'ناک کا بال‘ اردو کا ایک مشہور محاورہ ہے۔ اس محاورے کا پس منظر جو بھی ہو، آج کے ماحولیاتی حالات نے اس کو ایک نئی شکل اور نئے معنی دے دیے ہیں، یعنی اب یہ بال آلودگی کا پیمانہ بھی قرار پا چکے ہیں۔ اشارے سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ صرف لاہور کی آلودگی نہیں ہے اور نہ ہی صرف پاکستان کی بات ہے بلکہ پورا جنوبی ایشیا اس وقت عالمی اداروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس خطے میں دنیا کی تقریباً بیس فیصد آبادی موجود ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان فضائی آلودگی سے بہت حد تک بچے ہوئے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کی آبادی کا کنٹرول میں رہنا ہے لیکن پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش اس خود پیدا کردہ مشکل کا مکمل طور پر شکار ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان تینوں ملکوں میں آبادی میں سالانہ اڑھائی کروڑ اضافہ ہے۔ یہ سالانہ اضافہ دنیا کے کل اضافے کا ایک تہائی ہے جو یقینا معاشی و ماحولیاتی اعتبار سے ایک خودکش حقیقت ہے۔
اگر ہم ماحولیاتی خرابیوں کی علامت کے رنگ یعنی سیاہ کا ذکر کریں تو سیاہ رنگ بنیادی طور پر ہمارے خطے میں مذمت، ماتم، احتجاج اور تباہی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ آپ نے عام حالات میں مشاہدہ کیا ہو گا کہ جب بھی کسی غلط بلکہ ظالمانہ حرکت کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے تو لوگ اپنے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی علاقے میں موجود پسماندگی اور غربت بالخصوص جہالت کو بیان کرتے ہوئے استعارے اور علامت کے طور پر سیاہ رنگ کو استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں علاقہ غربت یا جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اب تاریکی سے مراد رروشنی کا نہ ہونا ہوتا ہے اور جہاں روشنی نہ ہو تو لامحالہ وہاں اندھیرا ہی ہوگا اور اندھیرے کا رنگ سیاہ ہی ہوتا ہے۔ یہ بات دلچسپ لگتی ہے کہ اندھیرے میں تو کچھ نظر ہی نہیں آتا تو پھر سیاہ رنگ کیسے نظر آتا ہے۔ اس بات پر تھوڑا دھیان دیں تو پتا چلے گا کہ جب انسان اپنی آنکھیں بند کرتا ہے تو اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک رنگ اتر آتا ہے جو سیاہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اپنی آنکھیں زور سے یا مکمل طور پر بند نہ کریں تو بھی آپ سیاہ رنگ کو محسوس کریں گے یا وہ آپ کو دکھائی دے گا؛ البتہ وہ تھوڑا ہلکا سیاہ رنگ ہو گا۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آپ اپنی آنکھیں جتنے زور سے بند کریں گے‘ اندھیرا اتنا ہی گہرا ہوتا جائے گا۔ یہی صورت حال آپ کو عام زندگی میں بھی نظر آئے گی اور لامحالہ قومی اور عالمی سطح پر بھی‘ کہ جس مسئلے سے جتنا اغماض برتا جائے، جسے جتنا نظر انداز کیا جائے، وہ مسئلہ اتنا سنگین ہوتا چلا جاتا ہے اور سیاہ رنگ دور تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔
مختلف شعبہ جات میں کالے رنگ کو مختلف استعاروں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ اگر کراٹے کے کھیل سے واقف ہوں تو پتا چلے گا کہ ایک نوآموز یعنی نئے کھلاڑی کو سب سے پہلے سفید رنگ کی بیلٹ باندھی جاتی ہے۔ اس سفید رنگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کھلاڑی ابھی بے رنگ ہے اور اس نے ابھی کچھ نہیں سیکھا۔ اس کے بعد جب یہ کھلاڑی تربیت اور امتحانات سے گزرتا ہے تو اس کو مرحلہ وار، زرد، اورنج، سبز، نیلے، برائون رنگ کی بیلٹوں سے نوازا جاتا ہے اور سب سے آخر میں اس کو بلیک یعنی سیاہ بیلٹ باندھ دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ سیاہ بیلٹ حاصل کرنے والے کے تمام رنگ پورے ہو گئے ہیں اور اب یہ ماسٹر بن گیا ہے۔ اگر آپ مذکورہ بالا تمام رنگوں کو ملا دیں تو وہ سیاہ رنگ بن جائیں گے، یعنی سیاہ رنگ باقی تمام رنگوں کے ملاپ کا نام ہے لہٰذا اس تناظر میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ تکمیل اور کامیابی کی علامت بھی ہے؛ تاہم ہر چیز کے دو پہلو ضرور ہوتے ہیں۔ کراٹے کی ہی مثال لیتے ہیں، اگر کھلاڑی کراٹے کا مثبت استعمال کرے گا تو اس ہنر کو اپنے دفاع میں استعمال کرے گا لیکن اگر کھلاڑی اس کے غلط استعمال پر اتر آئے تو وہ اس ہنر کو لوگوں پر تشدد اور مار پیٹ کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اب یہ وہی بات ہو گئی کہ اگر بارودی اسلحہ بارڈر پر کھڑا سپاہی استعمال کرتا ہے تو وہ ملک و قوم کے دفاع میں استعمال ہو گا لیکن اسی بارود کا منفی بلکہ نہایت بھیانک استعمال دہشت گردی کیلئے بھی کیا جاتا ہے جو انسانی زندگی کا سب سے بھیانک فعل ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ بارود کوئی بھی استعمال کرے‘ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھویں کا رنگ سیاہ ہی ہو گا۔
اب سیا رنگ کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں اور یہ مکمل مثبت، تعمیری اور ترقی کی علامت والا پہلو ہے۔ میں لکھنے‘ پڑھنے اور پرنٹ میں استعمال ہونے والی سیاہی کا ذکر کر نا چاہ رہا ہوں۔ اس مقصد کے لئے استعمال ہونے والے مواد کا رنگ اگر نیلا یا سرخ ہو‘ تب بھی اسے سیاہی ہی کہا جائے گا بلکہ لال سیاہی، نیلی سیاہی، سبز سیاہی جیسی اصطلاحات ہمارے ہاں عام استعمال ہوتی ہیں جو ایک طرح سے غلط العام ہیں کیونکہ ''اِنک‘‘ کے لیے درست لفظ روشنائی ہے۔ سیاہ کے لیے تو سیاہی کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے، باقیوں کے لیے روشنائی کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ بات سیاہ رنگ کے مثبت استعمال کی ہو رہی تھی، ماضی قدیم اور ماضی قریب ‘ دونوں میں چھپنے والے ہر طرح کے مواد مثلاً کتابوں، رسالوں، جرائد بالخصوص اخبارات‘ جن کی ایک شکل یہ آج کی تحریر بھی ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں‘ کے لیے سیاہ رنگ ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی طرح حروف، سطور اور کتابوں کا حوالہ دے کر قدرے کالی رنگت والے لوگ اپنے رنگ کو خوبصورتی کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کالے رنگ کی تعریف میں کچھ فوک گانے بھی کافی مشہور ہیں۔ اسی طرح مزاح لکھنے اور کامیڈی کرنے والے بھی سیاہ رنگ کے دفاع میں تحریروں میں استعمال ہونے والے سیاہ رنگ کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔
اب بات واپس آلودگی کی طرف‘ اس آلودہ فضا میں جو لوگ پیدل، سائیکل یا موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں یا پھر جنہیں بہت زیادہ رستوں، سڑکوں اور بازاروں میں چلنا پھرنا پڑتا ہے‘ یہ جب گھر جا کر اپنا چہرہ صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سیاہی مائل مواد ان کے چہرے سے اترتا ہے۔ یہ مواد ایک طرح سے ان لوگوں کیلئے یہ پیمانہ ہوتا ہے کہ آج شہر میں کس قدر آلودگی تھی، یا انہیں شہر میں کتنا گھومنا پھرنا پڑا۔ اگر یہ لوگ سفید رنگ کا لباس پہنے ہوئے ہوں تو ان کے کپڑوں پر لگے دھبے بھی یہ واضح کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کتنے آلودہ ماحول میں گھوم پھر رہے تھے۔ بہت سے لوگ اسی لیے سفید رنگ کے لباس کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں‘ خاص طور پر مزدور طبقہ تو شاذ ہی سفید لباس پہنتا ہے۔
اب پوری تحریر کے نچوڑکی بات کرتے ہیں، ابتدا میں بات ہوئی تھی ناک کے بال کی جس سے مراد آپ کی زندگی میں موجود انتہائی اہم شخص ہوتا ہے جس کے آپ ناز نخرے اٹھاتے ہیں، اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ آج کے تناظر میں دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ناک کے بال روز مرہ زندگی میں سانس کے ذریعے داخل ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لئے ایک قدرتی فلٹر کا کام کرتے ہیں اس لئے ان بالوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کو اکھیڑے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے سارا دن پھرنے کے بعد شام کو کسی ٹشو پیپر یا سفید کپڑے سے چہرہ صاف کر کے دیکھ لیں۔ ویسے تو ان بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہی ہوتا ہے لیکن اگر آپ بڑھاپے کی دہلیز پار کر چکے ہیں اور آپ کے بال سفید ہوچکے ہیں تو بھی آلودہ مواد ان کو سیاہ کر دیتا ہے۔