اس سے آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے گھروں کے سائز بڑے ہیں وہ بھی جتنے درخت لگا سکتے ہیں نہیں لگاتے‘اور اگر لگاتے بھی ہیں تو زیبائشی پودے نہ کہ سایہ دارپیڑ۔کم از کم ان لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے گھروں کی حدتک اتنے درخت ضرور لگائیں کہ گھر وں میں ہوا صاف رہے۔مزید یہ کہ حکومت کو گھروں میں درخت لگانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے اور قانون سازی ہی نہیں بلکہ اس پر عزم انداز سے عمل بھی کروایا جائے۔اس سے اگلا حل بھی انتہائی قابلِ عمل اور موثر ہو سکتا ہے ‘آپ کو شائد تھوڑا عجیب لگے گا کیونکہ یہ بات ہے قبرستانوں کی جہاں ہم اپنے پیاروں کو ہمیشہ کی نیند سلا کر آتے ہیں اور اپنے پیار اور محبت کے اظہار کے لیے قبر پکی کروادیتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر ہر قبر کے سر کی طرف ایک سایہ دار درخت لگا دیا جائے جو مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث بھی ہو گا اور زندہ لوگوں کے لیے زندگی کا باعث آکسیجن پیدا کرے گا ۔اگر لوگ خود نہیں کرتے توحکومت شہروں میں درخت لگانے کے لیے جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قبرستانوں میں درخت لگا سکتی ہے۔
اب بات لاہور کے آدھے حسن کی مالک ‘ لاہور سے گزرنے والی نہر کی۔آپ آج کے بعد جب لاہور میں نہر کے کنارے سڑک سے گزریں تو تھوڑا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اکثر درخت اپنی عمر پوری کرچکے ہیں مگر نئے درخت نہیں لگائے جارہے ۔اس نہر کے کنارے ہوا کی وجہ سے گرنے والے بیجوں کی وجہ سے مختلف اقسام کے درخت‘بے ہنگم طریقے سے ضرور اُگ رہے ہیں مگر نہر جیسی آئیڈیل جگہ پر باقاعدہ درختوں کا نہ لگنا متعلقہ حکومتی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔لاہور شہر کے رہنے والوں کو زندہ دلان کہاجاتا ہے‘اس طرح لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے ‘انسان کے جسم میں انتہائی اہم عضو دل ہوتا ہے‘ دل ہو یا پورا جسم اس کی صحت کا دارومدار خون پر ہوتا ہے اور خون خوراک سے بنتا ہے اور جب بات ہوتی ہے خوراک کی تو صاف پانی ہی نہیں بلکہ صاف ہوا بھی اس کا لازمی جزو ہے لیکن اگر پانی صحت مند اور محفوظ نہ ہو اور سانس لینے کے لیے ہوا صاف نہ ہو تویقینا خون بھی صاف نہیں ہوگا اور جب خون خراب ہو جائے تو دل کیسے صحت مند ہو سکتاہے ۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ لاہور شہر کب تک زندہ دلان کا شہر کہلوا سکے گا ؟
ضروری نوٹ: اگرچہ حکومت نے راوی کے کنارے جنگل لگانے‘ جھیل بنانے جیسے پراجیکٹ کا اعلان ضرور کیا ہے مگر دیکھنا ہوگا کہ اس کی عملی شکل کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔اس پراجیکٹ پر تبصرہ اس کی تفصیلات جاننے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں