ترجمے کا عالمی دن

ماہرین کے مطابق لوگ مذہب کے بعد جس چیز کے متعلق بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ ان کی ماں بولی یا قومی زبان ہے۔ اسی طرح کوئی بھی شخص بعد میں کوئی اجنبی زبان چاہے جتنی بھی سیکھ لے مگر اس کی جو گرفت اپنی زبان پر ہوتی ہے وہ کسی دوسری زبان پر نہیں ہو سکتی۔دنیا میں ترقی کی ایک جہت یہ تھی کی اس کا واسطہ کسی دوسرے علاقے کے لوگوں سے پڑنا شروع ہوا ۔اس میل جول میں ایک رکاوٹ زبان کی سمجھ بوجھ کی بنتی تھی اور اب تو یہ ایک لازم اور مسلط حقیقت اور ضرورت ہے کہ انسان کوئی دوسری زبان ضرور سیکھے‘ بالخصوص اگر اس کا تعلق کسی ایسے ملک سے ہے جہاں انگلش مقامی زبان نہیں ہے ۔
آپ چین جیسی عالمی طاقت کو ہی لے لیں جو اپنے ہی کلچر کے مطابق ہر چیز کرتے ہیں تاکہ ان کی عالمی برتری کو مانا جائے ‘لیکن جب بھی چینیوں کو اپنی بات دوسروں تک پہچانی ہوتی ہے تو وہ اس کو انگلش زبان میں کرتے ہیں ‘چاہے یہ سوشل میڈیا ہو ‘ان کا کوئی عالمی چینل ہو یا پھر ان کے کسی اعلیٰ عہدیدار کی تقریر۔اس وقت جس زبان کا سہارا لینا پوری دنیا کی مجبوری بن چکی ہے وہ انگلش ہی ہے۔اسی لئے بحیثیت دوسری زبان انگلش دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اس زبان نے اتنی ترقی کر لی ہے یا اس میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کر دی گئی ہیں کہ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ زبان بن چکی ہے۔ ان مشکلات میں ایک بڑا اضافہ امریکیوں نے کیا ہے ‘یعنی جب آپ کسی انگلش لفظ کی ادائیگی کرتے ہیں تو دیکھنا پڑتا ہے کہ آپ نے یہ لفظ برطانوی تلفظ میں بولا ہے یا امریکی تلفظ میں ۔اس وجہ سے یہ زبان پیچیدہ ہو چکی ہے ‘کچھ اسی طرح کا معاملہ کچھ الفاظ کے سپیلنگ کا بھی ہے ۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی عالمی حکمرانی میں دیگر مشکلات اور رکاوٹوں کے ساتھ امریکہ نے انگلش زبان کو بھی مشکلات کا شکار کیا ہے ۔اس کے پس پردہ سوچ اور فلسفہ بھی سمجھ لیں کہ امریکیوں نے ایسا کیوں کیا ‘بات صرف اتنی ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی اپنی پہچان کی بھی گونج سنائی دے اور وہ گونج ''امریکی انگلش‘‘ کی ہو۔ اس طرح امریکی انگلش کی شناخت کو برطانوی زبان سے بدلانا چاہتے تھے ‘اسی لئے اپنا تلفظ‘سپیلنگ اور لہجہ بھی متعارف کروایا ۔
جب بات اپنی مقامی زبان سے ہٹ کر دوسری زبان کی ہوتی ہے تو در اصل یہ ترجمہ کی بات ہو جاتی ہے ۔اگر آپ کسی بھی چینل پر انگلش میں خبر سنتے ہیں یا اخبار میں پڑھتے ہیں تو آپ در اصل ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ترقی اور تخلیق میں عالمی برتری رکھنے والی طاقتیں جدید علوم یا پھر علوم کی جدید شکل کو اپنی زبان میں کتابوں کی صورت میں لکھتی ہیں ‘جس سے استفادہ کرنے کیلئے دیگر ممالک یا تو اس زبان کو سمجھتے ہیں جن لوگوں کیلئے زبان سیکھنا ممکن نہیں ہوتا وہ ان کتابوں کا ترجمہ کرتے ہیں ۔
اسی لئے تر جمہ کی مہارت حاصل کرنا دنیا کے لوگوں کیلئے ایک لازم مہارت کا درجہ رکھتا ہے ۔اسی تناظر میں 30 ستمبر ترجمہ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔کسی بھی زبان میں کہی جانے والی بات کو کسی دوسر ی زبان میں ترجمہ کرکے پیش کرنا انتہائی مہارت کا کام ہے ‘کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی دوسری زبان کو سیکھنے کا مطلب ہے کہ آپ نے دوسری روح حاصل کر لی ۔اسی طرح کسی دوسری زبان کے الفاظ کی ادائیگی کا درجہ ایک نشے سے کم نہیں۔ ورجینیا وولف کے بقول language is wine upon the lips ۔
اب بات کرتے ہیں تراجم کی وجہ سے ہونے والی فاش غلطیوں کی جس وجہ سے معنی اور ادائیگی بدل جاتے ہیں ۔آپ نے اکثرلوگوں کو پریشانی کے وقت ایک لفظ بولتے سنا ہو گا اور یہ لفظ Frustration ہے یعنی ہم اس لفظ کو پریشانی سے منسوب کر کے منفی لفظ بنا دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے ۔
اس لفظ کو عام یا روز مرہ کی پریشانی کے اظہار کے طور پر نہیں بولنا چاہیے کیونکہ اس کا اصل مطلب کچھ یوں ہے کہ اگر آپ نے کوئی مقصد یا منزل حاصل کرنے کا عزم کیا ہوا ہے اور آپ ابھی کوشش کرنے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں ‘اس دوران جس ذہنی کشمکش سے آپ دوچار ہوتے ہیں اس کیفیت کو بیان کرنے کا نامFrustrationہے۔ آپ اس کو مثبت پریشانی بھی کہہ سکتے ہیں۔دوسرے لفظ کا ذکر تو یہ Eliteہے جس کو اُردومیں لکھتے وقت ایلیٹ لکھا جاتا ہے‘جس کی وجہ سے اس کی ادائیگی بدل جاتی ہے جبکہ اس کو اُردو میں لکھتے ہوئے الیٹ لکھا جانا چا ہیے ۔اسی طرح ایک لفظ برسٹ لکھا اور بولا جاتا ہے یہ انگلش زبان کا لفظ Burstہے‘ اس لفظ کو بولتے ہوئے انگلش کے اصول کے مطابق ''بسٹ‘‘ بولا جاتا ہے یعنی ہم ''ر‘‘کا اضافہ کرکے اس کے تلفظ کو ایک نیا بلکہ غلط رنگ دے دیتے ہیں ۔
قوموں کی ترقی کیلئے علم لازم ہے اور علم حاصل کرنے کیلئے مقامی زبان آسانی پیدا کرتی ہے ۔اب اس کیلئے اگر کوئی ہمارے جیسا ملک غیر ملکی زبان پر انحصار کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسری زبان کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کیلئے نئے الفاظ ایجاد کریں۔ جس طرح ہم انگلش زبان میں لکھی گئی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں ‘لیکن عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم انگلش کے الفاظ کو اردو حروف تہجی میں لکھ کر گزارہ کرتے ہیں ۔اصل میں ہوتا یوں ہے کی جس زبان کے بولنے والے کوئی بھی چیز ایجاد کرتے ہیں تو وہ اس کو نیا نام بھی اپنی زبان کا دیتے ہیں ‘مثال کے طور پر موبائل فون‘کمپیوٹر ‘لیپ ٹاپ وغیرہ ۔اب مزہ تو تب ہے اگر ہم اپنی زبان میں ان چیزوں کیلئے الفاظ نئے بنائیں ۔
آپ کو ایک دلچسپ مثال دیتا ہوں ‘ہم نے جو ایک چیزایجاد کی ہے وہ کرکٹ کے کھیل میں ہے سپن باؤلنگ میں ایک نئی طرز کی گیند ہے جس کو ہم نے ''دوسرا‘‘ کا نام دیا تھا۔ اب دوسرا تو ہماری زبان کا لفظ ہے لیکن انگلش کمنٹری میں بھی اس کو دوسرا ہی بولا جاتا ہے حالانکہ اس کو با آسانی سیکنڈ کہا جا سکتا تھا مگر انگریز کمنٹری کرنے والوں کی ایمانداری ماننی پڑے گی کہ وہ اس لفظ کو اصل طور پر ہی بولتے ہیں ۔مزید اہم بات یہ ہے کہ انگلش میں صرف ڈی(D)حرف تہجی ہے جبکہ ہمارے ہاں ''د‘‘ اور ''ڈ‘‘دو حروف ہیں ۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انگریز اس لفظ کو اپنے حرف تہجی سے لکھیں اور بولیں تو یہ Dosraیعنی ''ڈوسرا‘‘بن جائے گا ‘مگر وہ الفاظ اور زبان کی اہمیت کے قائل ہیں اس لئے وہ اپنی زبان کے قواعد کے بر عکس جاتے ہوئے ڈی کی آواز کو دال (د) بولتے ہیں۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھی کچھ ایسا ایجاد کیا ہے جس کی بنا پر گورے ہمارا لفظ بولنے پر مجبور ہیں۔یہاں پر ہم ایک تاریخی بھول کر چکے ہیں‘ وہ کرکٹ کے کھیل ہی کی نئی شکل بیس ‘بیس اوور کامیچ ایجاد کرتے ہوئے ہم نے اسے ٹی ٹوئنٹی کا نام دیا اگر ہم اس کو بیس‘ بیس یا ''ب بیس‘‘ کا نام دیتے تو آج اس طرز کے میچ کا نام بھی گورے ہماری زبان میں ادا کر رہے ہوتے۔یہ تو بھلا ہو ثقلین مشتاق کا جس نے نئی طرز کی گیند کا نام اُردو میں رکھا ۔جب بھی کوئی انگریز ''دوسرا ‘‘کا لفظ بولتا ہے توlanguage is wine upon the lips کا احساس ضرور ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں