سیاست ‘جگت اور درخت

بات چل رہی ہے دنیا کی ماحولیاتی بقا کی اورذکر ہورہا ہے اس سسٹم کی بنیادی اکائی یعنی درخت کا۔کسی ماہر نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر زمین کو دھرتی ماں کہا جاتا ہے تو اس پر موجود زندگی کے لئے درخت باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔پاکستان میں ان دنوں Plant for Pakistanکے نام سے ایک درخت لگانے کی مہم چل رہی ہے ۔آج صبح کے اخبار میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ کی ایک تصویر دیکھی جس میں وہ خواتین کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں پودا لگا کر دعا مانگ رہی ہیں ‘ تصویر کے ساتھ درج تھا کہ پاکستان کے لئے درخت لگائو مہم کا آغاز کر دیا گیا ۔یہ ایک بھر پور پیغام ہے کیونکہ اس فوٹو کے ذریعہ ایک طرف خواتین کواور دوسری طرف طالبات کو اس مہم میں شامل ہونے کا پیغام دیا گیا ہے۔اسی طرح تعلیمی اداروں کو اس میں شامل کرنے کا مظاہرہ نظر آ رہا ہے ۔تعلیمی اداروں کے اہم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تو سرکاری تعلیمی اداروں میں جگہ موجود ہوتی ہے جس میں آسانی سے سے ایک چھوٹا جنگل لگایا جا سکتا ہے ‘دوسری طرف نوجوانوں کو درخت لگانے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔اس مہم کو سرکاری حکم اور سرپرستی میں کالجوں اور سکولوں تک پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ ماہ ایک خبر نظروں سے گزری تھی کہ بیس درخت لگانے والے ایک سٹوڈنٹ کو اضافی نمبر دیے جائیں گے‘یاد رہے کہNCC پروگرام کے تحت چند ماہ کی فوجی تربیت مکمل کرنے والے سٹوڈنٹس کو اگلی کلاس میں داخلے کے وقت بیس نمبر اضافی دیے جاتے تھے ۔یہ تربیت میٹرک کے بعد یعنی ایف اے اور ایف ایس سی کی دو سال کی پڑھائی کے دوران دی جاتی تھی ۔کیا ہی اچھا ہو اگر اسی طرز پر درخت لگانے کی تربیت اور مہم لازم قرار دیتے ہوئے اسے پرائمری سکولوں تک پھیلا دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک انتہائی اہم پہلو مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے تقریبا ًتیس لاکھ طلبا ہیں جن کو تعلیم کے قومی دھارے میں شامل کرنے کی اس سے زیادہ اہم اور آسان کوشش اور نہیں ہو سکتی۔اس کے لئے مدارس کے منتظمین کو بھرپور طریقے سے مہم چلانی چاہیے۔ اس کے ذریعے مدارس کا سافٹ ہی نہیں سویٹ اور سٹرانگ امیج بھی بنے گا ۔اسی طرح علما کوجمعہ کے خطبات میں درخت لگانے کی ترغیب دینے کی اشد ضرورت ہے ۔
اگلی بات جس کے متعلق اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ درخت لگائیں کہاں ؟ خاص طور پر شہری علاقوں کے حوالے سے یہ سوال بڑی شدت سے ابھرتا ہے‘اس کے لئے بڑی شاہرائیں بہت آئیڈیل جگہ ہیں۔ آپ صرف جی ٹی روڈ اور بالخصوص موٹر وے کی مثال لے لیں ۔ ان سڑکوں کے دونوں اطراف ‘مضبوط لکڑی اور لمبے قد والے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ درخت ماحول صاف کرنے کے ساتھ درجہ حرارت کم کرنے میں بھی واضح کردار ادا کریں گے۔اگر صرف لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹر وے کی بات کی جائے تو اتنی جگہ موجود ہے کہ ایک وقت میں دو درخت متوازی طور پر لگائے جاسکتے ہیں۔اسی حساب سے اگر پندرہ سے بیس فٹ کے فاصلے پردرخت لگائے جائیں تو تقریباً دو سو درخت لگائے جا سکتے ہیں اور متوازی طور پر دو درخت لگائیں تو یہ تعداد چار سو بنتی ہے۔اس طرح اس موٹر وے کے دونوں اطراف تین لاکھ درخت آسانی سے لگ سکتے ہیں ۔یہ بات لاہور سے اسلام آباد کی موٹروے کی ہوئی ہے ۔اس حساب سے پورے ملک کی موٹر ویز اور پھر جی ٹی روڈ پر درخت لگائے جاسکتے ہیں ۔صرف تکمیل شدہ موٹر وے پر درخت لگانے کی گنجائش تین کروڑ ہے ۔سڑکوں کے بعد ریلوے ٹریکس کے دونوں اطراف بھی جگہ موجود ہے جو سڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف تقریباً ڈیڑھ سو فٹ جگہ حکومت کی ملکیت ہوتی ہے ۔ہم اگر اسے سو فٹ بھی تصور کریں تو چھ درخت متوازی طور پر لگائے جا سکتے ہیں جو ایک چھوٹے جنگل کا بہترین نمونہ ہو سکتے ہیں۔
آلودگی کا زیادہ شکار شہر ہیں ‘اس کے لئے شہروں میں بڑے سائز کے گھروں کودرخت لگانے کا پابند کیا جائے۔اس سے بھی اہم بات لگائے جانے والے درختوں کی اقسام ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ زیبائشی پودوں کا انتخاب کرتے ہیں مگر ضرورت قد آور اور گھنی چھائوں والے درختوں کی ہے ۔اس کڑی میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ایسے پودے بھی ہیں جو نہ صرف دن بلکہ رات کے وقت بھی آکسیجن پیدا کرتے ہیں جیسا کہ زیتوں کا پودا ۔آپ کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ اس قسم کے پودے جو چوبیس گھنٹے آکسیجن پیدا کرتے ہیں گملوں میں بھی لگ جاتے ہیں تو اگر آپ کے گھر کاسائز چھوٹا ہے تو آپ یہ گملوں والے پودے ضرور لگا سکتے ہیں ۔اسی طرح آپ اپنے گھر کی چھت پر بھی گملے رکھ سکتے ہیں۔یہ گملوں والے پودے آپ کے پیارے گھر کی چھت کو تپش سے محفوظ بھی رکھیں گے۔
ہم سیاسی باتوں‘جگتوں‘میوزک اور سوشل میڈیا کے گرداب میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں‘ تو سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جو ایک ارب درخت پی ٹی آئی کی حکومت نے لگانے کا دعویٰ کیا تھا وہ کہاں گئے؟ کیونکہ پاکستان میں فی کس درختوں کی تعداد صرف پانچ ہے یعنی پاکستان کی کل آبادی کے بیس کروڑ لوگوں کے حصے میں پانچ درخت آتے ہیں اور آبادی بائیس کروڑ ہے تو بھی فی کس ساڑھے چار درخت آتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابھی تک پاکستان کا شمار عالمی اداروں کے مطابق فی کس پانچ درختوں والی فہرست میں ہی کیوں آ رہا ہے (اسے سیاسی جگت بھی کہا جاسکتا ہے)یعنی تقریبا ًپانچ درخت فی کس تو صرف پی ٹی آئی ہی لگا چکی ہے ۔تو ہو سکتا ہے کہ لگائے ایک ارب ہوں مگر اس میں سے پروان صرف ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم چڑھے ہوں۔ تو اپوزیشن جماعتوں کو سوال اٹھاناچاہیے اور اگر حکومتی جماعت کو یقین ہے کہ ایک ارب یا چلیں ان میں سے آدھے درخت بھی اُگے ہیں تو حکومت کو عالمی اداروں سے رابطہ کر کے ڈیٹا درست کرنے کا کہنا چاہیے۔ لیکن ایک اور بات اہم ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان میں سالانہ پچاس لاکھ آبادی کا اضافہ ہوتا ہے ‘اس لئے صرف پانچ درخت فی کس کو برقرار رکھناہے تو ہمیں دو کروڑ پچاس لاکھ درخت سالانہ لگانے کی ضرورت ہے۔اسی کے ساتھ سالانہ کٹ جانے والے درختوں کا قرض علیحدہ سے بڑھ رہا ہے۔اس حوالے سے دھیان جاتا ہے ملک کے نہری نظام کی طرف جو درخت لگانے کے حوالے سے بہت زیادہ ہی نہیں مکمل آئیڈیل جگہ ہے کیونکہ نہر کے کنارے درخت صرف لگانے کی ضرورت ہے اس کے بعد پانی دینے کی ضرورت نہیں رہتی ۔لیکن اگر آپ کسی نہر کے ساتھ والی سڑک پر سفر کریں تو نہروں کے کنارے گنجے نظر آئیں گے بالخصوص دیہی علاقوں سے گزرتی نہریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن کی دیوی ان درختوں کو بھی کھا چکی ہے۔ محکمہ ایریگیشن کے زیر نگرانی یہ درخت چوری ہو چکے ہیں ۔ اس قسم کی صورت حال دریائوں کے کناروں پر بھی ہے ۔ درختوں سے محروم نہریں اور صحرائوں کا منظر پیش کرتے دریا ہر گز قابل قبول نہیں ۔سوشل میڈیا کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے‘ بھلے اس پر میوزک یا چلبلی ادائوں والے اداکاروں کی مدد حاصل کریں۔
چودہ اگست کے قریب آنے کے حوالے سے بڑے پرچم بنانے اور لہرانے کے مقابلوں کا ذکر کریں تو بات یقینا اس طرف مڑ جاتی ہے کہ ہمیں قدرتی طور ایک برتری حاصل ہے کیونکہ ہمارا پرچم سبز ہلالی ہے اور درختوں کا رنگ بھی سبز ہی ہے تو کیوں نہ پرچم کی شکل کے مطابق ایک علاقے میں درخت لگائے جائیں اور سفید حصے کے لئے ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جن پر سفید پتے یا پھول لگتے ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ ‘14اگست اورستمبر بہت اہم ہیں ‘اب اگر آپ غور کریں تو یہ تمام دن بلکہ دورانیہ درخت لگانے کا موسم ہے تو کیوں نہ پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور سٹرانگ پیغام دینے کے لئے ان قومی تقریبات کو درخت لگانے کے جانب موڑا جائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں