بھارت نے چار سے پانچ بلین ڈالر کے نئے جنگی سازوسامان خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ خبر سن کر سوچنا پڑتا ہے کہ بھارت ایسا اسلحہ خرید رہا ہے جو باضابطہ جنگو ں یعنی گرم جنگوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ یہ دور اس طرح کی جنگوں کا نہیں رہا۔بھارت کے ایک سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ بھارت اڑھائی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان اڑھائی محاذوں سے مراد ایک پاکستان‘دوسرا چین جبکہ آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو قرار دیا گیا تھا ۔مگر تا حال بھارت اپنے اندر چلنے والی تقریباً دو درجن تحریکوں سے ہی لڑنے کی صلاحیت نہیں حاصل کر پا رہا جبکہ چین بدستور بھارت کے نٹ ٹائٹ کر رہا ہے۔بھارت کی ریاست ارونا چل پردیش میں چین نے باقاعدہ اپنے گائوں قائم کر لیے ہیں ۔ان آباد کردہ بستیوں کے متعلق بھارت کے اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات آرہے ہیں۔دوسری طرف ایک ایسی فوٹو چین کی طرف سے جاری کی گئی ہے جس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا ۔ یہ تصویر لداخ ‘جو کشمیر کا حصہ ہے ‘کے علاقے کی ہے جہاں چین کی آرمی دو سال سے پیش قدمی کر رہی ہے اور اپنا پڑائو ڈال رکھا ہے۔تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ اس علاقے میں چین کے فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کو ملزموں کی طرح پکڑ رکھا ہے اور زمین پر بٹھا کر ہاتھوں سے کان پکڑنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔اس طرح کے مناظر اُس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں جب پولیس چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر اس قسم کی سزا دیتی ہے مثال کے طور پر جب کورونا آیا اور لاک ڈائون لگایا گیا تو ان دنوں میں گھروں سے بلا وجہ نکلنے والے من چلوں یا آوارہ گردوں کو پولیس پکڑ کر اس قسم کی سزا دیتی تھی۔
اب آپ کو ایک اور محاذ کی طرف لے چلتے ہیں اور وہ ہے ماحولیاتی آلودگی کا محاذ جس نے پورے جنوبی ایشیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے‘ لیکن اس کا آغاز اور سب سے بڑا مرکز بھارت ہے۔آپ سمجھ گئے ہوں گے بات ہو رہی ہے سموگ کی ۔اگر آپ انٹر نیٹ پر جا کر بھارت کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس آلودگی کی زد میں سب سے زیادہ علاقہ بھارت کا ہے۔ بارش ہو جائے تو اس شدید آلودگی سے نجات مل سکتی ہے مگر لاہور پر بارش برس بھی جائے تو کچھ دنوں میں ہوا کا رخ بھارت سے پاکستان کی طرف ہونے سے آلودگی دوبارہ ہو سکتی ہے ۔کچھ یہی خدشہ بنگلہ دیش کو بھی بھارت سے ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھارت کو الزام کس طرح دیا جا سکتا ہے‘تو چلیں اس بات کو سمجھ لیتے ہیں ۔بھارت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اس علاقے کا سب سے بڑا ملک ہے ‘ مگرعالمی سیاست کا اصول اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں جہاں ایک بہت بڑا ملک ہو اور اس کے ارد گرد چھوٹے یا بہت چھوٹے ممالک ہوں تو ان ملکوں نے کس طرح سے رہنا ہے اس کا مکمل انحصار بڑے ملک پر ہی ہوتا ہے۔آپ اس کی مثال چین سے دے سکتے ہیں جس کی سرحد چودہ ممالک سے ملتی ہے اوران ممالک میں روس جیسے بڑے ممالک بھی ہیں اور کئی چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ہیں مثلاً نیپال اور بھوٹان۔ یہ دونوں ممالک بھارت اور چین کے بالکل درمیان میں آتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے باوجود کسی ملک پر چڑھائی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ ممالک میں کسی کے ساتھ چین کی کشیدگی نہیں ‘سوائے بھارت کے ۔ چین نے بارہا کوشش کی ہے کہ بھارت بھی چین کے عالمی سطح کے معاشی منصوبوں میں شامل ہو جائے لیکن بھارت نہ صرف ان منصوبوں میں تا حال شریک نہیں ہوا بلکہ واحد علاقائی ملک ہے جو سی پیک منصوبے کی نہ صرف مخالفت کرتا ہے بلکہ اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔اس میں اہم ترین موڑ اس وقت آیا جب سی پیک منصوبے کی سڑکوں کو گلگت بلتستان میں سے اور آزاد کشمیر کے قریب سے گزرنے پر بھارت نے چین سے احتجاجی رویہ اپنایا ‘اسی لئے اب چین نے دو سالوں سے کشمیر کے علاقے لداخ میں پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت کو اہم ترین عملی جواب دے کر اپنی پالیسی اور منصوبہ واضح کر دیا ہے جبکہ بھارت کی سرحدی کشیدگی صرف پاکستان سے نہیں‘ نیپال ‘بنگلہ دیش ‘بھوٹان سے بھی جاری ہے اور سرحدیں ابھی تک واضح طور پر نہیں لگائی جا سکیں ۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی بھارت کا جارحانہ اور دخل اندازی کا سلسلہ اپنے دو انتہائی چھوٹے سمندری ہمسایہ ممالک سری لنکا اور مالدیپ سے بھی دہائیوں سے جاری ہے۔سری لنکا میں بھارتی دخل اندازی کی سب سے اہم مثال ماضی میں تامل علیحدگی پسندوں کی دہشت پسند تحریک تھی۔اس کا سرغنہ کھلے عام بھارت کے دورے کیا کرتا تھا اور بھارت کی جانب سے ان کی ہر طرح کی عسکری اور مالی مدد کی جاتی تھی۔ اس مدد کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ سری لنکا کے قریب ایک بھی ملک نہیں ہے جس کے متعلق کہا جاسکے کہ اس پر سری لنکا کے علیحدگی پسندوں کی مدد کا شک بھی کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے بعد میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اسی تحریک کے لوگوں کے ہاتھوں ایک خود کش حملے میں جان گنوا بیٹھا تھا ۔
بات ہو رہی تھی بھارت کے علاقائی بڑ ا ہونے کے حوالے سے اس کے کردار کی‘ اربوں ڈالر کے اسلحے کی حالیہ خریدکاری کی اور سموگ کی‘ تو عرض ہے کہ بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں 1983ء سے مصنوعی بارش برسانے کا عمل جاری ہے تو بہت گہری اور افسوسناک سوچ پیدا ہوتی ہے کہ یہ اس کے باوجود بھارت وہاں سموگ کی آلودگی کو کیوں ختم کرنے سے قاصر ہے؟سموگ کی حالیہ بدترین صورتحال کی وجہ سے دہلی میں بچوں کے سکول بند کر دیے گئے ہیں‘لوگ ناک اور گلے کی بیماریوں کا شکار ہیں اور دنیا کے آلودگی والے شہروں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہے ۔تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ملک اس موسمی آلودگی سے پیدا ہونے والی زہریلی دھندپر قابو پالیتا ۔اس کے لیے شاید ایک ارب روپیہ ہی کافی ہوتا ۔اگر سارے ملک میں نہیں تو چند بڑے شہروں پر ہی کر دیتا تو اس کا امیج نہ صرف بہتر ہو جاتا بلکہ اسی کی طرز پر دیگر ملک بھی چل پڑتے ۔
شروع میں ذکر ہوا تھابھارت کے اپنے اعتراف کردہ اڑھائی محاذوں کا ‘تو خیال آتا ہے کہ بھارت اب اس محاذ کو کس کھاتے میں ڈالے گا کیونکہ ابھی تک بھارت میں بھی زبانی جمع خرچ کرنے والے اقدامات ہی سننے اور دیکھنے میں آ رہے ہیں۔سرکاری سطح پر کوئی ایسا بڑا منصوبہ جس میں آلودگی کی آفت سے نمٹنے کے لیے ‘شجرکاری ‘سڑکوں‘ شاہرائوں کی صفائی‘ دھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی اور ان کوپٹرول اور ڈیزل سے بجلی پر منتقل کرنا اورناقص فیول استعمال کرنے والے کارخانوں کو بند کرنا وغیرہ شامل ہو ‘ بھارت میں زیر غور نہیں اور ان مسائل کی بنیادی وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ آبادی میں اضافہ بے شک پاکستان کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے مگر بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح کا سن کر ہوش اڑ جاتے ہیں ۔جی ہاں یہ سالانہ اضافہ ایک کروڑ ستر لاکھ نفوس ہے۔اب یہاں ذکر کرتے ہیں بھارت کے تھنک ٹینکس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا جن کی خود ساختہ کامیابیوں پر بھارت میں فلمیںبنائی جاتیں ہیں تو پتہ نہیں کیوں ایک سوچ پیدا ہوتی ہے کہ بھارت کوintelligent کے بجائے wiseایجنسیوں کی ضرورت ہے‘ جو اپنی بقا کا سوچیں۔