آلودہ لاہور اور جنوبی ایشیا

آج کل لاہور ایک موسمی آفت‘ زہریلی دھند کی وجہ سے خبروں میں ہے لیکن بات صرف لاہور کی نہیں‘ یہ آفت پنجاب ہی نہیں تقریباً پورے پاکستان بلکہ اس سے بھی آگے‘ پورے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو اس وبا سے‘ سامراجی نظام سے بھی زیادہ خطرہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے ہر عمر اور ہر جنس کا بندہ‘ غریب ، متوسط اور تو اور‘ امیر لوگ بھی‘ سبھی اس کا شکار ہیں۔ اس سے پہلے پینے کے پانی کا مسئلہ درپیش آیا تھا تو امیر طبقے نے اپنے گھروں میں فلٹر لگوا کر یا بازار سے پانی خرید کر گزارہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک حد یہ بھی تھی کہ جو زیادہ امیر تھے‘ وہ امپورٹڈ پانی استعمال کر لیتے تھے لیکن سموگ کی نوعیت ایسی ہے کہ امیر لوگ اپنے گھروں، کمروں اور گاڑی وغیرہ میں تو ایئر کلینر استعمال کر سکتے ہیں لیکن روز مرہ زندگی میں‘ کہیں نہ کہیں‘ ان کو اس آلودہ ہوا کا سامنا‘ بھلے ایک جھونکے کی حد تک‘ کرنا ہی پڑتا ہے۔ چونکہ اشرافیہ کو ان مسائل کا سامنا بہت کم کرنا پڑتا ہے لہٰذا اس کے تدارک کیلئے صرف زبانی جمع خرچ اور بیانات سے لوگوں کو کھوکھلی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک صوبائی وزیر نے ایف آئی اے کو مراسلہ بھیجا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو سموگ سے متعلق پوسٹیں شیئر کر رہے ہیں۔ موصوف کے مطابق‘ اس قسم کی کوئی وبا موجود نہیں بلکہ اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر کارل مارکس کا ایک تاریخی فقرہ یاد آرہا ہے کہ اس شخص کو غربت کا کیا پتا جس نے سردی کی ٹھنڈک صرف کھڑکی کے شیشوں سے دیکھی ہو اور غربت کا ذکر صرف کتابوں میں پڑھا ہو۔ اب یہی صورتِ حال سموگ کے عذاب کو جھیلنے سے متعلق ہے کہ اگر آپ کا گھر ، گاڑی اور دفتر میں ایئر کلینر اور ایئر پیوریفائر چل رہے ہیں تو آپ کو باہر کی فضا میں موجود زہریلی دھند شاید سہانی لگ رہی ہو۔ غالباً اسی لیے اربابِ اختیار اس کوخاص توجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔
بات ہو رہی تھی لاہور شہر کی‘ جو کبھی اپنی صاف آب وہوا کی وجہ سے باغوں کا شہر کہلاتاتھا۔ وقت کی تیز آندھی نے اس شہر کی آبادی میں سالانہ چھ فیصد تک کا اضافہ کیا‘ جس کا سبب شہر کا اپنا گروتھ ریٹ اور ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ تھا، اسی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں شہر آبادی کے بے پناہ حجم تلے دھنستا چلا گیا۔ لاہور کی آبادی میں طوفانی اضافے کو جانچنے کا ایک سادہ پیمانہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی راستے سے لاہور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر آپ کو سڑک کے دونوں اطراف رہائشی کالونیوں کے بڑے بڑے بل بورڈز نظر آئیں گے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کسی جگہ پر کوئی رہائشی کالونی بنتی ہے تو وہاں پہلے سے موجود تمام درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح درختوں کی تعداد تیزی سے گھٹ جاتی ہے ۔ اگر کسی رہائشی منصوبے کی جگہ پہلے کوئی پھلدار درختوں کا باغ تھا تو نہ صرف وہ کاٹ دیا جاتا ہے بلکہ اس باغ کے پھلوں کے علاوہ ہوا کو صاف کرنے اور ہمارے سانس لینے کے لیے پیدا ہونے والی آکسیجن سے بھی شہر کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ پہلے جب اس علاقے میں بارش ہوتی تھی تو وہ زمین میں جذب ہو کر زیرِ زمین پانی کا حصہ بن جاتی تھی، اسے ہی بعد ازاں ہم لوگ زمین سے نکال کر اپنے استعمال میں لاتے تھے لیکن اینٹ ، بجری اور سیمنٹ کا انفراسٹرکچر پانی کے زمین میں جذب ہونے کی صلاحیت و سکت کو ختم کر دیتا ہے، بلکہ اس جگہ پر بڑی تعداد میں لوہے اور کنکریٹ کے استعمال سے زمین سے پانی نکالنے کا کام بھی دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے اب لاہور جیسے بڑے شہروں میں زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ لمبے عرصے تک جاری رہنے سے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ زیرِ زمین پانی ختم ہو جاتا ہے۔ دور نہ جائیں‘ کراچی شہر کو ہی دیکھ لیں جہاں روز مرہ استعمال کیلئے بھی پانی قیمتاً خریدنا پڑ رہا ہے۔
مزید آگے بڑھیں تو پتا چلتا ہے کی عمومی طور پر شہر میں‘ بالخصوص نئے رہائشی منصوبوں میں اوسط گھروں کا سائز پانچ مرلے ہوتا ہے۔ اس سائز کے گھر میں درخت لگانے کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ کالونی کے اندر طے کردہ معیار کے مطابق کھلے گرائونڈ بھی نہیں بنائے جاتے، جو بنائے جاتے ہیں ان میں پوری سکت کے حساب سے درخت نہیں لگائے جاتے۔ اس طرح اس علاقے میں آکسیجن گیس کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور مضر صحت کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے جو قدرتی فضا کو آلودہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔
اس کے بعد باری آتی ہے شہر میں رواں دواں ٹریفک کی۔ اس وقت ہمارے ہاں زیادہ تر گاڑیاں پرانی ہیں اور سفر کے دوران انتہائی گندا اور زہریلا دھواں چھوڑتی ہیں ۔ سب سے زیادہ خطرناک وہ بڑی گاڑیاں اور وہ ٹرک ہیں جو ڈیزل پر چلتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ اور نہایت مضر صحت دھواں ہوا میں چھوڑتے ہیں۔ لاہور جیسے شہر کی فضائی آلودگی میں اوسطاً ان گاڑیوں کا حصہ پچاس فیصد ہے۔ اس کے بعد شہر کے اندر موجود وہ کارخانے ہیں جو گھٹیا کوالٹی کا کوئلہ ، ربڑ کے ٹائر اور دیگر دھواں پیدا کرنے والے فیول کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے کارخانے شہر کے گردو نواح میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن کی پیدا کردہ آلودگی ہوا کے سبب شہر کا رخ کر لیتی ہے۔ پھر اینٹیں بنانے والے بھٹے آتے ہیں جو انتہائی خطرناک درجے کا دھواں مسلسل فضا میں چھوڑتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے جو بھٹوں کے دھویں کو کافی حد تک صاف کر دیتی ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھٹہ مالکان کی اینٹ بنانے کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ اس لیے وہ زگ زیگ طریقۂ کار کو صرف متعلقہ محکموں کی طرف سے متوقع چھاپے کے وقت ہی استعمال میں لاتے ہیں۔
اس کے بعد باری آتی ہے رستوں اور سڑکوں کی! آپ نے دیکھا ہو گا کہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بڑی سڑکوں پر مٹی کے ڈھیر نما ٹیلے موجود ہوتے ہیں۔ یہ مٹی تیز رفتار گاڑیوں کے گزرنے سے اُڑ اُڑ کر ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہے۔ شہر کے اطراف میں کچے رستوں پر تو مٹی کا ایک طوفان موجود ہو تا ہے۔ اس طوفان کا سبب وہ بھاری ٹرالیاں ہوتی ہیں جو مٹی سے بھری ہوتی ہیں۔ اس بھری ٹرالی کے اوپر پانی کا چھڑکائو نہیں کیا جاتا اور مٹی بھی آخری حد تک بھری ہوتی ہے لہٰذا یہ ٹرالیاں جب بڑی سڑکوں پر اترتی اور شہر میں داخل ہوتی ہیں تو مٹی کی آلودگی پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ مٹی اور ریت پھر فضا اور ہوا کا حصہ بن جاتی ہے اورہمارے سانس کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہو کر سانس، پھیپھڑوں اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ ویسے تو یہ آلودگی کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے مگر اکتوبر کے آخراور نومبر میں درجہ حرارات کم ہونے کی وجہ سے ہوا قدرے سکڑ جاتی ہے اور ایک دھند کا سا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ، چونکہ اس دھند نما کیفیت کی وجہ مٹی، غبار اور دھواں ہوتا ہے تو اس کو فوگ اور سموک کے الفاظ ملا کر 'سموگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جس کو بجا طور پر زہریلی دھند بھی کہا جاتا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی لاہور سے تو عرض یہ ہے کہ یہ زہریلی فضااس وقت پورے جنوبی ایشیا پہ چھائی ہوئی ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے شہر نمایاں ہیں‘ اس کے علاوہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے‘ بارش کب تک ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اچھی خبر یہ ہے کہ حالات ابھی بد ترین نہیں ہوئے ، لیکن بری خبر یہ ہے کہ سرِ دست ان کے اچھا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں