بھارت کے بڑھتے محاذ

گزشتہ دنوں بھارت کی دو ریاستوں‘ آسام اور میزورام کی پولیس اپنی سرحدوں پر لڑ پڑی جس میں ہلکی مشین گنوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ پولیس کے علاوہ دونوں سٹیٹس کے عام لوگ بھی مسلح ہو کر اپنی اپنی پولیس کے ساتھ کھڑے رہے۔ یہ منظر بالکل دو ملکوں کی فوج کے مابین جنگ کی مانند تھا۔ اس لڑائی میں آسام کے پانچ پولیس والوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہ ملکوں کی سیاسی و انتظامی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اس ''جنگ‘‘ کی وجہ میزورام ریاست کی لوکیشن ہے۔ دراصل میزورام کو جانے والا واحد راستہ آسام ہی سے ہے‘ جو آسام نے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہاں خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔اس علاقے میں علیحدگی کی تحریکیں پہلے بھی چلتی رہتی ہیں، قحط کسی بغاوت میں نہ بدل جائے‘ اس لیے خوراک کے ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت دی گئی مگر ان ٹرکوں کو راستے میں ہی لوٹنے کی کوشش کی گئی۔ آسام کے وزیراعلیٰ نے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اپنی ریاست کے لوگوں کو ''متصادم ریاست‘‘ جانے سے بھی روک دیا ہے۔ اب اس سرحدی علاقے میں ایک نیم فوجی دستے کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس جنگی صورتحال کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ٹویٹر پر بھی شعلہ بیانی کرتے ہوئے متصادم نظر آئے۔ آسام پولیس کے ہلاک ہونے والے اہلکاروں کو بھارت کے قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری رسومات کیلئے لایا گیا جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ کسی دشمن سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔
دوسری طرف تاحال بھارت افغانستان کی جلتی آگ کو بڑھاوا دینے کی کوشش میں اپنے ہاتھ جلانے میں مصروف ہے۔ جب تک امریکا افغانستان میں موجود رہا‘ بھارت امریکا کی کوششوں سے شروع کردہ افغان آرمی کو اپنے ملک میں ٹریننگ دیتا رہا جس کا مقصد امریکا کی خوشنودی حاصل کرنا اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کو افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں جاری رکھنا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر کا مشہور بلکہ بدنام زمانہ انٹرویو تو آپ نے دیکھا ہی ہو گا۔ اس انٹرویو میں وہ کھلم کھلا اعتراف کرتا ہے کہ وہ لاکھوں ڈالروں کے عوض سویلین افغانوں کو بھرتی کرکے پاکستان کے خلاف لڑنے یعنی دہشت گردی کے لیے استعما ل کرتا رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق‘ بھارت کا آخری قونصل خانہ بھی افغانستان میں بند کرنا پڑ گیا ہے اور سفارتی عملہ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے واپس بھارت لایا گیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان‘ جو ایک ایسا ملک ہے‘ جہاں اس کے شہری بھی جانے کو تیار نہیں اور وہ پاکستان، ایران اور ترکی کی طرف دیکھتے ہیں، وہ اپنا گھر باڑ چھوڑ کر کھلے آسمان کے نیچے خیموں میں رہنے کو تو قبول کر لیتے ہیں مگر اپنے ملک واپس نہیں جانا چاہتے‘ تو ایسی صورتحال والے ملک میں بھارت ٹورازم اور ٹرانسپورٹ کے نام پر بھاری سرمایہ کاری کیوں کرتا رہا ہے؟ اور یہ قونصل خانے کس مقصد کیلئے کھولے گئے تھے؟ بھارت نے گوادر کی ضد میں ایران کے ساتھ مل کر چابہار بندرگاہ کا منصوبہ بھی شروع کیا تھا، اس منصوبے کا اصل مقصد سی پیک کو نقصان پہنچانا تھا جس کا ادراک ہونے کے بعد ایران نے اس منصوبے میں سے بھارت کو نکال باہر کیا اور چین کو شامل کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ جو سرمایہ اس منصوبے کی نذر ہوا‘ اس کا جواب کون دے گا؟ یہاں سب سے اہم سابق امریکی صدر ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بیان کا تمسخر اڑایا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم نے لاکھوں ڈالرز لگا کر افغانستان میں ایک یونیورسٹی اور لائبریری بنائی ہے، صدر ٹرمپ نے طنزاً کہا: جتنا سرمایہ بھارت نے افغانستان میں لگایا ہے‘ اتنی رقم ہم روزانہ افغانستان میں خرچ کرتے ہیں۔ بھارت سے متعلق ایک انتہائی غیر معمولی خبر جس کو دبا دیا گیا‘ وہ رواں سال مارچ میں بھارت کی ملٹری اکیڈمی میں افغان اور وسطی ایشیا کے زیرِ تربیت افسروں کے ہاتھوں بھارتی زیر تربیت افسروں کی بری طرح پٹائی تھی جس میں بھارتی کیڈٹ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ اپنے بیان میں زخمی کیڈٹس نے کہا تھا کہ ہمیں یوں لگا جیسے ہم پر جنوں‘ بھوتوں نے حملہ کر دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد کیا اقدامات کیے گئے‘ کوئی خبر میڈیا تک نہیں آئی۔
اب چلتے ہیں بھارت چین کی سرحد کی جانب،جس پر تقریباً 3500 کلومیٹر طویل سرحد پر بھارت اور چین کا تنازع چل رہا ہے۔ اس تنازعاتی سرحد کا ایک حصہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا وہ علاقہ ہے جو چین کی سرحد کے ساتھ لگتا ہے۔ مقبوضہ وادی کے لداخ والے حصے پر اس وقت چین کا قبضہ ہے، گزشتہ سال اسی علاقے میں چین کی آرمی کے ہاتھوں بھارت کے بیس سے زائد فوجی بشمول ایک افسر ہلاک ہوئے تھے۔ اس سال بھی جون کے مہینے میں چین کے فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی آرمی کو شرمندگی سے بھرپور مار اور مرمت کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ خبر بھی دبا دی گئی۔ لداخ کے اس علاقے میں چین کی آرمی کئی کلومیٹر تک نہ صرف اندر گھسی ہوئی ہے بلکہ تاحال یہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ چین کے اس اقدام کا مقصد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سے گزرنے والی سی پیک کی سڑک کا تحفظ کرنا ہے، جس کے متعلق نہ صرف بھارت دھمکاتا رہا ہے بلکہ اس منصوبے کو تخریب کاری سے سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی کر چکا ہے۔ اسی لیے چین نے اب بھارت کی مرمت کا مستقل سامان کرنا شروع کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی بات کریں تو چین کا شکرگزار ہونا پڑتا ہے جس نے بارہا اپنے بیانات کے ذریعے بھار ت سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاستِ کشمیر کے سابقہ سٹیٹس کو بحال کرے۔ مقبوضہ وادی کی طرف جائیں تو وہاں سے خبر ملتی ہے کہ جو بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ڈھانے کیلئے تعینات کی گئی ہے‘ اس میں خودکشی کا رجحان کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک کی فوج کو اگر غیر انسانی طریقوں اور مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو نہ صرف اس کا مورال گر جاتا ہے بلکہ اس میں ذہنی انتشار اور تنائو بھی بڑھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی فوج کی مثال لے لیں جس کے متعلق امریکی صدر نے خود اعتراف کیا تھا کہ لاکھوں فوجی‘ جو افغانستان میں تعینات رہے‘ ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسی طرح عراق اور افغانستان میں لڑنے والے ہزاروں امریکی فوجیوں نے ایک مظاہرے کے دوران اپنے میڈلز اور تمغے نہ صرف سڑکوں پر پھینک دیے تھے بلکہ امریکی حکومت کی جنگی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔متعدد بھارتی فوجیوں کی وڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں جس میں وہ اپنی خراب حالت کا گلہ ہی نہیں‘ اس پر احتجاج بھی کرتے نظر آئے۔
اب ذکر آج سے تقریباً چار سال قبل دیے گئے ایک بیان کا‘ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ بھارتی آرمی اڑھائی محاذوں پر نہیں لڑ سکتی۔ یہ بیان کسی عام شخص کا نہیں بلکہ بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف کا تھا۔ اس بیان کے مطابق ایک محاذ پاکستان کا ہے، دوسرا چین جبکہ نصف محاذ بھارت کے اندر جاری علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔ اب چار سالوں بعد یہ فرق پڑا ہے کہ نیپال جیسا چھوٹا سا ملک بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے، بھوٹان سے بھی بھارت کے تعلقات بہتر نہیں رہے، سری لنکا اور مالدیپ پہلے ہی اپنی ایک ایک بندرگاہ چین کو لیز پر دے کر واضح طور بھارتی تسلط سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اب بھارت کا سارا دارو مدار افغانستان پر تھا‘ وہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ یہاں اگر بات کی جائے کورونا کی تو اس وبائی مرض سے تو دنیا کے بڑے بڑے ممالک لڑنے سے قاصر ہیں۔ اس تناظر میں بھارتی کورونا ویری اینٹ‘ جسے ڈیلٹا کا نام دیا گیا ہے‘ بھارت کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے اور اب ایک بار پھر بھارت کے اندر آکسیجن کی قلت پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے۔ یقینا اب بھارت کے ناقابلِ تسخیر اڑھائی محاذ‘ پانچ سے بھی زائد ہو چکے ہیں مگر بھارت اپنے وسائل KPL کو روکنے یا اسے سبوتاژ کرنے پر صرف کر رہا ہے حالانکہ اس میں سکت پانچ یا اڑھائی تو کجا‘ کسی ایک محاذ پر لڑنے کی بھی نہیں رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں