تہذیبی ٹکرائو سے تصادم تک

دنیا کی تاریخ انتہائی اہم موڑ پر ہے‘بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تاریخ بہتری کی جانب گامزن ہے۔سیاسی ماہرین میں ایک بحث چلاکرتی تھی کہ دنیا میں ایک عالمی طاقت(uni polar) کے ہونے سے زیادہ امن ہوتا ہے یا کہ دو عالمی طاقتیں ( Bi- Polar)ہوں تو زیادہ امن ہوتا ہے ؟اس بحث میں ایک دلیل ایسی تھی جو یہ ثابت کرتی تھی کہ دو طاقتیں ہوں تو امن تباہ ہو جاتا ہے ‘اس سلسلے میں سرد جنگ کا حوالہ دیا جاتا تھا جس میں روس اور امریکہ کی شکل میں دو عالمی طاقتیں آپس میں برسرپیکار رہیں۔یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے ختم ہوتے ہیں شروع ہوگئی ۔اس جنگ کا بنیادی مرکز روس کی جانب سے کمیونزم کے پھیلائو کی نرم سے زیادہ سخت گیر جنگی کوششیں تھیں‘ جبکہ امریکہ اس پھیلائو کو روکنے میں جنگی بنیادوں پر عالمی سطح پر کوششیں کر رہا تھا ۔اس جنگ کو سرد کہنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان ایک دوسرے پر براہ راست حملہ کرنے کا آپشن موجود نہیں تھا مگرایک نقطہ بہت اہم ہے‘وہ یہ کہ آپس میں حملہ نہ کرنے کے علاوہ باقی پوری دنیا میں گھمسان کے معرکے برپا ہوئے۔ویتنام میں امریکہ بیس سال لڑتا رہاجبکہ افغانستان میں روس تقریباً دس سال لڑا۔ دونوں کا مقدر ناکامی ہی ٹھہرا حالانکہ دوسر ی عالمی جنگ میں دونوں ہی فاتح تھے۔ان دو جنگوں کے علاوہ بھی پوری دنیا میں جنگی کیفیت رہی‘حکومتوں کو بزور طاقت بنانا اور گرانا عام سی بات تھی جبکہ روس تو مشرقی یورپ کے ممالک میں فوج کشی بھی کرتا رہا ۔روس کے ٹوٹنے پر یہ جنگ ختم ہو گئی اور امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور دنیا کا تھانیدار بن گیا ۔
امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے اپنی حکمرانی شروع کی تو خیال تھا کہ دنیا میں امن ہوگا ‘مگر یہ بحث بالکل ہی الٹ کر رہ گئی جب امریکہ نے خود ساختہ ''وار آن ٹیرر‘‘کے نام پر مسلم ممالک کوزیر عتاب کر لیا ۔یہاں ایک پہلو بہت زیادہ قابلِ غور ہے‘جنگ تو ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے جبکہ امریکہ کے مقابلے کاتو کوئی تھا ہی نہیں اس لئے اس جنگ کو War on Terror کی بجائے War in the name of Terrorمناسب معلوم ہوتا ہے اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ جنگ نہیں تھی تو اس کی نوعیت کی بنا پر اس کا نام دہشت گردی کے خلاف یا دہشت گردی کے نام پر جنگ بھی نہیں بنتا بلکہ اس کو Attack in the name of Terror بنتا ہے۔عراق پر سب سے پہلے حملہ کیا گیا جو بڑے پیمانے کے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نام پر کیا گیا‘ مگر عراق کے پاس یہ ہتھیار سرے سے تھے ہی نہیں۔ اس بات کا اقرا ر برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بر ملا کر بھی دیا تھا۔امریکہ کو ایک پروفیسر نے تہذبوں کے ٹکرائو کا ایک خود ساختہ تصور پیش کیا تھا بلکہ یوں کہا جائے کے اس سے پیش کروایا گیا تھا ۔عالمی سطح پر اس نظریہ کا خوب چرچا کیا گیا ۔اس کے تحت مغرب کو چین اور مسلم تہذیب سے خطرہ قرار دیا گیا ۔واضح رہے کہ اس وقت چین بھی معاشی طور پر تیسری دنیا کا ملک گنا جاتاتھا ۔اسی بہانے کے تحت دنیا کے تقریبا ً90 فیصد ممالک کو مسلح مسائل کا شکار کر دیا گیا ۔افغانستان پر امریکی حملہ اور موجودگی کے بعد پاکستان بھی جنگی حملے کی کیفیت میں آگیا‘ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان کو جنگی صورتحال سے دوچار کردیا ۔واضح رہے کہ امریکہ نے یہ سب اقدامات پانچویں نسل کی جنگ کے تحت کئے ۔اسی لئے یہ جنگ غیر اعلانیہ اور مخفی طریقوں سے مسلط کی گئی۔سب سے زیادہ بلکہ سرا سر نقصان مسلم ممالک ہی کا ہو رہا تھا جبکہ دہشت گردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر ہی تھوپ دیا گیا ۔یہ سب مغربی میڈیا پرلکھنے اور بولنے والوں کی مدد سے کیا گیا ۔تاحال پانچویں نسل کی جنگ کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی کہ نقصان اٹھانے والوں ہی کو ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے ۔
اب دنیادوبارہ Bi-Polarہو چکی ہے ‘چین بجا طور پر تقریبا ً2010 ء سے اپنے آپ کو عالمی طاقت منو اچکا ہے‘چونکہ چین کو بھی امریکہ کی افغانستان میں موجودگی سے خدشات لاحق تھے ‘اس لئے اندرون خانہ اس نے روس کے ساتھ اپنا کردار افغانستان میں نبھاناشروع کر دیا ۔اس سلسلے میں بخوبی اندازہ پہلے سے تھا کہ چین افغانستان میں اپنی مدد اور تعلقات طالبان سے جاری رکھے ہوئے ہے ۔یہ مضبوط قیاس اس وقت یقین میں بدل گیا جب طالبان نے سب سے پہلے روس کے علاوہ چین سے تعلقات استوار کئے‘بلکہ سب سے پہلے میڈیا کوریج کے ساتھ سب سے پہلا دور ہ بھی طالبان قیادت نے چین کا ہی کیا۔ چین نے انتہائی کامیابی سے طالبان کی شدت کم کرنے اور موثر سیاسی حکمت عملی کی تربیت بھی جاری رکھی۔یہی وجہ ہے کہ طالبان نے واضح بیان دیا ہے کہ چین ہی افغانستان کی ترقی کرے گا۔ طالبان کے رویہ میں حیرت انگیزبلکہ ناقابل یقین تبدیلی ان کی لمبے عرصے سے جاری وہ تربیت ہے جو ان کیلئے ہر طرح کے تعاون کے ساتھ بطور شرط کی گئی تھی ۔سب سے اہم بات طالبان کا ایران کے ساتھ دوستانہ رویہ ہے۔ہم خبروں میں یہ دیکھ اور سن ہی چکے ہیں کہ طالبان نے محرم میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو نہ صرف تمام طرح کی مذہبی آزادی دی‘ تحفظ فراہم کیا بلکہ بعض مجالس میں شریک بھی ہوئے۔واضح رہے کہ طالبان کے پہلے دورمیں نہ صرف محرم کے مہینے میں ہر طرح کی پابندیاں ہوتی تھی بلکہ اس تناظر میں طالبان کے ایران کے ساتھ تعلقات اتنے کشیدہ تھے کہ ایک دفعہ تو جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔یہ موجودہ اسلامی دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی مثال ہے کہ دو فرقوں میں مکمل ہم آہنگی معرض وجود میں آئی ہے۔اس سلسلے میں ایران اور چین کا معاشی تعاون کا معاہدہ مرکزی کردار ادا کر گیا ہے کیونکہ ایران کے پاس بھی چین کے علاوہ عالمی دنیا میں کوئی سپورٹ اور تعاون موجود نہیں۔مزید یہ کہ چین کا میڈیا افغانستان کے حالات اور ان کی مثبت تصویر ابھار رہا ہے ۔سب سے زیادہ حیران کن بات طالبان کا خواتین کو حکومتی ڈھانچے میں جگہ دینا ہے‘جس سے ان کے عالمی تشخص میں بھی نمایاں مثبت تبدیلی لازمی آئے گی۔
اس بات میں اب کوئی دوسری رائے نہیں کہ چین کی سربراہی میں ایشیا کا ایک بلاک بنتا نظر آرہا ہے۔اگرچہ اس بلاک میں چین کے ساتھ روس کے علاوہ کوئی بڑی طاقت نہیں ہے مگر پاکستان‘ ترکی اور ایران کی شکل میں درمیانے درجے کی طاقتیں ضرور موجود ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کی ان ممالک میں اب امن قائم ہو رہا ہے اور خوشحالی کی امید بننے لگی ہے۔اب بجا طور تہذیبوں کے ٹکرائو کے نظریہ کی ایک بات وقت گزرنے کے بعد درست معلوم ہو رہی ہے کہ اب مغربی تہذیب کا تصادم چین کی تہذیب کے ساتھ شروع ہو چکا ہے ۔چین مشرقی تہذیب کا علمبردار ہے اور چین والے اس بات پر واضح رائے رکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ جدید ضرور ہونا چاہیے مگر وہ کہتے ہیں کہ ماڈرن ہونے کا مطلب مغربی ہونا ہر گز نہیں ہے۔ اسی لئے چین اپنے ملک میں اپنے کلچر کوہر طرح کے غیر ضروری طور مغربی ہونے سے بچاتا ہے۔ چرچل نے کمیونزم کو روکنے کے اقدامات کو'' لوہے کے پردے ‘‘سے تشبیہ دی تھی‘اب چین والے مغربی ثقافتی یلغار کو روکنے کے اپنے اقدامات کو ''بانسوں کا پردہ ‘‘کہتے ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب چین اور امریکہ میں جو ہر شعبۂ زندگی میں ایک جنگ نما مقابلہ جاری ہے ‘ دیکھنا یہ ہے کی اس جنگ کا فاتح کون ہوتا ہے‘ کیونکہ مقابلہ برابری کا ہے تو اس کو مغربی تہذیب یا مغربی کلچر کی یلغار نہیں بلکہ بجا طور تہذیبوں کا تصادم کہا جا سکتا ہے ۔دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ اس Clash of Civilizationsمیں Crash کون کرتا ہے۔تا حال چین فاتح جا رہا ہے جبکہ ماضی میں مغربی تہذیب کا مسلم تہذیب سے تصادم نہیں بلکہ حملہ تھا جو دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے نام پرتھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں