ایک چینل پر حالاتِ حاضرہ کے موضوع پر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ جاری تھی، اچانک اینکر پرسن نے بتایا کہ اب ہمارے ساتھ بھارت کے مشہور صحافی کلدیپ نائر بھی شریکِ گفتگو ہوں گے۔ اینکر پرسن نے تینوں تبصرہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے دو سوال فی کس پوچھنا ہیں، میرا نمبر تیسرا تھا جس کی وجہ سے دیگر دو مہمانوں کے سوالات سننے کے بعد اپنے سوالات تیار کرنے میں میرے لیے مزید آسانی ہو گئی۔ جب میری باری آئی تو میرا پہلا سوال تھا کہ جب بھی بھارت کے اندر فسادات ہوتے ہیں تو ہر دو فریقوں میں ایک فریق ہندو ہی کیوں ہوتے ہیں۔ مزید تشریح کرتے ہوئے پوچھا کہ بھارت میں متنوع قسم کے لوگ آباد ہیں، سکھ، مسلمان، بودھ، عیسائی، پارسی، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں مگر جب کبھی وہاں کوئی جھگڑا مذہب کی بنیاد پر ہوتا ہے تو دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں کبھی نہیں لڑتے پائے گئے،جب بھی فسادات اور جھگڑے ہوئے تو ہندوئوں کے ہی دیگر اقلیتی گروہوں کے ساتھ ہوئے۔ اس کے جواب میں کلدیپ صاحب نے کہا: نہیں! ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ دو اقلیتی مذاہب کے گروہ آپس میں جھگڑ پڑیں مگر جب میں نے پوچھا کہ کوئی ایک بڑی مثال، تو کلدیپ صاحب کو اعتراف کرتے ہی بنی۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ پاکستان تو کبھی سرد جنگ کا شکار ہو گیا، کبھی جمہوریت کی ٹرین پٹڑی سے اتر گئی مگر آپ کے ہاں (بھارت میں) کبھی ایسا نہیں ہوا مگر پھر بھی بھارت معاشی سطح پر وہیں کھڑا ہے‘ جہاں پاکستان ہے (یعنی کوئی واضح ترقی نہیں ہو سکی، ہمارے یہاں تو جمہوریت ڈی ریل ہونے یا افغان جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کو ترقیٔ معکوس کی وجہ بتایا جاتا ہے)۔ اس کے جواب میں کلدیپ صاحب ابھی اتنا ہی کہہ سکے تھے کہ 'بہتری آ رہی ہے‘تو لائن کٹ گئی۔ اس کے بعد پروگرام کے اینکر نے مجھ سے ان سوالات کی مزید تشریح پوچھنا شروع کر دی۔ خاکسار نے عرض کی کہ بھارت بنیادی طور پر مذہبی شدت پسند ریاست ہے جہاں برہمن کی ''ہندوتوا‘‘سوچ بھاری ہے، جبکہ دیگر مذاہب کے لوگ اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ برہمن کے علاوہ دیگر ہندو‘ بالخصوص نچلی ذات کے شودر ہندو بھی سخت قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسرے سوال کے حوالے سے میرا کہنا تھا کہ پورے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت میں‘ ترقی کا تصور ایک افسانوی بات ہے یا صرف سیاست دانوں کے انتخابی بیانات کی حد تک محدود ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح سے ہے کہ دونوں ملکوں میں اصل مسئلہ کرپشن ہے نہ کہ جمہوریت کا ہونا یا نہ ہونا۔ دوسری بات؛ دونوں ملکوں میں ہر طرح سے بڑا ملک بھارت ہی ہے اور ایسی صورت میں زیادہ اختیار بھی بڑے ملک کے پاس ہوتا ہے، پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے‘ یہ بات پاکستان سے زیادہ بھارت کے اختیار میں ہے، اگر بھارت ہر وقت ہم پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دیتا رہے، فوج کشی اور جیسے کہ آج کل سرجیکل سٹرائیک کا رونا روتا رہے تو اپنی بقا اور دفاع کے لیے ہماری یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ ہم اپنا دفاع ہر لحاظ سے مضبوط رکھیں۔
یہ واقعہ اس لئے یاد آ رہا ہے کہ آج کل پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی اور شدید ترین مہنگائی ایک عفریت کی طرح لوئر کلاس ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس کیلئے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ اسی سلسلے میں ایک بھارتی چینل پر نشر کردہ ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پٹرول کے بڑھتے نرخوں، نوکریوں کی عدم دستیابی، کھانے پینے کی اشیا کی ناقابلِ برداشت قیمتوں، گیس‘ ریلوے ٹکٹ اور سب سے بڑھ کر 'ڈش انٹینا‘ کی فیس کے ڈبل ہوتے بھائو کا رونا رویا جا رہا تھا، اس وڈیو کا سب سے اہم حصہ وہ لگا جس میں یہ کہا جا رہا تھا کی کرپشن کے میگا سکینڈلز کو پکڑنے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے حکومتی دعووں کا بھی کچھ نہیں بنا۔ اس تناظر میں کچھ بینکوں اور بڑی رقوم لوٹنے والوں کے بیرونِ ملک فرار ہونے والوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا۔ اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ دونوں ملکوں کے بنیادی مسائل ایک ہی ہیں اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ اگر ان دونوں ملکوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس آئے تو دونوں ملکوں کے لوگوں کو نہ صرف عارضی ریلیف بلکہ مستقل معاشی استحکام بھی میسر آ سکتا ہے۔ یہ خطہ کبھی معاشی طور پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتا تھا جس کی وجہ سے اسے ''سونے کی چڑیا‘‘کہا جاتا تھا۔ اسی طرح آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا خطہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ بھی تھا۔
اس خطے کی بربادی کی داستان انگریز کے غاصبانہ قبضے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی صنعتی ترقی جاری رکھنے کیلئے یہاں سے خام مال لے کر جاتا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری سے شروع ہوا تھا مگر برطانیہ میں کپاس کی ایک پھٹی بھی کاشت نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے برطانیہ کی کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے ساری کپاس جنوبی ایشیا ہی سے جاتی تھی۔ اس کا واضح ثبوت جنوبی ایشیا سے انخلا کے بعد برطانیہ میں اس صنعت کا زوال ہے۔ گورے نے اپنی جمہوریت کے برعکس یہاں بے انتہا طاقت والے بیوروکریسی کے نظام کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اسی کی مدد سے اپنے اقتدار کو دوام بھی بخشا۔ اس کے علاوہ جو سب سے بھیانک پالیسی یہاں اپنائی گئی وہ یہاں کے مذاہب کے لوگوں میں ایک خلیج پیدا کرنا تھی۔ برطانوی راج سے پہلے اس خطے میں مسلمانوں کا راج تھا مگر دیگر مذاہب سے کسی قسم کے فسادات کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ جب حکومت یںدو یا زیادہ فریقوں میں فسادات کراتی ہیں تو جو پالیسی اپناتی ہیں اس کو POGROM کہا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں جینوسائیڈ کا لفظ کسی خاص مذہب، نسل یا زبان کے لوگوں کی نسل کشی کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن Pogrom میں حکمران ریاستی مشینری کی مدد سے ا یسے حالات پیدا کر دیتا ہیں جس کے نتیجے میں فسادات لازم ہو جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال تقسیمِ ہند کے فسادات ہیں۔ آپ تھوڑی سی توجہ دیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ برطانیہ نے کتنا بڑا Pogrom کرایا۔ اگر لاکھوں لوگوں کی ہجرت لازم تھی تو برطانیہ بڑے آرام سے دس ہزار کی آرمی تعینات کر کے ان فسادات کو روک سکتا تھا، آزادی کا اعلان کچھ پہلے کرنے سے لوگوں کو ہجرت کیلئے زیادہ وقت میسر آجاتا۔ اسی طرح ہجرت کیلئے خصوصی ٹرینیں چلائی جا سکتی تھیں مگر ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا اور قصداً ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہو۔
اب بات اس Pogrom کی‘ جو برطانیہ کے انخلا کے بعد پید ا ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ اس سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ گورے کے یہاں سے جانے کے بعد بھی برطانیہ نے یہاں پر اپنا عمل دخل برقرار رکھا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کے سیاسی مفرور ہوں یا معاشی لٹیرے‘ ان لوگوں کو وہاں پر انتہائی پُر تعیش اور بلاخوف و خطر پناہ ملتی ہے۔ اس کے بعد آپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تاحال سپر پاور امریکا کی جنگی اور فساداتی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا۔ امریکا نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مسلمان ممالک سے متعلق Pogrom کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس پالیسی کو Contasiaکہا جاتا ہے۔ یہ لفظ Contain اور Asia سے بنا ہے جس کا مطلب ایشیا کو Contain کر کے رکھنا ہے۔ کھلے عام یہ پالیسی روس کے خلاف تھی مگر آج کل اس کا محور چین ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اگر ایشیا میں چین جیسی طاقت استحکام پکڑتی ہے تو امریکا کا عمل دخل ایشیا میں کم ہو جائے گا۔ چین کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے پورے خطے میں امن کی ضرورت ہے جس کیلئے امریکا اور برطانیہ کے ایشیا میں عمل دخل کو Containکرنا ناگزیر ہے تاکہ ان دونوں طاقتوں کا Pogrom ختم ہو سکے۔