پہلا اعتراف اور رہائی

ہم سب عام زندگی میں ایک اظہار یا لفظ تواتر سے بولتے ہیں مگر کم لوگوں کو ادراک ہوتا ہے کہ یہ عالمی سیاست کا ایک بہت بڑا فلسفہ ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ سرکاری دفاتر میں بالخصوص اور رشتہ داروں یا دوستوں میں بالعموم ‘کسی سازشی حرکت کا خدشہ ہونے پر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں بندہ gameڈال گیا ہے ۔یا پھر مشکوک حرکات کا اندیشہ ہونے پر کہا جاتا ہے کہ کوئی گیم ہو رہی ہے۔در اصل عالمی سیاست میں اس کو'' گیم تھیوری ‘‘کہا جاتا ہے۔کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے یا دیگر جنگی کیفیت سے دوچار کرنے سے پہلے حساب لگاتا ہے مثال کے طور پر یہ کہ مخالف ملک کی معاشی سکت کتنی ہے‘اس کی عسکری قوت کیسی ہے‘اس ملک کے اندر کون سے گروہ ایسے ہیں جو اپنے ملک کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کو اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے۔اگرحملہ کرنے والا جیت جائے یعنی اس کو فائدہ حاصل ہو تو اس کو Zero-sum gameکہا جاتا ہے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر Non Zero-sum game کہا جاتا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال امریکہ کو افغانستان میں ہونے والی ناکامی ہے ‘جس میں اس کے تمام حساب اور گنتیاں غلط ہی نہیں بلکہ الٹ رہیں ۔بات چلی تھی عام زندگی کی تو دفاتر میں باس کی ہمدردیاں اور فوائد حاصل کرنے کے لیے دیگر عملے کے خلاف یا کسی ایک خاص بندے کے خلاف(جو عام طورقابل اور کام کرنے والا ہوتا ہے)کوئی سازش رچائی جاتی ہے یا خوشا مد کا سہارا لیا جاتا ہے۔اس گھٹیا حرکت کیلئے بھی '' گیم ڈالی گئی‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔
اب اس تھیوری کو ایک اور زاویے سے سمجھتے ہیں ۔فرض کریں کہ پولیس (پاکستانی نہیں) کسی کو جرم کے شک میں گرفتار کر لیتی ہے‘جبکہ دونوں افراد اس جرم میں شریک بھی ہیں ۔اب پولیس دونوں افراد کو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بند کر کے تفتیش کرتی ہے ۔اس جرم کی تہہ تک پہنچنے کے لئے پولیس پہلے فرد کو ایک آفر دیتی ہے کہ اگر وہ اس جرم کا اقرار کر لے اور تفصیل بتا دے تو اس کو رہائی ملنے کا چانس پیدا ہو سکتا ہے یا سزا کم ہو گی اور اگر وہ انکار کرتا ہے تو مکمل رہائی ملے گی ‘لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کا دوسرا ساتھی کیا بیان دے گا ۔یعنی اگر دوسرے ملزم نے اقرار کر لیا اور تفصیل بتا دی تو اس کی رہائی یقینی جبکہ پہلے کو سزا لازم ہی نہیں ڈبل ہو جائے گی۔یہاں ایک بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر دونوں ہی اقرار کر لیتے ہیں تو دونوں کی رہائی ممکن ہے اور اگر دونوں ہی انکاری ہوتے ہیں تو دونوں کو رہائی کے ساتھ ‘بلا وجہ گرفتاری پر پولیس کی جانب سے ہرجانے کے طور پر نقد رقم بھی ملے گی ۔اب آپ خود فیصلہ کریں کہ پہلے ملزم کو کیا بیان دینا چاہئے‘کیونکہ اس کو بیان دینے سے پہلے یہ اندازہ لگانا ہے کہ دوسرے ساتھی کا بیان کیا ہو گا۔
اب ہم چلتے ہیں اپنی اپنی زندگی کی طرف جو بہت زیادہ بلکہ جنگی طرز پرمصروف‘تیز رفتار اور سب سے بڑھ کر صرف معاشی گرداب‘ حساب اور منافع تک محدود ہو چکی ہے ۔ پہلے سے مشکل زندگی کو مکمل مشکل شکل کورونا کی وبا نے دے دی ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا ‘نہیں تو آج کے بعد کر لیں کہ لوگوں کی معاشی سکت تو ایک طرف اب نفسیاتی سکت بھی جواب دے چکی ہے۔لوگ اپنی گفتگواور رویوں میں بہت حد تک تلخ‘قدرے جھگڑالو‘اداس اور ایک انجانے ہیجان کا شکار ہو چکے ہیں۔یہ سب بالخصوص شہری زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے ‘بلکہ ریسرچ بتاتی ہے کہ جتنا بڑا شہر ہو گا وہاں کی زندگی میں یہ عوامل اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔اس کے لئے آپ صرف گفتگو کی تیزی کا پیمانہ آزما کر دیکھ سکتے ہیں ۔اگر آپ کسی دیہات کے بندے کو کال کریں تو اس کی گفتگو کی نہ صرف رفتار کم ہو گی بلکہ وہ آپ سے صرف غرض کی باتوں کے علاوہ میل جول اور حال چال پوچھنے کی بات بھی کرے گا ۔اس کے بعد آپ کسی چھوٹے شہر کے فرد سے بات کریں تو وہ قدرے تیزی اور کام کی بات پر اکتفا کرے گالیکن اگر آپ کسی بڑے شہر سے ہیں اور آپ نے کسی بڑے شہر ہی کے بندے کو کال کی تو پہلی بات تو یہ ہوگی کہ وہ آپ کا کال سننا بھی چاہتا ہے یا نہیں(مصروف ہونا ایک علیحدہ فیکٹر ہے)۔اس کے بعد بات ہو گی تو بہت رفتار سے اور صرف کام کی بات ۔اسی طرح بہت دفعہ کال اس طرح آتی ہے کہ یار یہ کام کر دو‘مطلع کرو۔ایک منظر یہ بھی ہوتا ہے کہ کال کاٹ کر ایک پہلے سے ٹائپ میسج آجاتا ہے کہ آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں فی الحال ایک میٹنگ میں ہوں۔
اب آپ کو ایک مغربی ملک کا قصہ سناتے ہیں ۔ایک بین الاقوامی ایئر لائن میں ایک پاکستانی پائلٹ ایک امریکی پائلٹ کے ساتھ ایک فلائٹ سے واپسی پر جب ایئرپورٹ پر اترے تو امریکی پائلٹ کی کار موجود نہیں تھی تو پاکستانی پائلٹ نے اس کو لفٹ آفر کر دی ۔اس امریکی کی رہائش تک کوئی آدھ گھنٹے کا فاصلہ تھا ۔اگر آپ کو فاصلہ کلومیٹر کی بجائے وقت کے حساب سے بتانا عجیب لگا ہے تو ذہن میں رکھیں کہ وہاں پر زندگی اتنی تیز ہے کہ سفر کا حساب بھی ٹائم سے ہی لگایا جاتا ہے۔امریکی نے جھجک کے انداز میں نہ کر دی مگر پاکستانی نے اصرار کیا کہ کوئی بات نہیں وہ اس کے ساتھ آجائے‘آدھ گھنٹے ہی کی تو بات ہے‘مگر امریکی پائلٹ نہ مانا۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی اگلے دفعہ جب پاکستانی پائلٹ ڈیوٹی پر آیا تواس کو پتہ چلا کہ اس کے خلاف ایک شکایت درج ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ اس امریکی پائلٹ نے اس کی پر خلوص آفر کو مشکوک تصور کرتے ہوئے ایک خدشے کا اظہار کرتے ہوئے یہ شکایت درج کروائی تھی ۔اس پر پاکستانی پائلٹ نے وضاحت دی کہ یہ ہمارا مشرق کا کلچر ہے اور وہاں پر یہ ایک عام سی بات ہے۔ضروری نہیں کے صرف کام یا فائدے کی غرض سے کسی کے کام آیا جائے بلکہ ہمارے ہاں ایساکرتے ہوئے لوگ بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔بہر حال اس کے ریکارڈ اور عہدے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی جان کی خلاصی ہو گئی۔یہ واقعہ کوئی پانچ سال پرانا ہے۔
واپس آتے ہیں گیم تھیوری کے متعلق پوچھے گئے سوال پر تو یقینا آپ کا جواب بھی یہی ہوگا کہ نہ صرف پہلے قید شخص بلکہ دونوں کو ہی اقرار کر لینا چاہئے۔اس طرح دونوں کو رہائی مل جائے گی ۔اسی طرح ہم لوگ بھی روزمرہ زندگی میں اپنی اپنی زندگی میں قید ہو چکے ہیں ۔معاشی مسائل ایک حقیقت ہیں‘سیاسی لوگ حسبِ سابق تلخ بیانات اور حرکات میں مصروف ہیں‘ قدرتی ماحول بھی آلودگی کا شکار ہے۔لیکن معاشرتی ماحول آپ کے بس میں ہے ۔یہاں معاشرتی سے مراد پورا معاشرہ نہیں بلکہ آپ اور آپ کے ارد گرد کا ماحول ہے ۔اس پر آپ کا مکمل اختیا ر ہے اور یہ اختیا ر ایک جمہوری لیڈر کے برعکس ایک ڈکٹیٹر کی طرح کا ہے۔اس کے لئے آپ کو دوسروں کا انتظار اور شکوہ کرنے کی بجائے پہل کرنی پڑے گی اور بہت سارے نہ سہی ‘چند ایک بھی نہ سہی ‘کسی ایک ایسے دوست یا رشتہ دار کی زندگی میں اس انداز سے داخل ہوں کہ اس کو پتہ بھی نہ چلے ۔اس کو سنیں‘اس کے ساتھ وقت اس طرح گزاریں کہ اور کوئی بھی کام یاد تک نہ کریں‘ساتھ میں موبائل کی سکرین پر نظر رکھنے کی بجائے صرف دوست کے چہرے کی سکرین کو بغور دیکھیں اور اس کے ان کہے دکھ یا باتیں جاننے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف اس کی ذہنی حالت بحال ہوگی بلکہ آپ کی اپنی ذہنی سکت بحال ہوتے ہوئے بڑھنا شروع ہو جائے گی ۔ایسا کرنا بالکل پہلے ملزم کے اعتراف جیسا ہے‘جس کے اعتراف کے بعد ہی دوسرے قید شخص کا اعتراف کسی کام آئے گا اور دونوں قید سے آزاد ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں